پاکستانی میڈیا میں سرقے کا رجحان


ابھی ہم نے ایک پچھلے مضمون میں دیکھا کہ کس طرح پاکستان میں سرقہ کی وبا مرکزی دھارے کے میڈیا اداروں اور ان سے جڑے افراد کو اپنی زد میں لے آتی ہے۔ مضمون کی آرا میں جہاں سرقہ کی ایک اور مثال سامنے آئی وہیں قارئین کی طرف سے رد عمل بھی ملا جو خود میں ایک توانا امر ہے۔ رد عمل ہونا بھی چاہیے۔ جن لوگوں کے فن کو ہم اپنی محبت سے نوازتے ہیں جن کے کردار، زبان و بیاں اور منظر نگاری ہماری ساعتوں کو ساکت کر دیتے ہیں کوئی بھی اٹھ کر ان کے عکس کو برعکس کرنے کی کوشش کرے تو گراں گزرے گا۔ دوسرے یہ احساس بھی ہوا کہ اب پاکستان میں سرقہ کے بارے میں کھل کر بات کی جائے اور اس کو بار آور ہونے سے روکا جائے تاکہ باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی رنگ و روشنی کی دنیا سے جڑے افراد ہماری بے لوث ارادت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکیں۔

زمانے کی نوا ہے کہ کئی قباحتوں کی طرح پاکستان میں پلیجرازم (سرقہ) ، دانشورانہ املاک اور اشاعتی حقوق کے بارے میں بیداری اور سمجھداری ناپید ہے۔ بلاشبہ اس پر مزید کام ہونا ہے لیکن میرا مقدمہ کچھ الگ ہے۔

ادب میں نقب لگانا کیا ہوتا ہے اس کے بارے میں مجھے سب سے پہلے بتانے والے دو پاکستانی ہی تھے اکمل شہزاد گھمن اور احمر سہیل بسرا۔ دونوں ریڈیو پاکستان کے سینئر اہلکار ہیں اور میڈیا میں تحقیقاتی اور سنجیدہ خطوط پر کام کرنے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔

کچھ برس پہلے تک لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس (این سی اے ) میں اکمل ، احمر اور میں ہم جماعت تھے۔ می رقصم کے سے دن تھے۔ سرمد صہبائی، عارف وقار، یونس جاوید سے علم و فن سیکھنے کا عمل جاری تھا۔ ہمیں مزید نصاب پڑھانے کے لئے کالج انتظامیہ نے میڈیا کے ایک صاحب کا انتخاب کیا۔ جماعت میں سب کو ان کا نام بتایا گیا تو حیرت انگیز طور پراکمل اور احمر جیسی خوشگوار روحوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور یہاں تک کہ اگر وہ صاحب پڑھانے آئے تو وہ احتجاج کریں گے اور تدریسی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے۔

جماعت میں سب نے وجہ جاننی چاہی تو انھوں نے ادبی نقب کے بارے میں بتایا اور یہ بھی کہ صاحب مبینہ طور پر نقب کے مرتکب ہوئے ہیں۔ مجھے کچھ خاص سمجھ تو نہیں آیا لیکن احتجاج میں سب کے ساتھ ہو لیا کہ شاید ان صاحب کو ملنے کا موقع مل جائے۔ مجھے مایوسی ہوئی جب انتظامیہ نے اعلان کیا کہ صاحب نہیں آرہے۔ اکمل اور احمر کے بیانئے کو تقویت ملی اور کچھ لوگوں کو لگا کہ سرقہ جیسی چھوٹی سی بات کا ہوا بنا کر ہماری جماعت نے ان صاحب سے مستفید ہونے کا موقع گنوا دیا۔

میں نے صاحب کا نام نہیں لکھا۔ جھجھک نہیں ہے۔ ارادتا نہیں لکھا۔ اس کے بارے میں آگے چل کر بات کرتے ہیں۔ پہلے میں قارئین کے لئے اپنی تازہ نظم پیش کرنا چاہوں گا۔

ہم سوچیں گے، ہم سوچیں گے

ظاہر ہے ہم سب سوچیں گے

روشنی بھی تو اندھا کر دیتی ہے

حسرتوں کا سیلاب سب کچھ بہا لے جا تا ہے

تبھی تو ملتا ہے نور کا جزیرہ جس کا وعدہ ہے

وہاں میں بھی ہوں گا اور تم بھی ہو گے

اطاعتوں کی تپتی ہوئی ریت پر آبلہ پا

ہم سوچیں گے، ہم سوچیں گے

اک دن ہم سب ضرور سوچیں گے

یہ نظم میری ہے۔ میں نے کسی دوسرے شاعر سے کچھ نہیں لیا نہ طرز نہ انداز نہ بحر نہ اسلوب۔ اگر آپ کی رائے اس سے مختلف ہے تو آپ کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔

