’ انصاف کے سیکٹر‘ کوبھی غیر سیاسی ہونا چاہیے!


انگریزی اخبار نے سرخی جمائی۔ ”سپریم کورٹ کی تاریخی جنگ کے لیے تیاری“۔

ملک میں ہیجانی کیفیت طاری تھی تودوروز تک معرکے کی ولولہ انگیزرپورٹیں اور آتشیں مضامین اخبارات کی زینت بنتے رہے۔ مخصوص ٹی وی چینلز کی تو جیسے چاندی ہو گئی ہو۔ ایک طرف سپریم کورٹ تو دوسری طرف اسلام آباد ہائی کورٹ میں جاری سماعتوں سے بیک وقت اٹھائے گئے ریمارکس اپنے مخصوص عدالتی رپورٹرز کی چیختی آوازوں میں سنا سنا کر ان چینلز نے ہمیں آن لیا تھا۔ سماعت کے دوسرے روز جب کھینچ اکھیڑ کر ایک ایک بال کی کھال اتاری جارہی تھی تو دھرنا اٹھائے جانے کے غم میں اوندھے پڑے ہوؤں کے جسم بھی انگڑایاں لینے لگے۔ کچھ اور بھی تھے جوسانس روکے، کان دیواروں سے لگائے بیٹھے تھے۔ سامنے آنے کی ہمت جن میں نہیں تھی!

جن کی آنکھوں پر گروہی و سیاسی مفادات موتیا بن کر اتر چکے ہوں ان کا معاملہ تو خدا کے سپرد، لاکھوں پاکستانیوں کی طرح مگر میں کہ ایک عام شہری، ایک ازکارِ رفتہ سپاہی، دل گرفتگی کی سی حالت میں رہا۔ اپنے عزیز کورس میٹ کی چئیرمین جائینٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدے پر تعیناتی کی خوشی میں ہم سب سر شار تھے کہ حکومتی نوٹیفیکیشن کے مسترد ہونے کی صورت میں ایک اور کورس میٹ کی پاک فوج کے اعلی ترین عہدے پر تعیناتی کے امکانات پیدا ہوتے نظر آنے لگے۔ خدا لگتی مگر کہوں تو اس مسّرت بھرے امکان کے باوجود میرے لیے موجودہ آرمی چیف کے ساتھ ان کے عہدے کی معیاد پوری ہونے کے آخری دو دنوں میں برتا جانے والا سلوک اس سے بڑھ کر تکلیف کا باعث رہا۔

خدا کا شکر ہے کہ بالآخر ہمارے سسٹم نے ایک راستہ نکالا اور تیسرے روز چیف جسٹس آف پاکستان اور ان کے ساتھی ججوں کے مدبرانہ رویّوں اور دوررس فیصلے نے قوم کے اوسان بحال کیے۔ فیصلہ آتے ہی یار لوگوں کی امیدوں کے چراغ گل ہوئے توآبدیدہ ہو کر جنرل باجوہ سے از خود مستعفی ہو جانے کا مطالبہ کرنے لگے۔ طحہ صدیقی نامی ایک خود ساختہ بھگوڑے نے تو ٹویٹر پر پاک فوج کے جرنیلوں سے مطالبہ کر دیاکہ وہ آگے بڑھ کر اپنے چیف کو ان کے عہدے سے ہٹا دیں۔ یہ صاحب اس گروہ کے ہراول دستے میں سے ہیں جو ہمہ وقت آئین و قانون کی بالادستی کے گیت گاتا ہے۔ ان صاحب کی یہ حیثیت تو ہر گز نہیں کہ ان کا ذکر بھی کیا جائے، تاہم دیگ سے چن کر ایک ’مزاحمتی دانشور‘ کودکھانا مقصود تھا۔

دو ہیجان انگیز دنوں میں ابھرتے سمٹے طوفان کی سنگینی کا ادراک ان عناصر کو ابھی نہیں ہوا ہوگا کہ جنرل باجوہ کی ریٹائر منٹ میں حکومت کے گرنے کے جو امکانات ڈھونڈتے ہیں۔ یہ وقت فی الحال دور کی کوڑیاں لانے کا ہے بھی نہیں۔ تاہم میں پاک فوج کے سنیئرکمانڈرز کو قانون، ڈسپلن اور اپنے سپہ سالار کے ساتھ آخری دن تک کھڑے رہنے پرخراجِ تحسین پیش کرتاہوں۔ کوئی بھی فوج محض ٹینکوں، توپوں، اور بندوقوں پر نہیں بلکہ بنیادی طور پر گوشت پوست کے انسانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ افراد کے اندر تمام تر انسانی جذبات، بشمول اعلی اقدار اور انسانی کمزوریاں، بدرجہ اتم موجود رہتی ہیں۔

چیف جسٹس نے دوران ِ سماعت فوجی افسروں سے لئے جانے والے حلف کا ذکر کیا۔ دنیا کا کوئی پیشہ، فرائض کی انجام دہی کے راستے میں جان سے جانے کی قسم نہیں کھاتا۔ یار لوگوں نے اس نقطے کو چھوڑ کر دوسرے کو پکڑ لیا اور سوشل میڈیا پر فوج کے افسروں کا حلف پھیلانے لگے۔ افواج کی سیاسی معاملات میں دخل اندازی کے باب میں دو آرا ممکن نہیں۔ مگر کیا اس امر سے بھی انکار ممکن ہے کہ کسی نہ کسی صورت فوج کو ان معاملات میں خود حکمران گھسیٹتے ہیں۔

