’پتہ نہیں وقار یونس کہاں کھوئے ہیں!‘


ڈیوڈ وارنر

ڈیوڈ وارنر کا بلا گھومتا رہا اور پاکستانی بولر کچھ نہ کر سکے

ڈیوڈ وارنر کا بلا گھومے جا رہا تھا، سکور بورڈ چڑھتا جا رہا تھا اور پاکستانی فیلڈرز کے چہرے اترتے جا رہے تھے۔

لگ بھگ ساڑھے تین سو منٹ تک ڈیوڈ وارنر کریز پر موجود رہے۔ یہ ساڑھے تین سو منٹ پاکستانی بولرز، فیلڈرز، فینز اور ڈریسنگ روم پہ قہر کی مانند گزرے۔

یہ بھی پڑھیے

حارث سہیل کیا سوچ رہے ہیں؟

آسٹریلیا نے برسبین ٹیسٹ ایک اننگز سے جیت لیا

’پاکستان کی قسمت خراب نہیں تھی‘

جیسے ستیاجیت رے کی ‘نوئر’ موویز میں کوئی ایک کردار کسی ایسی صورتِ حال میں گِھر جاتا ہے جہاں سے اسے نکلنے کا کوئی رستہ نظر نہیں آتا اور باقی ساری کہانی کا سفر عجیب سی اذیت میں کٹتا ہے۔ پاکستان بھی ایڈیلیڈ ٹیسٹ کے پہلے دونوں دن اسی بے نام سی اذیت میں مبتلا رہا۔ گابا کی ہار کے بعد پوری دنیا نے انگلیاں اٹھائی تھیں کہ محمد عباس کو کیوں نہیں کھلایا، یہاں کِھلا کے بھی دیکھ لیا۔

سب کہہ رہے تھے حارث سہیل کو ڈراپ کر کے امام الحق کو لایا جائے، لا کے بھی دیکھ لیا۔ سب بولے نسیم شاہ ابھی تیار نہیں تھے، موسیٰ خان سیم کر لیتے ہیں تو انہیں کیوں موقع نہیں دیا گیا، موقع دے کے بھی دیکھ لیا۔

آسٹریلوی ٹیم

آسٹریلوی بولرز نے ان سب حالات سے فائدہ اٹھایا جن سے پاکستانی بولر فائدہ نہ اٹھا سکے

پاکستان نے ایڈیلیڈ ٹیسٹ جیتنے کے لیے اپنے تمام تر دستیاب وسائل جھونک دیے مگر پھر بھی کہیں سے کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہ آیا۔

ہاں ایک چیز جو پاکستان نے نہیں کی اور وہی چیز شاید اس ساری خجالت کی وجہ بھی بنی، وہ تھی گیند کو سٹمپس کی لائن کے اندر رکھنا۔

شاہین شاہ آفریدی اپنا اکیسواں اوور پھینک رہے تھے۔ اس اوور کی کوئی بھی گیند بری نہیں تھی، پچ سے باؤنس بھی مل رہا تھا اور آفریدی سیم بھی کر رہے تھے مگر وارنر اس قدر پر اعتماد ہو چکے تھے کہ اتنی اچھی بولنگ کے باوجود اوور سے گیارہ رنز لوٹ لیے۔

آفریدی نے یقیناً سوچا ہو گا کہ کوئی بدقسمتی ہی تھی جو اتنے اچھے اوور میں بھی دو چوکے پڑ گئے۔ یہ یقیناً بدقسمتی ہی تھی جو لائن ٹھیک ہونے کے باوجود دو گیندوں کی لینتھ ذرا سی پیچھے رہ گئی تھی۔

آسٹریلوی وکٹوں پہ لینتھ کی اتنی خفیف سی گڑبڑ ہی بلے باز کا اعتماد اٹھانے کو کافی ہوتی ہے۔ پہلے دن کے اختتام پہ عباس نے بجا کہا کہ دو نہایت پُر اعتماد بلے باز کریز پہ موجود تھے، اس لیے وکٹ لینا مشکل تھا۔

مگر ساتھ ہی عباس نے یہ بھی کہا کہ پچ سے بولرز کو قطعاً کوئی مدد نہیں ملی۔ جب تک آسٹریلیا کی بیٹنگ جاری تھی، عباس کی رائے درست معلوم ہو رہی تھی۔

مگر جونہی پاکستان کو بیٹنگ کا کہا گیا، اچانک وکٹ بھی نہایت باؤنسی ہو گئی اور گیند بھی سوئنگ ہونے لگا۔ لیکن شاید وکٹ پہلے سے ہی ایسی تھی، پاکستانی پیسرز دراصل اس لینتھ سے ہی دور بھٹکتے رہے جہاں سے مچل سٹارک گیند کو اچانک باؤنس کے ساتھ اندر لانے لگے۔

شاہین آفریدی

پاکستانی بولرز کو زیادہ ڈسپلن کا مظاہرہ کرنا ہو گا

سیریز کے آغاز سے قبل وقار یونس نے کہا تھا کہ نوجوان فاسٹ بولرز پاکستان کا مستقبل ہیں اور ان کا ٹیلنٹ آسٹریلوی بلے بازوں کا امتحان لے گا بشرطیکہ وہ ایک خاص ڈسپلن کے تحت بولنگ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایشین بولرز جب ان وکٹوں پہ اچانک گیند کو اچھل کر اندر باہر جاتے دیکھتے ہیں تو ضرورت سے زیادہ پُرجوش ہو جاتے ہیں۔ انھیں صبر اور ڈسپلن کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

گابا ٹیسٹ کے 157 اوورز اور ایڈیلیڈ ٹیسٹ کے شدید اذیت ناک 127 اوورز میں تو وہ ڈسپلن ہمیں کہیں نظر نہیں آیا۔ پتہ نہیں وقار یونس کہاں کھوئے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32470 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp