سرفروشی کی تمنا کرنے والا نا معلوم شخص۔ مکمل کالم


آج کل انقلاب کا فیشن ہے، ایشیا کو سُرخ کرنے کے نعرے لگ رہے ہیں، لال لال لہرایا جا رہا ہے، سرفروشی کی تمنا دلوں میں ہے اور ڈھولک کی تھاپ پر موت کے گیت اِس رومانوی انداز میں گائے جا رہے ہیں کہ بھگت سنگھ کی طرح پھانسی پر جھول جانے کو دل کر رہا ہے۔ رسم موقع بھی ہے تو کیوں نہ ایک سچی مچی کے انقلاب کی کہانی دہرا لی جائے! 30 کی دہائی میں نکولائی چاؤ شسکو نامی ایک شخص رومانیہ کی نوجوان کمیونسٹ تحریک کا رکن تھا، کمیونسٹ سرگرمیوں کی پاداش میں اسے 1936 اور 1940 میں جیل کی ہوا کھانی پڑی، جیل میں اِس کی ملاقات رومانیہ کے کمیونسٹ لیڈر Gheorghe Gheorghiu۔

Dej سے ہوئی اور پھر یہ اُس کا پٹھو بن گیا، یہ وہی شخص تھاجو بعد میں رومانیہ کا وزیر اعظم بنا۔ رومانیہ پر سویت یونین کے قبضے سے کچھ وقت پہلے یعنی 1944 میں چاؤ شسکو جیل سے فرار ہو گیا، بعد ازاں جب رومانیہ میں کمیونسٹوں کی حکومت قائم ہوئی تو پہلے اسے زراعت کا وزیر بنایا گیا اور پھر مسلح افواج کا نائب وزیر مقرر کر دیا گیا۔ چونکہ یہ گیور گیو دیج کے بہت قریب تھا اس لیے کلیدی عہدوں پر فائز رہا اور پولٹ بیورو میں فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کرتا رہا اور عملاً وزیر اعظم کے بعد سب سے طاقتور شخص بن گیا۔

1965 میں گیور گیو دیج کی موت کے بعد چاؤ شسکو کمیونسٹ پارٹی کا سیکریٹری جنرل بن گیا جس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کرنہیں دیکھا، اگلے چوبیس برس تک نکو لائی چاؤ شسکو رومانیہ کا بلا شرکت غیرے مالک رہا۔ اِس دوران چاؤ شسکو نے ایک دلیرانہ اور آزاد خارجہ پالیسی اپنائی او رسوویت یونین کی رومانیہ پر بالا دستی کو ناقابل قبول قرار دیا، یہی نہیں بلکہ وارسا معاہدے سے عملا ً علیحدگی اختیار کر لی اور وارسا اتحادی فوجوں کی چیکو سلواکیہ پر حملے اور سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کی مذمت کی۔ سپر پاور کو آنکھیں دکھانے والے لیڈر سب کو ہی اچھے لگتے ہیں سو چاؤ شسکو نے بھی عوام کی نبض پر درست ہاتھ رکھا اور مقبولیت حاصل کر لی۔ انقلاب کی اصل کہانی مگر یہاں سے شروع ہوتی ہے۔

چاؤ شسکو نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے وہی سب کیا جو ڈکٹیٹر کرتے ہیں، اُس نے ایک خفیہ پولیس بنائی جس کا کام مزاحمت کو کچلنا تھا، کسی قسم کی تنقید یا اپوزیشن چاؤ شسکو سے برداشت نہیں ہوتی تھی سوعوام کی بڑے پیمانے پر خفیہ نگرانی کروائی جاتی اور پھر پولیس کی مدد سے مخالفانہ نظریات رکھنے والوں کو ہراساں کیا جاتا اور اگر وہ باز نہ آتے تو جعلی مقدمات بنا کر انہیں عقوبت خانوں میں بند کردیا جاتا۔ موصوف رومانیہ کی آبادی بڑھانا چاہتے تھے سو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے آنجناب نے ہر قسم کے اسقاط حمل کے طریقوں پر پابندی لگا دی، حکومتی ڈاکٹر باقاعدہ اُن عورتوں پر نظر رکھتے تھے جو بچہ پیدا کرنے کے قابل ہوتیں تاکہ وہ مانع حمل کے طریقے نہ اپنا سکیں، اس شاہکار پالیسی کے نتیجے میں عورتوں نے اسقاط حمل کے فرسودہ اور غیر محفوظ طریقے اپنانے شروع کر دیے جس سے زچگی کی شر ح اموات میں ہولناک اضافہ ہوا۔

معیشت کے ساتھ بھی چاؤ شسکو نے ایسا ہی کھلواڑ کیا، بے تکی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں جب ملک پر قرضوں کا بوجھ حد سے بڑھ گیا تو اسے اتارنے کے لیے 1982 میں اس نے حکم دیا کہ زیادہ سے زیادہ زرعی او ر صنعتی مصنوعات درآمد کی جائیں، نتیجے میں ملک کے اندر خوراک، تیل، ادویات اور بنیادی اشیا کی شدید قلت ہو گئی اور لوگوں کی روز مرہ زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی۔ پھر و ہ ہوا جس کی رومانیہ میں کسی کو امید نہیں تھی۔

رومانیہ کے ایک شہر Timisoaraمیں ایک چھوٹا سا نسلی فساد اچانک بڑھ کر حکومت مخالف مظاہرے میں تبدیل ہو گیا جس پر قابو پانے کے لیے پولیس نے 17 دسمبر 1989 کو گولی چلا دی جس کے نتیجے میں بچوں اور عورتو ں سمیت کئی لوگ مارے گئے۔ اگلے روز چاؤ شسکو ایران کے دورے پر گیا اور اپنی بیوی اور اعلی حکام کو ذمہ داری سونپ گیا کہ اس کے آنے تک بغاوت کچل دی جائے مگر 20 دسمبر کو اُس کی واپسی تک حالات مزید خراب ہو گئے تو اُس نے ٹی وی پر خطاب میں کہا کہ یہ بیرونی قوتوں کی رومانیہ کو غیر مستحکم کرنے کی سازش ہے، اِس خطاب کا اثر یہ ہوا کہ جن لوگوں کو ذرا برابر بھی اندازہ نہیں تھا کہ حکومت مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں انہیں بھی علم ہو گیا۔

اگلے روز 21 دسمبر کو چاؤ شسکو نے فیصلہ کیا کہ وہ دارلحکومت بخارسٹ کے انقلابی سکوائر میں عوامی اجتماع سے اپنا کرشماتی خطاب کرے گا۔ کمیونسٹ پارٹی کے ہیڈ کوارٹر کی عمارت کی بالکونی میں کھڑے ہو کر چاؤ شسکو نے اپنی تقریر شروع کی، ساتھ اُس کی بیوی Elenaتھی اور حکومت کے اعلیٰ عہدے دار اور فوجی حکام۔ ہزاروں لوگ اُس کی تقریر سننے کے لیے جمع تھے، چاؤ شسکو اس سے پہلے درجنوں ایسی تقاریر کر چکا تھا مگر اِس مرتبہ وہ ہوا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، جونہی اُس کی تقریر کو چند منٹ گزرے، مجمع نے ہوٹنگ کرنی شروع کر دی، چاؤ شسکو کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا، اُس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا، اسے یقین ہی نہیں آیا کہ یہ وہی رومانیہ ہے جہاں اُس کی مرضی کے بغیر کوئی چوں نہیں کر سکتا تھا اور آج بخارسٹ شہر میں اس کی تقریر کے درمیان لوگ آوازیں نکال کر اس کی تضحیک کر رہے ہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے!

چاؤ شسکو کی یہ تقریر یو ٹیوب پر موجود ہے اور لاکھوں مرتبہ دیکھی جا چکی ہے، اُس کے چہرے کے تاثرات نا قابل بیان ہیں، وہ بار بار مائیک میں یوں ہیلو ہیلو کہتا ہے جیسے یہ سب مائیک کا قصور ہو کہ لوگ ہوٹنگ کر رہے ہیں۔ چاؤ شسکو کی تقریر نہ صرف مشرقی یورپ میں کمیونزم کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی بلکہ خود چاؤ شسکو کے تابوت کا سبب بھی بنی۔ چاؤ شسکو نے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا کہ اصل انقلاب کیسا ہوتا ہے، تقریر کے بعد چاؤ شسکو عمارت کے اندر چلا گیا مگر لوگوں نے بخارسٹ کی سڑکوں پر ہنگامے شروع کر دیے، پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں اور رات تک سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔

اگلے روز 22 دسمبر کی صبح تک مظاہرے پورے ملک میں پھیل گئے، چاؤ شسکو نے فون کی سربراہی خود سنبھال لی مگر فائدہ نہ ہوا، عوام کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی دفتر میں داخل ہو گئے، چاؤ شسکو کے محافظ بھی انہیں نہ روک سکے مگر وہ چاؤ شسکو کو نہ پا سکے جو اپنی بیوی کے ساتھ عمارت کی چھت سے ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر فرار ہو گیا لیکن یہ طریقہ بھی کام نہ آیا کیونکہ فوج اور پولیس اُس کی حمایت سے ہاتھ اٹھا چکے تھے۔ 25 دسمبر 1989 کو چاؤ شسکو اور اُس کی بیوی کو گرفتار کر کے چھوٹے سے کمرے میں بنائی گئی ایک عدالت میں پیش کیا گیا، اسی وقت ان کے مقدمے کا فیصلہ کر کے انہیں قتل عام کا مجرم قرار دیا گیا اور گولی مارنے کا حکم سنایا گیا، حکم پرفوری عمل ہوا اور چاؤ شسکو اور اُس کی بیوی کو ایک ساتھ کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا گیا۔

17 دسمبر 1989 سے لے کر 25 دسمبر 1989 تک محض آٹھ دن میں رومانیہ میں جو کچھ ہوا وہ انقلاب کی ایک عظیم داستان ہے، اصل انقلاب وہ نہیں تھا جس کا دعوی چاؤ شسکو نے 1965 میں کیا تھا، اصل انقلاب وہ تھا جب چاؤ شسکو کی تقریر کے دوران ایک نا معلوم شخص نے اسے للکارنے کی ہمت کی تھی اور چاؤ شسکو لرز کر رہ گیا تھا۔ اُس نا معلوم شخص کے دل میں بھی سرفروشی کی تمنا تھی، آج ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں بھی وہی تمنا ہے!

(ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کیا گیا)

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 496 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada