طلبہ تنظیموں کی بحالی


پاکستان کے اہل دانش اور سیاسی، علمی و فکری اشرافیہ میں طلبہ تنظیموں کی بحالی میں رائے عامہ تقسیم نظر آتی ہے۔ ایک طبقہ ان طلبہ تنظیموں کی پرزور بحالی کا حامی ہے اور ان کے بقول طلبہ کو سیاسی او ر سماجی شعور کے عمل سے کسی بھی طور پر دور نہیں رکھا جاسکتا۔ اسی طرح اس طبقہ کی رائے ہے کہ طلبہ تنظیمیں مستقبل میں مختلف محاذ پر قیادت کے خلا کو پر کرنے میں معا ون ثابت ہوتی ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ایک طبقہ سمجھتا ہے کہ طلبہ تنظیمیں تعلیم سے زیادہ سیاست اور پرتشدد رجحانات کا حصہ بن کر تعلیمی ماحول کو خراب کرنے کا سبب بنتی ہیں او راس کے نتیجے میں سیاسی مداخلتوں کی وجہ سے تعلیمی ماحول متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے جب بھی طلبہ تنظیموں کی بحالی کی بحث ہوتی ہے تو ہماری رائے عامہ اس اہم معاملہ پر اپنی اپنی رائے پر تقسیم ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں عمومی طو رپر طلبہ تنظیموں کی بحالی کی حامی ہیں۔ لیکن جب بھی ہماری سیاسی جماعتوں کو اقتدار کی سیاست کا حصہ بننا پڑتا ہے تو یہ ہی اقتدار میں شامل جماعتیں ان طلبہ تنظیموں کی بحالی کے معاملے میں کوئی بڑی پیش رفت کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ حالانکہ ان ہی بڑی اور چھوٹی سیاسی جماعتوں کی حامی طلبہ تنظیمیں تعلیمی اداروں میں موجود ہیں اور وہ اپنے ہی حامی طلبہ کو ان کا بنیادی جمہوری حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ پاکستان کی مجموعی سیاسی تاریخ کا جائز ہ لیں تو اس میں ہمیں سیاسی اور سماجی محاذ پر دو تنظیموں طلبہ او رمزدور تنظیموں کا بڑا کلیدی کردار نظر آتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں طلبہ تنظیموں کے مجموعی کردار میں ایک بڑا مسئلہ تشدد کی سیاست اور سیاسی جماعتوں کی بڑے پیمانے پر سیاسی مداخلتیں غالب نظر آتی تھیں۔ سیاسی جماعتوں نے طلبہ تنظیموں کو آزادانہ او رخود مختاری کی بنیاد پر کام کرنے کی بجائے ان کو اپنا ایک بڑے سیاسی آلہ کار کے طور پر استعمال کیا۔ خود طبہ تنظیموں کی جانب سے بھی ایسے طرز عمل اختیار کیے گئے جو سیاسی اور جمہوری آزادیوں کے بالکل برعکس تھا۔ لیکن ان معاملات میں اصلاح کرنے او ران میں مثبت تبدیلیوں یا اصلاحات لانے کی بجائے طلبہ تنظیموں پر پابندی کے فیصلہ نے معاشرے کی جمہوری سیاست اور تعلیمی محاذ پر سیاسی اور سماجی فکر کو بنیاد بنانے کی بجائے مجموعی طور پر نوجوانوں کے ذہن کو غیر سیاسی ذہن اور سیاسی عمل کو ایک منفی عمل کے طو رپر پیش کیا۔

پاکستان کا آئین طلبہ وطالبات کو اپنی تنظیمیں بنانے کا مکمل حق دیتی ہیں، لیکن ہمارا حکمران طبقہ اس بنیادی حق کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور پچھلی تین دہائیوں سے طلبہ تنظیموں پر پابندی عائدکرکے اس بنیادی حق کو سلب کیے ہوئے ہے۔ ایک فکری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ طلبہ تنظیموں کی وجہ سے تعلیمی ماحول خراب ہوتا تھا۔ لیکن اب تین دہائیوں سے پابندی کے بعد ہماری مجموعی تعلیمی حالت کیا ہے او راس تناظر میں جو سرکاری اعداد و شمار ہیں وہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ہم نے تعلیمی میدان میں کتنی کامیابی اور ساکھ قائم کی ہے۔

یہ جو قومی سیاست اور دیگر ریاستی و حکومتی اداروں کی سطح پر ہمیں جو متحرک اور فعال قیادت نظر آتی ہے ان میں سے بیشتر افراد کا تعلق ماضی میں کسی نہ کسی شکل میں طلبہ تنظیموں سے رہا ہے۔ اس وقت جو قومی سطح پر سیاسی قیادت کا فقدان ہے اس کی بڑی وجہ ہم تعلیمی اداروں میں موجود قیادت کی بنیادی اور عملی جمہوری نرسریوں پر پابندی ہے۔

ایک بار پھر ملک کے سیاسی منظر نامہ میں طلبہ تنظیموں کی بحالی او ران کے انتخابات کے حق کی نئی بحث شروع ہوئی ہے۔ پورے پاکستان میں ایک طلبہ تنظیم یا لال تحریک کے نام پر طلبہ وطالبات سمیت معاشرے کے مختلف طبقات جن میں مزدور اور سیاسی تحریکیں بھی شامل ہیں نے طلبہ تنظیموں کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ اگرچہ یہ ایک خاص نظریات و فکر کے لوگوں کا اجتماع تھا او ربہت اچھی بات ہے کہ ان لوگوں نے بھی طلبہ تنظیموں کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔

لیکن یہ مطالبہ محض ان لوگوں تک محدود نہیں بلکہ پاکستان میں موجود متحدہ طلبہ محاذ جس میں ملک بھر کی تمام طلبہ تنظیمیں شامل ہیں کئی دہائیوں سے اسی مطالبے کی حمایت میں کوشاں ہیں۔ اس حالیہ اجتجاج میں بھی بائیں بازو یا لبرل یا سیکولر سیاسی حمایت یافتہ افراد شامل دیکھنے کو ملے ہیں جو ان کا بنیادی حق ہے او راس کی پزیرائی ہونی چاہیے۔

یہ جو ہمیں آج کی دنیا میں سیاسی جماعتوں اور علمی و فکری محاذ پر ایک بڑا فکری بانجھ پن یا فکری انحطاط پایا جاتا ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ بھی طلبہ تنظیموں پر پابندی سے جوڑی جاسکتی ہے۔ کیونکہ جب ہم تعلیمی محاذ پر طلب عملوں یا استاد کو لکھنے، بولنے یا سوچنے کی فکری آزادی نہیں دی جائے گی توا س کا ایک بڑا نتیجہ معاشرے میں جمود یا انتہا پسندی کی صورت میں نکلتا ہے۔ نوجوانوں میں تعلیمی میدان میں علمی، فکری اور غیر نصابی سرگرمیوں کو بنیاد بنا کر ہی ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی جاسکتی ہے جو ہمیں آگے بڑھنے کا محفوظ راستہ دے سکے۔ ہمیں طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کی حمایت کرنے کی بجائے اس میں موجود مسائل یا بگاڑ کو ختم کرنے او رایک کوڈ آف کنڈکٹ یا ضابطہ اخلاق کی تشکیل پر توجہ دینی چاہیے جو پرامن طلبہ تنظیموں کے ماحول کو قائم کرسکے۔

پاکستان میں تعلیم کے محاذ پر طبقاتی تعلیم، مہنگی تعلیم، ریاستی و حکومتی اداروں کا تعلیمی نج کاری کے مضمرات، اعلی تعلیم سے جڑے مسائل، بجٹ میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، طلبہ و استادوں میں فکری آزادیوں پر پابندی، ڈگریوں کی ساکھ، نقل کا بڑھتا ہوا رجحان، جعلی تعلیمی ڈگریوں کا کھیل، غیر نصابی سرگرمیوں کی کمی، علمی و فکری ماحول، پرامن تعلیمی معاملات یا حالات، اساتذہ کا احترام، حکومتی سطح پر تعلیمی اداروں میں بے جا مداخلت جیسے مسائل سرفہرست ہیں۔

ان مسائل کے حل کے لیے طلبہ تنظیموں کو اپنے حق کے لیے کھڑے ہونے کی آزادی یا حق ملنا ان کا بنیادی جمہوری حق ہے۔ اسی طرح طلبہ تنظیموں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ بھی ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے ان ہی غلطیوں پر قائم رہتے ہیں یا اسی طریقہ کار کی حمایت کرتے ہیں جو ماضی میں منفی عمل کا حصہ بنا تو ان کی سیاسی حمایت محدود ہوگی او رکوئی ان کی بڑی سیاسی حمایت کے لیے باہر نہیں نکلے گا۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں کے نام پر سیاسی قبضہ کی جنگ کی سوچ ختم ہونی چاہیے اور اس کا ایک عمل ان ہی تعلیمی اداروں میں تسلسل سے ہونے والے انتخابات کا عمل ہوسکتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ طلبہ تنظیموں کی بحالی کا ضابطہ اخلاق کیسے بنے گا اور اس کی ساکھ کیا ہوگی۔ اس کے لیے یقینی طور پر طلبہ تنظیموں کی موجودہ قیادت، اعلی تعلیمی ماہرین، کالجوں او ریونیورسٹیوں کی مینجمنٹ، پارلیمانی جماعتوں کی مشتمل کمیٹی، سابق طلبہ قیادت کے نمائندے، سیاسی جماعتوں کی قیادت کے لوگ بیٹھ کر ایک نئے ضابطہ اخلاق کو ترتیب دے سکتے ہیں او رایسے تمام سابقہ امور جو ماضی کی غلطیوں سے جڑے ہوئے ہیں ان کو ختم کرنے او رنئی سوچ او رفکر کے ساتھ معاملات کو بہتر انداز میں حل کیا جاسکتا ہے۔

ہمیں تعلیمی اداروں میں مختلف سوچ پر پابندی لگانے کی بجائے ایک مکالمہ او رمباحثہ کے کلچر کو طاقت دینی ہوگی تاکہ فکری گھٹن بھی ختم ہو اور لوگ ایک دوسرے کے فکری خیالات کو بھی عزت و احترام دے سکیں۔ ہمیں طلبہ تنظیموں او ران کی سیاسی و سماجی فکر سے خوف زدہ ہونے کی بجائے ان کی ا س انداز میں سرپرستی کرنی چاہیے جو معاشرے کو مذہب او رمنصفانہ انداز میں تبدیل کرسکے۔ ریاست اور حکمرانوں یا طاقت ور طبقات کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ طلبہ و طالبات کو غیر سیاسی بناکر ان کو ریاستی وحکومتی معاملات سے لاتعلق رکھیں، منفی سوچ رکھتی ہے۔

اگر ہم واقعی ملک میں جمہوری و سیاسی عمل کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں تو اس کی ایک مضبوط شکل میں ملک میں نئے تقاضوں یا ضابطہ اخلاق کے مطابق طلبہ تنظیموں کی بحالی کا ہونا چاہیے۔ لیکن یہ کام کوئی طلبہ تنظیم سیاسی تنہائی میں نہیں کرسکے گی۔ ا س کے لیے تین کام کرنے ہوں گے۔ اول تمام طلبہ تنظیموں کے درمیان ایک بڑ ا مشترکہ اتحاد جو مشترکہ جدوجہد کے ساتھ آگے بڑھے۔ دوئم معاشرے کے اہم طبقات جن میں صحافی، دانشور، لکھاری، شاعر، ادیب، استاد، مزدور اور دیگر تنظیمیں اس تحریک کا حصہ بنیں۔ سوئم سیاسی جماعتیں اپنے تضادات سے باہر نکل کر طلبہ تنظیموں کی بحالی میں اپنا بڑا حصہ ڈالیں تو طلبہ تنظیموں کی بحالی کی بحث مثبت و کامیاب انداز میں آگے بڑھ سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).