وٹا سٹا


دونوں ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوئے۔ عورت کومرد نے تقریباً گود میں اٹھا رکھا تھا۔ اس کے پاؤں زمین کے ساتھ رگڑ کھا رہے تھے۔ اس کوکمرے میں پڑے ہوئے بنچ پر لٹا کر مرد کو کچھ حوصلہ ہوا۔ ”ڈاکٹر صاحب، ان ظا لموں نے میری بیوی کو بہت مارا ہے۔ دو دن ہمیں کھانے پینے کو بھی کچھ نہیں دیا۔ آج جب اس نے خون تھوکنا شروع کر دیا تو ہمیں چھوڑا۔ اب بھی میرے بچے ان کے پاس ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اسے بچا لیں۔ “

”کیوں مارا ہے؟ “

”ہم ان کے پاس کام کرتے ہیں۔ میری بیوی دو ماہ سے بیمار ہے۔ کھانستے کھانستے ہلکان ہو جاتی ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ دھان لگانے کھیت میں جاؤ۔ ہم دو دن نہ جاسکے۔ میں بھی اس کے پاس رہا۔ “

”اس کے ٹیسٹ کروا کر لاؤ۔ “

”آپ کر دیں، میرا مالک آئے گا تو ساری رقم چکا دوں گا۔ “

کچھ دیر کے بعد مالک تو نہ آیا اس کا ملازم آکرحساب چکتا کر گیا۔

انسانی حقوق کے وزیر کی کھلی کچہری تھی۔ وہی شخص کھڑا ہو ا۔ کہنے لگا۔

”ایک خاندان بکاؤ ہے۔ پورا خاندان۔ ہے کوئی خریدار۔ میں، عمر پنتیس سال۔ میری بیوی، ایک چودہ سالہ بچی اور ایک دس سالہ بچہ۔

نسلی مزدور، پشتینی غلام۔ ”

کچہری میں کھلبلی مچ گئی۔ پولیس والے بھاگ اٹھے۔ قریب کھڑے لوگ اس کو کھینچ کر نیچے بٹھانے لگے۔ وہ بولتا جارہا تھا، ”قیمت صرف تین لاکھ۔ چار غلاموں کی قیمت تین لاکھ۔ میں جانتا ہوں انسان بہت سستا ہے اور میں قیمت بہت زیادہ بتا رہا ہوں۔ لیکن میں اس سے کہیں زیادہ کما کر دے سکتا ہوں۔ “

”سب پیچھے ہٹ جائیں۔ “ وزیر کی آواز گونجی۔

”کہو کیا بات ہے؟ “

”عرصہ دراز سے میں عمر درازبھٹی کے کھیتوں میں کام کرتا ہوں۔ وہ مجھے سرگودھا کے ایک زمیندار سے خریدکر لایا تھا۔ میری بیوی اور بچے اس کے گھر میں کام کرتے ہیں۔ ہم اس کی حویلی میں ہی رہتے ہیں۔ جب کوئی بیمار پڑتا ہے یا کوئی شادی بیاہ ہوتا ہے تو میں اس سے رقم لیتا ہوں۔ وہ ساری رقم جمع ہو کر تین لاکھ بن گئی ہے۔ اب میری بیوی بیمار ہے وہ کام نہیں کر سکتی اور مجھے اپنے بچوں کے پاس رہنا پڑتا ہے۔

رقم بڑھتی جا رہی ہے۔

مائی باپ! آپ مجھے اپنے ڈیرہ پر لے جائیں۔ ”

”ٹھیک ہے، میں عمر دراز سے بات کروں گا۔ “

”مائی باپ، مجھے ساتھ لے جائیں۔ میری بیوی بہت بیمار ہے۔ وہ مر جائے گی۔ “

”لیکن میرا ہی ڈیرہ کیوں؟ “

ٓ ”آپ سیاستدان اتنے ظالم نہیں ہوتے۔ آپ کو ان اخبار والوں کا ڈر رہتا ہے۔ میں اور میرے بچے آپ کو دعائیں دیں گے۔ “

