پھر سے اے ارض وطن


پاکستان ان ملکوں ‌ میں سے ہے جہاں ‌کی آبادی کا بہت کم حصہ سیاحت کی غرض سے دوسرے ملکوں میں جا سکتا ہے۔ یا تو بیرونی ممالک میں روزگار کی غرض سے گئے وہ پچاس ساٹھ لاکھ افراد ہیں جن کا بیشتر حصہ محنت مزدوری کی خاطر سعودی عرب، عرب امارات اور کچھ ملحقہ ملکوں میں ہے یا یورپی ملکوں میں جا بسے کوئی زیادہ سے زیادہ پانچ لاکھ افراد۔ یا تو سیاحت کی غرض سے بیرون ملک بہت امیر لوگوں کے اہل و عیال جا سکتے ہیں یا پھر کچھ کاروباری افراد عارضی دوروں پر۔ این جی اوز سے وابستہ کچھ سو افراد، ادویہ ساز کمپنیوں کے سیلز مین بنے ضرورت بلا ضرورت مریضوں کو دوائیاں لکھتے ہوئے پورے ملک سے کوئی ایک ہزار ڈاکٹر کچھ روزہ دوروں پر دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں۔

جو عارضی طور پر جاتے ہیں، وہ وہاں جس طرح کی ان کی سوچ ہو ویسے یا کچھ ہٹ کے مزے لوٹ کر آ جاتے ہیں، یہاں اپنے اچھے بنگلوں میں رہنے، اچھے دفاتر کلینکس غیرہ میں کام کرنے اور پھر سے اگلے برس اپنے پیسوں یا کمپنی کے پیسوں سے کسی اور ملک کو ”دیکھنے“ کی خواہش اور پروگرام لیے ہوئے۔ انہیں اپنا وطن جیسا ہے ویسا ہی دکھائی دیتا ہے یعنی ہر دکھنے والی چیز کے عادی یا جو نہ دیکھنا چاہیں، اس سے اغماض برتتے ہوئے۔ جو باقاعدہ وہاں ‌ بسے ہوئے لوگ ہیں، وہ یہاں آتے ہیں، کچھ ناستلجیا کی تسکین کرتے ہیں اور کچھ ملک سے متعلق گلے شکوے کیونکہ انہیں واپس اپنے وطن ہی لوٹنا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کی اولادیں ”ڈرٹی ڈیم کنٹری“ میں ایک دو بار آ کر کے اوبھ جاتے ہیں۔

چونکہ ملک کی آبادی کی اکثریت کو چاہے دبئی ہی سہی کہیں اور جانے کا موقع نہیں ملتا چنانچہ انہیں ملک میں سب چیزیں ”نارمل“ یعنی عمومی لگتی ہیں۔ چاہے وہ گندگی ہو، ٹوٹی ہوئی سڑکیں ہوں، متعفن پانی کے جوہڑ ہوں، بھنبھناتی مکھیاں ہوں، اڑتی نتھنوں میں گھستی اور اشیائے خورونوش پہ جمتی گرد ہو، دفاتر میں خوار ہونا ہو، عدالتوں میں وقت برباد کرنا ہو، بدرووں میں بہتا انسانی فضلہ ہو، انسان کی تحقیر ہو، سربرآوردہ افراد کی بے وجہ توقیر ہو۔

گذشتہ تین برس سے میں ہر چھ ماہ بعد آ کر کے ملک عزیز میں چھ برس رہنے کا وتیرہ اپنائے ہوئے ہوں۔ بڑے شہروں کے پوش سے پسماندہ علاقوں تک میں گھومتا ہوں، چھوٹے قصبوں کی گلیوں میں پھرتا ہوں۔ بسوں کاروں میں سفر کرتا ہوں، سڑکوں کے کناروں پر بے ہنگم ٹریفک سے اڑتی گرد میں پیدل چلتا ہوں۔ کریم کی گاڑیوں میں بھی سفر کرتا ہوں اور سوزوکی وین کے پیچھے پھٹوں پر بیٹھ کر سفر کرنے سے بھی شاکی نہیں ہوتا۔ جس ملک میں 29 برس سے ہوں اور جن جن ملکوں میں جاتا رہا ہوں، ان کے خصائص بھی نگاہ میں رکھتا ہوں اور ارض وطن کے نقائص بھی سامنے ہوتے ہیں۔

مجھے ایک ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا جو فوج سے سول سروس میں آئے ہیں، نوجوان اور ادب دوست انسان ہیں۔ انسان دوست ہونے کے بھی دعویدار ہیں۔ ان کا دفتر ویسا ہی ہے جیسا سبھی بڑے افسروں کا ہوتا ہے۔ ان دفتروں میں جا کر کے عام آدمی ویسے ہی دبدہا یعنی کنفیوژن میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ کہاں آ گیا ہے۔ اتنے بڑے دفتر میں اتنے زیادہ بہت اچھے صوفوں اور کرسیوں کا ”مالک“ بہت بڑا انسان ہوگا۔ خیر بات کچھ اور کر رہا ہوں جس سے بیوروکریسی کا بھی تعلق ہے۔

میں کئی برسوں سے ایک ہی بات کہے جا رہا ہوں کہ جب تک کسی ملک کی بدروئیں ڈھانپی نہیں جاتیں یعنی سیوریج سسٹم نہیں بنایا جاتا تب تک اس ملک میں تمدن کا اگلا قدم طے نہیں ہوگا۔ اس شہر میں بھی جہاں کے ڈی سی کا ذکر کیا، گلیوں میں بڑی بڑی نالیوں میں کئی گھروں کے بیت الخلاء سے اسی طرح انسانی فضلہ لنڈھایا جاتا ہے جیسے کئی قصبوں کی گلیوں میں۔ میرا خیال ہے، ڈپٹی کمشنر کو اختیار ہوگا کہ وہ حکم جاری کر دے کہ جس گھر سے فضلہ نالی میں منتقل کیا گیا اس گھر کے مالک کو بھاری جرمانہ کی سزا دی جائے گی۔

اس طرح کم از کم ایک کریہہ قباحت کا سدباب کیا جا سکتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے نزدیک کی ایک سڑک اس طرح ٹوٹی پھوٹی ہے کہ اس پر رکشے میں سفر کرتے ہوئے رکشاؤں اور مسافروں کے انجر پنجر ڈھیلے ہو جاتے ہیں۔ ساتھ ہی اسی سڑک پر ایک مقام پر گندے نالے کے اطراف میں شاپروں سے اپھنے ہوئے متعفن پانی کے چوبجے بھرے ہوئے ہیں۔ ڈی سی صاحب کبھی تو اپنی ایرکنڈیشند سفید براق سرکاری لینڈ روور میں جس کا نمبر 786 ہے، بیٹھے یہاں سے گزرے ہی ہوں گے۔ ان کے دفتر کے سامنے مین روڈ سے اڑتی ہوئی دھول تو ان کے دفتر کے لان تک پہنچ جاتی ہے مگر۔

یہاں جہاں کئی روز تک عدالت عالیہ میں آرمی ایکٹ کے مبہم ہونے کا تماشا لگا رہا ہو جہاں کے افسران ملازمت میں توسیع اور پھر سے ملازمت میں لیے جانے کا فرق جاننے سے قاصر ہوں۔ جہاں کی فوج کا سربراہ بقول چیف جسٹس کے شٹل کاک بنا دیا گیا ہو اور جہاں موصوف اس سب کے باوجود چھ ماہ کی توسیع پر راضی رہے ہوں، وہاں گندی نالیاں بھلا انسانی فضلہ سے پاک کیونکر ہوں گی؟ اس خاص مقدمے سے پاکستان کی دنیا بھر میں بھد اڑی ہے مگر حکومت وقت کا با اختیار افراد برے میں سے بھلا نچوڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔

یوں اے ارض وطن میں تیرے بھیتر کے درد سمجھنے کو پھر سے تجھ تک پہنچا ہوا ہوں۔ مزید کتنا روئے گی اور مجھے بھی رلاتی جائے گی میری ماں دھرتی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).