واپس صاحب کی طرف آتے ہیں۔ ان مضامین کا مقصد گفتگو کو شخصی گرداب میں غوطے دینے کی بجائے سرقہ کے بارے میں آگہی دینا ہے۔ آج کے مضمون کے حوالے سے میری کوشش ہے کہ قارئین اس ادبی گفتگو کا حصہ بنیں اور ایک تعمیری مکالمے کے ذریعے پرکھا جائے کہ یہاں کسی قسم کا سرقہ ہوا ہے یا نہیں۔ کہتے ہیں صاحب نے مبینہ طور پر ایک درویش شاعر کے فن کدے میں نقب لگائی وہاں سے طرز و اسلوب لے اڑے اور ان کے انداز میں اپنی شاعری کی ابتدا کی۔

درویش شاعر ہیں مجید امجد اور ان کے مذکور فن پارے کی چند سطریں :

کاش میں ترے بن گوش کا بندہ ہوتا

رات کو بے خبری میں جو مچل جاتا میں

تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں

صبح کو گرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول

میرے کھو جانے پہ ہوتا ترا دل کتنا ملول

تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں

کاش میں ترے بن گوش کا بندہ ہوتا

صاحب کی مبینہ نقب شدہ چند سطریں :

کاش میں ترے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا

تو بڑے پیار سے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ

اپنی نازک سی کلائی میں چڑھاتی مجھ کو

اور بے تابی سے فرصت کے خزاں لمحوں میں

تو کسی سوچ میں ڈوبی جو گھماتی مجھ کو

میں ترے ہاتھ کی خوشبو سے مہک سا جاتا

کاش میں ترے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا

کچھ سال ہوئے باہر دیس کے ایک میڈیا کورس میں سرقہ کے حوالے سے اساتذہ سے مکالمہ ہوا تو انھیں اندازہ ہوگیا کہ سرقے اور اشاعتی حقوق کے بارے میں میری معلومات محدود سے صفر تک ہی تھیں۔ بتایا گیا کہ جناب سرقہ تو سرقہ ہے۔ آپ کا کوئی بھی خیال، کہانی، نثر، نظم، مضمون، سطر یا سطریں، انداز، طرز، موسیقی، تصویر، خاکہ یا ادب، تحقیق اور فن سے جڑی کوئی بھی اختراع جو کسی اور تخلیق کار کی شائع و نشر شدہ تخلیق جیسی ہو یا حتی کہ ملتی جلتی بھی ہو آپ اس کو حتمی طور پر اپنی تخلیق کے طور پر پیش نہیں کر سکتے۔ ایسی صورت میں تخلیق کار یا اشاعتی حقوق کے ادارے وغیرہ سے باقاعدہ تحریری اجازت لینا یا حوالہ دینا بہت ضروری ہے۔

مزید بتایا گیا کہ یہی اصول آپ کی ا پنی اصل تخلیق پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی تخلیق کا سرقہ ہوا ہے تو آپ قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتے ہیں۔ قانونی حوالے سے اساتذہ نے بتایا کہ کچھ ممالک میں سارق کے لئے بھاری جرمانہ ہے اور اتنے سال قید۔ تذکرہ ہوا کہ دنیا میں کئی جگہیں ایسی ہیں جہاں یہ سرقہ، اشاعتی حقوق وغیرہ کچھ خاص معنی نہیں رکھتے اور تحقیق بتا رہی ہے کہ وہاں ادب و فن کا ارتقا مشکل سے دوچار ہے نئی کھری تخلیقات کی بجائے پرانے خیالات کو ہی بنا سنوار کر پیش کر نے کا عمل جاری ہے۔

میڈیا میں کام کرنے والے اپنے کئی دوستوں کی طرح کچھ عرصہ پہلے تک اشاعتی حقوق کے بارے میں میری معلومات بھی محدود تھیں اور یہی امر ان حقوق میں میری دلچسپی کا باعث بھی ہے۔ آج پاکستان کی فلمیں دنیا بھر میں ریلیز ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ انٹر نیٹ، آئی پی ٹی وی اور نیٹ فلیکس جیسی سٹریمنگ سروسز کے ذریعے پاکستانی فلموں، ڈراموں اور دیگر میڈیا کی رسائی یورپ، امریکہ کینیڈا، آسٹریلیا اور کئی ایسے ممالک تک ہو چکی ہے جہاں سرقہ، اشاعتی حقوق اور دانشورانہ املاک کو قانونی حیثئت حاصل ہے۔

حیران کن امر یہ ہے کہ کچھ آئی پی ٹی وی جیسے آلات کی خرید و فروخت خود میں اشاعتی حقوق کی خلاف ورزی ہے لیکن اس کے باوجود یہ کئی ملین ڈالرز کی صنعت بن چکی ہے اور اس کاروبار سے زیادہ تر پاکستانی افراد منسلک ہیں۔ یہ ایک علیحدہ تحقیق طلب موضوع ہے چنانچہ اس پر پھر گفتگو کریں گے۔ یہاں اس کا ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ایسے پیچیدہ حالات میں کسی بھی قسم کی قانونی پیچیدگی سے بچنے کے لئے پاکستانی میڈیا کے مرکزی دھارے سے جڑے افراد کو ان حقوق کو سامنے رکھتے ہوئے بین الاقوامی معیار اور قانون کے مطابق کام کر نا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).