”اس کی بیوی کو ہسپتال میں داخل کروایا جائے۔ “ وزیر نے حکم دیا۔

”اور تم گھر جاؤ۔ میں عمر دراز کو کہہ دوں گا۔ پھر تم میرے پاس آجانا۔ “

”صاحب جی، خیراتی ہسپتالوں میں جا کر لوگ لوٹا نہیں کرتے۔ آپ اپنے پاس لے چلیں میں اس کا علاج گھر میں ہی کر لوں گا۔ “

”ٹھیک ہے۔ لیکن اسے ہسپتال میں ہی بھیجو۔ میں ڈاکٹر صاحب کو بھی کہہ دیتا ہوں۔ “

بندہ تیز تھا۔ وزیر کو پسند آگیا۔ کچھ دنوں کے بعد اس نے اسے اپنے ڈیرہ پر منتقل کر لیا۔

بیوی کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو اسے بھی گھر لے آیا۔ آتے ہی اس نے کام سنبھال لیا۔ باتیں بہت سمجھداری کی کرتا۔ آیا تو مریل سا تھا۔ اب اس پرگوشت نظر آنا شروع ہو گیا تھا۔ اکڑ فوں بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ وزیر کے قریب ہوتا جا رہا تھا۔ سارا دن کام کرتا، چوہدری ڈیرے آجاتا تو اس کے ساتھ جڑا رہتا۔

لیکن بیوی کی حالت نہیں سدھر رہی تھی اس کو پتا نہیں کہا ں کہاں چوٹیں آئی تھیں کہ خون تھوکنا بند نہیں ہوتا تھا۔ چوہدری کہتاکہ اس کی دیکھ بھال کرو۔ اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر جاؤ۔ وہ ہمیشہ یہی جواب دیتا، ”میرا ا س کے سوا ہے کون؟ میں تو ساری ساری را ت اس کے ساتھ جاگتا ہوں۔ یہ مر گئی تو مجھے کس نے لڑکی دینی ہے؟ بچے میرے چھوٹے چھوٹے ہیں۔ غریبوں کو کون لڑکی دیتا ہے؟ ہما رے خاندان میں تو صرف وٹے سٹے کی شادی ہوتی ہے۔ میری ایک ہی بہن تھی وہ میرے بدلے میں بیاہی جا چکی ہے۔ “

بیوی کی بیماری بڑھتی جا رہی تھی وہ سوکھ کر ہڈی چمڑہ ہو گئی تھی۔ سار ی ساری رات کھانستی رہتی۔ بلغم کے ساتھ سرخ خون اگلتی۔ پھر ایک رات وہ گھر واپس آیا تو جگہ جگہ خون ملا تھوک بکھراپڑا تھا اور وہ اکھڑی اکھڑی سانسیں لے رہی تھی۔ اس رات وہ چل بسی۔

اب وہ اکیلا رہ گیا تھا۔ دونوں بچے چوہدری نے اپنے گھر میں بھیج دیے۔ سار ا دن بھینسوں کے باڑے میں رہتا۔ دودھ پیتا۔ چوہدری ڈیرے پر آجا تا تو اس کے ساتھ ساتھ آکڑ خان بنا پھرتا۔ کبھی رات کو بچے گھر پر ہوتے تو وہ بھی کمرے میں آجاتا ورنہ ساری ساری رات دربار پر جا کر ملنگوں کے ساتھ بیٹھا رہتا۔

دربار پر طرح طرح کی رونقیں موجود تھیں۔ گانے، بھنگڑا، ملنگ، خسرے اور شور شرابہ۔ بھنگ کے دور چلتے۔ دربار بہت وسیع تھا۔ اس کے اردگرد کافی زمین بیکار پڑی ہوئی تھی جہاں جنگلی جھاڑیوں اورخود رو پودں نے جنگل سا بنا رکھا تھا۔ یہ جنگل دربار کے باہر ہونے والی بہت سی سرگرمیوں کا امین تھا۔ سردیوں میں پوست کے ڈوڈوں کی چائے ٹھنڈ کو دور بھگا دیتی۔ لیکن درد کے قافلے جو بیگم کی جدائی کے بعد بڑھ گئے تھے رات بھیگنے کے ساتھ اور گہرائی تک اتر جاتے اور وہ کہیں ٹھکانہ نہ کرتے۔

جب دربار ویران ہو جاتا۔ پہر رات گزر جاتی، دربار پر ہر طرف یاسیت چھا جاتی اور آوارہ کتے بھی چپ سادھ لیتے تو وہ اپنے کمرے میں لوٹ آتا۔ سردیوں کی ہو شربا لمبی اور بھاری راتیں۔ کڑکڑاتے جاڑے صرف آگ سینک کے نہیں گزارے جاسکتے۔ وہ سو چتا رہتاخدا بھی کتنا ظالم ہے مجھے پنتیس سال کی عمر میں رنڈوا بنا دیا۔ کمرے میں اکیلا بیٹھا اپنے آپ سے باتیں کرتا رہتا۔

”شدید سردی کی راتیں میں جاگ کر گزارتا ہوں کمرے کی کھڑکی پر دستک ہو تی ہے، کھولتا ہوں۔ میری بیوی وہ باہر دھند میں کھڑی مجھے پکار رہی ہوتی ہے۔ جگر تک پہنچتی ہوئی سردی، سناٹا، اندھیرا، راستے الجھے الجھے۔ میں بھاگ کر اس کے پیچھے جا تا ہوں۔ وہ آگے آگے چلتی جاتی ہے۔ قد آدم جھاڑیاں، جنگلی پودے، پوشیدہ سرگرمیوں کے رازوں کے امین۔ دوڑ کر اس کو پکڑ لیتا ہوں۔ موٹی ہو چکی ہے۔ اپنی باہیں میرے گرد لپیٹ دیتی ہے۔ ہاتھ کی انگلیوں سے میرے سر میں کنگھی کرتی ہے۔ میں اس کے ابھاروں کے بیچ اپنا منہ چھپائے کھڑا رہتا ہوں۔

ایک آگ سی بھڑکتی جاتی ہے۔ میں اس آ گ کی بوندبوند انڈیل دینا چاہتا ہوں۔ ایک ہی تو ہے جو میرا اپنا پن ہے۔ رات ہے، تنہائی ہے، میں ہوں، میں ہوں اور صرف میں ہوں لیکن میں ہی تو مکمل نہیں، ناف کے نیچے اس کا دھڑ ہی نہیں۔ ”

یہ مایوسی گناہ میں نہ بدل جائے۔ وہ خوفزدہ رہتا۔ تھک کر اس کا بدن سو جاتا لیکن روح پھر بھی جاگتی رہتی۔ وہ سوچتا ہماری روح اور جسم تو پشتینی گروی پڑے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ روح سو جائے اور بدن جا گ جائے۔ یہ نہ ہو کہ دنیا تو گئی ہی ہے کہیں عقبیٰ بھی انگاروں سے بھر جائے۔

دن مہینے گزرتے گئے۔ اداسی بڑھتی گئی۔

پھر ایک دن وہ سرخ کپڑوں کی ایک گٹھری سے بغل میں ساتھ لئے چوہدری صاحب کے پاس آیا۔

”یہ کون ہے؟ “ چوہدری نے حیران ہو کر پو چھا۔

”میری دلہن۔ “ وہ سر جھکائے بیٹھا رہا۔

”میں نے شادی کر لی۔ “

”کیسے؟ “

”بیٹی جوان تھی۔ اس کو بیاہ دیا۔ ا ور اس کے وٹے میں اس کو بیاہ لایا۔ “

کمرے میں خا موشی چھا گئی۔

تھوڑی دیر بعد چوہدری صاحب بولے۔

”تو اب تمہارے بیٹے کی شادی کیسے ہو گی؟ “

”سال کے اندر گابھن ہو جائے گی۔ تو کوئی رل ہی جائے گی۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).