گل سما کے نام: وہ پھول جسے پتھروں سے کچلا گیا


گل سما، میری بچی ہم تم سے شرمندہ ہیں!

آنکھ سے لہو ٹپکتا ہے اور دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہیں!

نہیں معلوم تمہاری جنم دینے والی ماں تمہارے نازک بدن کو ہڈیوں اور گوشت کا ایک ڈھیر دیکھ کے زندہ درگور ہوئی یا تمہارے ساتھ ہی چل بسی!

میری بچی! تمہاری بدقسمتی کہ تم اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ دور میں تو پیدا ہوئیں لیکن تمہارا واسطہ انہی وحشی، سنگ دل، جابروں سے پڑا جن کے سیاہ دلوں کو اسلام کی روشنی منور نہیں کر سکی اور شاید وہ انسان ہیں ہی نہیں۔

سنا ہے، تمہیں زندگی کی آخری سرحد پہ کھڑے، اپنی قبروں میں پاؤں لٹکائے سنکی بڈھوں نے کاری کرنے کا حکم دیا۔ جو جنت کی امیدواری میں ایک اور تمغہ چھاتی پہ سجانے کے لئے بے چین تھے۔ جن کی مردہ بے نور آنکھیں تمہارے ننھے جسم کو ٹٹولتی تھیں اور سنگباری سے تمہاری زندگی کی آخری سانسوں کا فیصلہ کرتی تھیں۔

میں تم سے کبھی مل نہیں سکی اور تمہاری بھولی صورت کو دل میں اتار نہیں سکی۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ دس سال کی بچی کیسی دکھا کرتی ہے، آخر میں دو بچیوں کی ماں ہوں۔

میں تصور کی آنکھ سے دیکھ سکتی ہوں کہ تم نےابھی بچپن کی دہلیز کو پار نہیں کیا ہو گا۔ بھولی سی صورت، بڑی بڑی سرمہ بھری آنکھیں، بالوں کی دو چوٹیاں، رنگ برنگی چھینٹ کا کرتا، ہاتھ میں کپڑے کی گڑیا، نرم آواز، لبوں سے پھوٹتی ہنسی۔ اور بھلا دس سالہ بچی کیسی ہوا کرتی ہے۔

تم ابھی اماں کی گود میں سر چھپا کے سوتی ہوں گی۔ بہن بھائیوں سے نوک جھونک بھی چلتی ہو گی۔ سہیلیوں کے ساتھ صحن کے آنگن میں کھیلتی ہوں گی۔ معلوم نہیں، غبارے والا تمہاری بستی میں آتا ہو گا کہ نہیں اور نکڑ کی دوکان سے قلفی تو کھاتی ہی ہوں گی۔

ہم سوچتے ہیں کہ سکول تو تم جاتی ہی ہوں گی اور شاید چہارم یا پنجم میں پڑھتی ہوں گی۔ روز سکول جانا، ہم جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کے سبق یاد کرنا، شرارتیں کرنا، استانی سے بات کرنے کی کوشش کرنا، وقفے میں اماں کا دیا ہوا ڈبہ کھولنا اور دیکھ کے ناک بھوں چڑھانا اور کہنا پھر وہی اچار اور روٹی۔ وقفے میں سہیلیوں کے ساتھ پٹھو گرم کھیلنا، اور تھوڑی بے ایمانی کے بعد خوب ہنسنا۔

سکول واپسی سے نیلے آسمان اور اڑتے پرندوں کو دیکھنا اور پھر یہ سوچنا کہ شاید میں بھی ایک دن ایسے ہی پرواز کروں گی۔ تتلیوں کو پکڑنا اور ان کے رنگ اپنی انگلیوں پہ دیکھ کے اداس ہو جانا۔ تمہیں کیا معلوم تھا کہ ایک دن تم بھی اپنے رنگ کچھ ظالم ہاتھوں پہ مل دو گی کہ پھر وہ چاہیں بھی تو ان رنگوں کو دھو نہیں سکتے۔

اس شام باہر ہواؤں میں تندی ہو گی، تم نے ماں کے ہاتھ کی روٹی کھائی ہو گی۔ تم نے بستہ کھول کے کتاب سے سبق یاد کرنا شروع کیا ہو گا۔ تم ماں کو کبھی کبھی نظر اٹھا کے دیکھتی ہو گی اور سوچتی ہو گی،

آخر ماں اتنی خاموش کیوں ہے؟ ماں زخمی نگاہوں سے میری بلائیں کیوں لیتی ہے؟ آج مجھے زیادہ ہنسنے سے منع بھی نہیں کیا۔ اور سب سے چھپا کے اپنے آنسو کیوں پونچھتی ہے؟

بابا بھی جانے کہاں ہے؟ مجھ سے پچھلے کچھ دنوں سے بات ہی نہیں کر رہا۔ کل بھی میں نے میلے پہ لے جانے کا پوچھا تھا، جواب ہی نہیں دیا۔ کل رات ماں جب اس کے سامنے ہاتھ جوڑ رہی تھی، جانے کیوں اس نے منہ پھیر لیا تھا؟

آج باہر ہوائیں اتنی تیز کیوں ہیں؟ جیسے کائنات سسکیاں بھر رہی ہو۔ جب کھڑکی زور سے بجتی ہے تو دل ڈر جاتا ہے۔ باہر اندھیرا بھی تو بہت ہے، ارے دروازے پہ آہٹ ہوئی۔ شاید بابا آیا ہے، یہ اماں کو کیا ہوا؟ اس کی آواز کیوں کپکپانے لگی؟ یہ مجھے چومتی ہی کیوں جا رہی ہے؟

ماں، ماں، تو بولتی کیوں نہیں؟

ماں، بابا مجھے ساتھ چلنے کو کہہ رہا ہے نہ جانے کہاں ؟ اس وقت تو نکڑ والی دوکان بھی بند ہوتی ہے۔ ماں تو رو کیوں رہی ہے؟ میں تو بابا کے ساتھ جا رہی ہوں، کسی غیر کے ساتھ تو نہیں۔

بابا، تم مجھے کہاں لے آئے ہو؟ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ سب کیوں جمع ہیں میرے گرد؟

بابا، مجھے ڈر لگ رہا ہے، مجھے گھر لے چلو بابا۔ مجھے اماں کے پاس جانا ہے، ابھی سکول کا کام بھی باقی ہے اور ہاں ابھی میں نے اپنی گڑیا کا کرتا بھی آدھا ہی سیا ہے۔

 بابا، دیکھو تو یہ کون آدمی ہے؟ مجھے گھسیٹ رہا ہے بابا، میرا ہاتھ مت چھوڑو بابا۔ میں تمہاری بیٹی ہوں نا بابا۔

بابا مجھے کہاں پھینک دیا، بابا مجھے اس گڑھے میں کیوں اتار دیا؟ بابا مجھے ڈر لگ رہا ہے، بابا میں وعدہ کرتی ہوں آئندہ کوئی شرارت نہیں کروں گی۔

بابا، یہ سب پتھر کیوں اٹھائے ہوئے ہیں؟ بابا، یہ چاچا ہے نا، اس کے ہاتھ میں اینٹ کیوں ہے؟ اور وہ ماما، اس کے دونوں ہاتھوں میں پتھر۔ بابا کچھ بولو نا، بتاتے کیوں نہیں؟

آہ، آہ بابا، بابا، چاچا نے مجھے اینٹ دے ماری۔ بابا مجھے پکڑ لو، بابا مجھے بچا لو۔ میرا سر ، بابا دیکھو، خون بہہ رہا ہے، درد بہت ہے۔

اف، ایک اور ضرب، مجھے نظر نہیں آ رہا، آنکھوں میں خون ہے۔ اف ایک اور پتھر، بابا، بابا، بابا۔

اوہ میرے خدا!

بابا تو سنتا نہیں، تو ہی سن لے۔مجھے بہت درد ہو رہا ہے، کچھ نظر نہیں آرہا۔ میں گڑھے میں ڈھیر ہو چکی ہوں، میرے منہ میں مٹی بھی ہے اور نمکین سا ذائقہ بھی۔

آہ ایک اور ضرب، بس کرو، بس کرو، مجھے درد ہو رہا ہے، سانس نہیں آ رہی

ایک اور پتھر… ایک اور… ایک اور… آہ ، آہ آہ……………..

میں کہاں آ گئی ؟ بہت روشن جگہ، بہت پرسکون۔ یہ کس نے مجھے گود میں لے لیا ؟ یہ کون ہیں محبت بھری نظروں سے دیکھنے والی اداس ہستیاں ؟

مجھے اب درد نہیں ہو رہا، خون بھی نہیں بہہ رہا۔

لیکن مجھے اب تک سمجھ نہیں آئی کہ یہ میرا قصور کیا تھا؟ میں تو ماں اور بابا کا کہنا مانتی تھی۔ میری استانی بھی مجھے اچھی بچی کہتی تھی۔ میں تو قرآن کا سبق بھی پڑھتی تھی، نماز بھی یاد کر چکی تھی۔ بابا، ابھی تو مجھے بڑے ہونا تھا، پڑھنا تھا۔ مجھ سے زندگی کیوں چھین لی بابا؟

بابا اماں کو جا کے بتا دینا میں اسے یاد کروں گی یہاں۔ چھوٹے کو کہنا کہ اب وہ میرا بستر لے لے۔ اور میری گڑیا پھینک دینا بابا، دنیا میں ویسے بھی گڑیوں کی جگہ نہیں ہوتی۔ میری استانی کو بتا دینا کہ میں نے سبق یاد کر لیا تھا مجھے بھی استانی بننا تھا۔

جاؤ بابا، گھر جاؤ، رات ڈھل رہی ہے، ماں رو رہی ہو گی۔ ویسے اچھا ہوتا اگر تم مجھے ایک دفعہ گلے سے لگا لیتے، مجھے ایک الوداعی بوسہ دے دیتے۔

خدا حافظ بابا، جاؤ میں نے تمہیں معاف کیا ، تم جو کہتے ہو کہ میں کھیلتے ہوئے سر پر پتھر گرنے سے مر گئی۔۔۔

اور سندھ کے اس وزیر کو بھی معاف کیا جو کہتا ہے کہ دادو کے علاقے جوہی میں لڑکی کو کارو کاری کرنے کے شواہد نہیں ملے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments