طلبا یکجہتی مارچ: مال روڈ پر احتجاج کرنے پر طلبا اور اساتذہ کے خلاف مقدمہ درج


طلبا احتجاج

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کی پولیس نے شہر کے مال روڈ پر طلبا یکجہتی مارچ کے سینکڑوں شرکا کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔

جمعے کے روز لاہور سمیت پاکستان بھر میں سینکڑوں طلبا اپنے حقوق کے مطالبہ کرتے وئے سڑکوں پر نکل آئے اور انھوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

لاہور میں احتجاج کا حصہ بننے پر پولیس نے مشال خان کے والد اقبال لالا کو بھی ایف آئی آر میں نامزد کیا ہے۔ مشال خان کو عبدالولی خان یونیورسٹی میں سنہ 2017 میں مبینہ طور پر توہین رسالت کے الزام میں طلبا نے تشدد کرکے ہلاک کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

طلبہ یکجہتی مارچ سے خوف کس کو ہے؟

پاکستان میں نوجوانوں کا طلبا یکجہتی مارچ

یکجہتی مارچ: پاکستان بھر میں طلبا سڑکوں پر

پنجاب یونیورسٹی کے چیف سکیورٹی آفیسر کرنل ریٹائرڈ عبید نے بی بی سی کی نامہ نگار ترہب اصغر کو بتایا کہ عالمگیر کل یونیورسٹی میں آئے تھے۔ ان کے مطابق عالمگیر گذشتہ سال یونیورسٹی سے تعلیم کر چکے ہیں اور اپنی سند یا کسی اور کام کے سلسلے میں یونیورسٹی آئے تھے۔

کرنل عبید نے نے کہا ہے کہ سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج سے تصدیق ہوئی ہے کہ ’گذشتہ روز یونیورسٹی میں سرکاری نمبر پلیٹس والی گاڑیاں داخل ہوئیں تھیں اور یونیورسٹی میں کارروائی ہوئی تھی۔‘ انھوں نے مزید بتایا کہ شام ساڑھے پانچ بجے موبائل سے عالمگیر کی لوکیشن برکت مارکیٹ آرہی تھی۔

کرنل عبید کا کہنا ہے کہ انھوں نے کسی کو عالمگیر کو اٹھاتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔

یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اطلاعات کے مطابق اس وقت عالمگیر وزیر سول لائن تھانے میں موجود ہیں اور ان کے خلاف مقدمہ درج ہے۔

پنجاب یونیورسٹی

پنجاب یونیورسٹی سے مبینہ طور پر لاپتہ کیے جانے والے عالمگیر وزیر سمیت تقریباً تین سو نامعلوم افراد کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ پولیس ایف آئی آر میں الزامات عائد کیے گئے ہیں کہ ریلی کے شرکا نے حکومتی اور ریاستی اداروں کے خلاف تقاریر کیں۔

رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے پنجاب یونیورسٹی کے طالبعلم عالمگیر وزیر جو ایم این اے علی وزیر کے بھتیجے ہیں، کو مبینہ طور پر کیمپس سے لاپتہ کیے جانے پر ٹویٹر پر مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے الزام عائد کیا ہے کہ وزیر کو یونورسٹی سے چند نامعلوم افراد اٹھا کر لے گئے ہیں جو انتہائی شرمناک ہے۔

https://twitter.com/mjdawar/status/1200855732712878080?s=20

یاد رہے کہ پاکستان کے درجنوں شہروں میں نماز جمعہ کے بعد نوجوانوں کے طلبا یکجہتی مارچ کا انعقاد کیا گیا۔ لاہور، کراچی، اسلام آباد اور پشاور سمیت کئی شہروں میں طالب علم اور نوجوان اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔

لاہور پولیس نے اس احتجاج کے خلاف درج اپنی رپورٹ میں پروفیسر عمار علی جان اور سماجی کارکن فاروق طارق کا نام بھی درج ہے۔

عمار علی جان نے ٹویٹر پر پولیس مقدمے کی تفصیلات شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انھوں نے گورنر پنجاب سے ملاقات کرکے انھیں باور کرایا ہے کہ طلبا کا احتجاج پرامن تھا۔

https://twitter.com/ammaralijan/status/1201071613648744448?s=20

لاہور میں ناصر باغ سے شروع ہونے والے اس مارچ میں طلبا کی بڑی تعداد نے پنجاب اسمبلی کے باہر پہنچ کر ’انقلاب انقلاب‘ کے نعرے لگائے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔

طلبا کا کہنا تھا کہ وہ اپنے حقوق کے حصول اور اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف باہر نکلے ہیں۔

مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں ہلاک کیے گئے طالب علم مشال خان کے والد اقبال خان بھی لاہور میں طلبا کے اس احتجاج کا حصہ بنے۔

اس احتجاج میں شریک آئمہ کھوسہ نے ٹویٹر پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے دفتر کے باہر احتجاج کرنے والے طلبا کی تصاویر شیئر کی ہیں۔ جو اس احتجاج کے ذریعے مبینہ طور پر اپنے لاپتہ کیے گئے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

https://twitter.com/aimaMK/status/1201045360602501121?s=20

بی بی سی کی نامہ نگار ترہب اصغر نے مارچ کے منتظمین سے گفتگو کی اور چند سوالات پوچھے تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ یہ مارچ کیوں کیا جا رہا ہے اور اس کا آغاز کہاں سے ہوا؟

سٹوڈنٹ مارچ کیا ہے اور کب شروع ہوا؟

پروگریسیو سٹوڈنٹ کلیکٹیو تنظیم کے بانیوں میں سے ایک حیدر کلیم نے بی بی سی کو بتایا کہ اس تنظیم کا آغاز ستمبر 2016 میں ہوا جب چند طلبہ نے ایک ساتھ بیٹھ کر ایک سٹڈی سرکل یا مطالعہ کرنے کے لیے گروپ بنایا۔

انھوں نے بتایا ’اس گروپ میں شامل طلبا نے جب مختلف موضوعات پر کتابیں اور فلسفہ پڑھا تو ہم میں تنقیدی رحجان پیدا ہوا اور ہم نے سوال کرنا شروع کر دیا کہ ہم نے پڑھ لیا، ہم تنقید کرنا بھی جان گئے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ مسئلہ کیا ہے تو اب ہم کیا کریں گے؟‘

https://www.facebook.com/bbcurdu/videos/1462435630587662/

’اس پر ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنی آواز دوسروں تک پہنچائیں گے۔ پھر ہم اس پیغام کو مختلف سرکاری تعلیمی اداروں میں لے کر گئے۔ ہم نے وہاں پر سٹڈی سرکل شروع کر دیے اور اس دو سے ڈھائی سال کے عرصے میں تقریباً پانچ سو چھوٹے بڑے احتجاج بھی کیے۔‘

وہ بتاتے ہیں ’جب ہم نے یہ دیکھا کہ احتجاج صرف ہم ہی نہیں بلکہ دوسری طلبہ تنظیمیں بھی کر رہی ہیں تو 2018 میں ہم نے سوچا کہ اس احتجاج کو ایک بڑی شکل دینی چاہیے تاکہ لوگوں کے جذبات اور مطالبات کی عکاسی اس احتجاج میں نظر آ سکے۔ اس طرح ہم تمام طلبہ مل کر نکلے اور ہم نے اپنے مطالبات کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp