میڈیا مالکان کو مزید کتنے صحافیوں کی لاشیں چاہییں؟


ہمارے ملک میں میڈیا جو پہلے انتہائی پرکشش انڈسٹری تھی آج وہ انتہائی بھیانک انڈسٹری بن کر سامنے آئی ہے۔ پہلے یونیورسٹیز میں پڑھنے والے اکثر طالبعلم اس انڈسٹری کی طرف نہ صرف خود ہی کھنچے چلے آتے تھے بلکہ ان کے اساتذہ اور میڈیا میں کام کرنے والے بھی اسی طرف آنے کا مشورہ دیتے تھے۔ وہ وقت کوئی اتنا پرانا بھی نہیں، یہ آج سے کوئی دو چار سال پہلے کی ہی کہانی ہے۔ اس وقت میڈیا اپنے عروج پر تھا اور میڈیا کا وہ عروج انہی کارکنوں کی مرعون منت تھا جنہوں نے اپنی پوری عمریں میڈیا کے ان اداروں کو دے دی تھیں۔

وہ ادارے اور ان کے مالکان جنہوں نے سائیکل پر اخبار فروشی کرکے اپنے کاروبار کی شروعات کی تھی اورآگے چل کر انہی مزدورصحافیوں کی محنتوں اور تعاون سے انہوں نے بڑے بڑے ادارے کھڑے کیے اور دیکتھے ہی دیکھتے اربوں کھربوں پتی بن گئے لیکن کارکن؟ یہ صرف ان میڈیائی اداروں کا ہی المیہ ہے کہ ان اداروں کو جو کارکن اپنی قیمتی جوانیاں اور انمول وقت دے کر پروان چڑھاتے رہے، یہ ادارے انہی کارکنوں کے مستقبل سے کھلواڑ کرتے رہے۔

ملک کی دیگر نجی، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور اداروں میں ایک پرائمری پڑھا شخص بھی اگر خدمتگار کے طور پر بھرتی ہوتا ہے تو وہ آؐخر میں کسی اچھے عہدے پر پہنچ کر اضافی تنخواہیں، میڈیکل، پیٹرول، موبائل کارڈ سمیت دیگر کئی مراعتیں بھی حاصل کرچکا ہوتا ہے۔ یہ میڈیا ہی ہے جہاں پر کارکن جتنے بھی سینئر ہوجائیں اداروں کی جتنی بھی خدمت کر چکیں لیکن نا تو ان کی بہتر کارکردگی پر کوئی شاباشی ملتی ہے اور نا ہی تنخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے، مراعتیں تو بہت دور کی بات ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ میڈیا میں آنے والے کارکنوں کی کوئی سماجی حیثیت نہیں رہتی۔ ان کے نہ دن اپنے ہوتے ہیں نہ راتیں۔ ان کی صبحیں اپنی ہوتی ہیں نہ شامیں۔ اتوار کی چھٹی ہو یا سرکاری تعطیل وہ تو ان کو ترستا رہتا ہے۔ ان کارکنوں کوعید، شب برات، گرمیوں، سردیوں، بارشوں اور ہڑتالوں میں تو ہر حال میں آنا ہوتا ہے، ایسے مشکل حالات میں نوکری کسی بھی دوسرے ادارے میں شاید نہیں ہوتی۔

ان اداروں کا قصہ کچھ اس طرح ہے کہ اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا۔ یہاں جو کارکن جتنی محنت اور مشقت سے ادارے کے لئے کام کرتا ہے وہ اتنا ہی نظر انداز رہتا ہے۔ میڈیائی کارکنوں کی محرومیاں یوں تو بہت ساری ہیں لیکن آج کل تو اداروں کے مالکان نے بحران کے نام پر ان کی گھرں میں جلتے چولھے بھی ٹھنڈے کرنا معمول بنا دیا ہے

پہلے ایک پھر دوسرا اور یوں تمام اداروں نے ان کارکنوں کی تین سے چار ماہ تک تنخواہیں روکنے کو اپنی پالیسیوں میں شامل کردیا ہے یہ میڈیا کے مالکان جب اپنے ادارے کے لئے کہیں سے اشتہار لیتے ہیں، کوئی امداد لیتے ہیں تو انہی کارکنوں کے ہی توسط سے لیکن پتہ نہیں کیوں عوام کے دکھوں، تکلیفوں اور مسائل کو اپنی اسکرین پر دکھانے کا کاروبار کرنے والوں کو اپنے کارکنوں کے دکھ، تکلیفیں اور مسائل نظر نہیں آتے۔ سرکاری سطح پر اشتہارات میں کمی کا بہانہ بناکر خودساختہ بحران پیدا کرکے یہ ارب اور کھرب پتی سرمایہ کار ان ہی کارکنوں کی ہزاروں روپوں میں آنے والی تنخواہیں تین تین مہینے تک روک لیتے ہیں۔

ان کو تھوڑا سا بھی احساس نہیں ہوتا کہ جن کارکنوں کے گھر کا چولہا انہی پیسوں سے چلتا ہے، جن کے بچے اسی تنخواہ کے آسرے پر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہ کارکن ان ہی تنخواہوں پر کرایوں کے گھروں میں رہ کر بجلی، گیس اورپانی کے بل ادا کرتے ہیں، اپنے بوڑھے ماں باپ کی دوائیں لیتے ہیں وہی تنخواہ اگر دو تین مہینوں تک نہیں آئے گی تو ان کا حال کیا ہوگا یہ کوئی سرمایہ کار نہیں سوچتا۔ یہی سبب ہے کہ مشکل حالات میں کام کرنے والا یہ کارکن وقت پر تنخواہ نہ ملنے سے نہ صرف شدید پریشانی کا شکار رہتا ہے بلکہ اس کے کام کرنے کی صلاحیت بھی جواب دینے لگتی ہے۔

میڈیا میں کام کرنے والے یہ کارکن مسلسل اسی کیفیت میں رہنے کے دوران ذہنی اور دماغی بیماریوں میں بھی مبتلا ہوتے رہتے ہیں اور کچھ تو ان مسائل اور پریشانیوں سے دل برداشتہ ہوجاتے ہیں۔

حال ہی میں نیوز ون چینل کے ایک کارکن سید محمد عرفان بھی انہی سرمایہ کاروں کی انتہائی بے حسی کا شکار تنخواہ نہ ملنے پر گھریلو مسائل کے باعث دل کا دورہ پڑنے سے دنیا سے کوچ کرگئے اور جانے سے ایک دن پہلے ہی فیس بک پر اپنی یہ کیفیت بیان کرگئے تھے۔ یہ مسئلہ صرف ایک کارکن سید محمد عرفان کا نہیں بلکہ یہ مسئلہ اب پوری انڈسٹری کے کارکنوں کا مسئلہ بن گیا ہے جو آئے روز ان مالکان کی غیر انسانی روش کا شکار ہورہے ہیں۔

ملک کے دیگر اداروں، کمپنیوں اور فیکٹریوں میں تو کارکنوں کے حقوق کے لئے یونینز اور تنظیمیں سرگرم عمل ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ ہماری صحافتی تنظیمیں اور ان کے قائدین بھی ان ہی سرمایہ کاروں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں جو صرف اپنی نوکریاں بچانے اور ان سے مراعتیں لینے میں ہی مصروف ہیں۔ ٓ

یہاں پرسوال یہ ہے کہ میڈیا میں کام کرنے والے ان کارکنوں کو مزید کتنی مصیبتیں جھیلنی ہوں گی، مالکان خود ساختہ بحران کے نام پر اور کتنے کارکنوں کی جانیں لیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).