کیا ہی بہتر ہو کہ ہم اپنے اداروں کو زیر کرنے کا سوچنے کی بجائے سویلین اداروں کو مضبوط کرنے کے لیے یکسو ہوں۔ سول ادارے توانا ہوں گے تو عسکری اداروں کا غیر عسکری معاملات میں کردار خود بخود سمٹ جائے گا۔ انتخابات کروانے والی مشینری اور پولیس پر عوام کا اعتماد اور اداروں کی استعداد معقول حد تک بڑھ جائے تو فوج کو انتخابات کے لئے چھاؤنیوں سے طلب کرنے کی حاجت باقی نہیں رہے گی۔

جہاں فوج کی بحیثیت ادارہ سیاسی معاملات سے لاتعلقی پر فکری یکسوئی ہے تو وہیں ایک اور ادارہ کہ جسے ہر صورت سیاسی اور گروہی مفادات سے بالاتر ہونا چاہیے، جناب چیف جسٹس کے الفاظ میں ”انصاف کا سیکٹر“ ہے۔ ملتان بار سے اپنے حالیہ خطاب میں جسٹس کھوسہ نے خود فرمایاکہ ملک میں سنیئر وکلاء کی نسبت جونیئر وکلاء کی تعداد غیر معمولی طور پر بڑھ چکی ہے۔ اس امر کی بنیادی وجہ قریہ قریہ کھنبیوں کی طرح اُگنے والے پرائیوٹ لاء کالجز سے غول در غول ”فارغ التحصیل“ ہونے والے وہ ڈھیروں وکلا ء ہیں کہ جن کی تعلیمی قابلیت اور پیشہ وارانہ استعداد پر خود عزت مآب نے اپنی گہری فکر مندی کا اظہار فرمایا ہے۔

بد قسمتی سے جسٹس افتخار چوہدری نے اپنے مفادات کی نگہبانی کے لئے نوجوان وکلاء کے ان منہ زور جتھوں کو اپنی ’سپاہ‘ قرار دے کر ان کے متشدد روّیوں سے صرفِ نظر برتنے کی جو روایت ڈالی تھی اس کو بدلنا اب اس قدر سہل نہیں رہا۔ گزشتہ دو عشروں میں ظہور پزیر ہونے والی ’وکلاء گردی‘ کی اصطلاح، اس شاندار پیشے میں انحطاط کا استعارہ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ روزی روٹی کی لئی ان وکلاء کا انحصار اپنی پیشہ وارانہ قابلیت کی بجائے وکلاء تنظیموں اور سیاسی وابستگیوں پر بڑھتا چلا گیا ہے۔

آج بڑے بڑے وکلاء رہنما، وکلاء تنظیمیں، حتی کہ بارز (Bars) تک واضح طور پر شدید سیاسی تقسیم کا شکار نظر آتے ہیں۔ لہٰذہ کسی ایک قانونی معاملے پر اکثر وکلاء کی رائے قانونی نکات کی بجائے ان کی سیاسی وابستگی کے زیرِ اثر نظر آتی ہے۔ عدالت کے اندر، عدالت کے باہر، حتی کہ ٹی وی چینلز پر آئے روزنظر آنے والے وکلاء کا محض نام اور چہرہ دیکھ کر ہی کسی بھی معاملے پر میرے اور آپ جیسا عامی بھی زیادہ تر قانون دانوں کی رائے کا پیشگی اندازہ کر سکتا ہے۔

اگر تقسیم اس قدر گہری ہوجائے کہ بارز اور وکلاء تنظیموں کے موقف، قانونی نکات کی بجائے کسی ایک مخصو ص سیاسی شخصیت، جج یا گروہ سے وابستگی پر استوار ہونے لگیں، تو معاملہ یقیناً سنجیدہ تجزئیے کا تقاضا کرے گا۔ بات اگر یہیں تک محدود رہے تو بھی سہی جا سکتی ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ انہی وکلاء تنظیموں اور لاء چیمبرز میں سے اٹھائے گئے کئی ایک وکلاء انصاف کی بلند و بالامسندوں پر رونق افروز ہوتے ہیں۔ اس طریقہ کار کے ذریعے جہاں بے شمار عالی مرتبت جسٹس صاحبان مسندِ انصاف پر رونق افروز ہوئے، وہیں کسی نہ کسی طرح کئی ایک شوکت صدیقی بھی وارد ہوجاتے ہیں کہ جوبحیثیت جج اپنے منصب کو اپنے زمانہ وکالت و سیاست کے کردار سے الگ کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں۔

ایک عامی کی حیثیت میں میری رائے ہے کہ اندریں حالات ججز کے طریق ِ انتخاب، پیشہ ورانہ گرومنگ، ترقی اور بالآخر اعلی عدالتوں میں تعیناتی کے عمل کومزید بہتر بنانے کے لئے جدید اصلاحات کی ضرورت ہے۔ مروجہ طریقہ کار کو بہتر سمجھنے والے ماہرین کو وکلاء کی بطور جج ’لیٹرل انٹری‘ کا باریک بینی سے جائزہ لیناچاہیے۔ اس ضمن میں انگریزی اخبار کوبھی چاہیے کہ پی ٹی ایم کے غبارے سے ہوا نکلنے کے بعد اب یونیورسٹیوں کو ’سرخ‘ بنانے کے پراجیکٹ سے اگر فرصت دستیاب ہو، تو پیشِ نظر اجمالی تجویز پر بھی بحث کے لئے اپنے صفحات میں گنجائش پیدا کرے۔ مضامین اور اداریوں کے موضوعات کی یکسانیت بسا اوقات اکتا دینے والی ہو جاتی ہے۔ ’غیر جمہوری قوتوں‘ کے کردار پر آپ کا مستقل موقف سر آنکھوں پر، کچھ ’انصاف کے سیکٹر‘ کی بات بھی ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).