تبدیلی


کچھ دن پہلے ایک پھل والے کے پاس رکا، ارادہ تھا کہ پھل لے لیا جائے۔ انگور کے دام پوچھے تو پھل والا ان کے بارے میں بتانے لگا بلکہ اس نے انگوروں کی تعریف میں زمین و زماں کے قلابے ملا دیے۔ یہاں تک کہ ان کی مٹھاس کو کھجوروں سے تشبیہ دینے لگا۔ میں قائل ہونے کو تھا کہ یہ انگور خرید لیے جائیں کہ اچانک انگوروں کی مدح سرائی میں اس نے کہا کہ ’صاحب سواتی انگور ہیں سوات سے درآمد کیے ہیں، یاد کریں گے کہ انگور کھایا تھا جس کی مٹھاس کھجور سے بھی زیادہ تھی‘ ۔ اچانک والد صاحب (جوکہ ساتھ تھے ) ، بولے کہ سوات میں تو اس نسل کے انگور ہوتے ہی نہیں۔

خیر وہ انگور بھی کھٹے نکلے۔

ایک اور مثال جو 12 سال پرانی ہے، جب بندہ ناچیز اپنا لائسنس بنوانے ٹریفک پولیس کے دفتر گیا، وہاں لوگوں کا ایک جم غفیر تھا جو یہی مقصد لیے پرچی ہاتھوں میں لے کر لائن میں لگے ہوئے تھے۔ پرچی پر نمبر لکھے تھے، اور آپ کے بھائی کا نمبر ایک سو سترہواں تھا۔

گرمیوں کے دن تھے اور کئی گھنٹے کے جان لیوا انتظار کے بعد جب میرا نمبر آیا تو میری جگہ اس شخص کو اندر بلا لیا گیا جو مجھ سے بیسیوں نمبر پیچھے کھڑا تھا۔ میرے احتجاج کرنے پر مجھے بتلایا گیا کہ اس کی سفارش اونچی ہے۔ اسی سال ٹریفک پولیس کی جگہ ٹریفک وارڈنز نے لی تھی، جن کو متعارف کروانے کا مقصد ہی رشوت کو جڑ سے ختم کرنا تھا۔ اور وہاں پر کھڑے ہوئے ایک انسپکٹر نے بتایا کہ ہم نے سمجھا تھا کہ سسٹم کے بدلنے سے تبدیلی آجائے گی، رشوت ختم ہو جائے گی، لیکن انہوں نے بھی پچھلوں کے نقش و قدم پر جلنا شروع کر دیا ہے پرانے والوں کا جھوٹا کھانا شروع کر دیا ہے۔

اس واقعہ سے مجھے ادراک ہوا کہ تبدیلی لوگوں کے بدلنے سے نہیں آتی، نہ ہی کسی ادارے کا سربراہ بدلنے سے آتی ہے نہ ہی سسٹم بدلنے سے۔

میں کئی ایک سابق آئی جی پنجاب کو جانتا ہوں جن پر ایک بھی روپے کی کرپشن کا الزام نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کے نیچے کام کرنے والے پولیس افسران کرپشن ترک کر دی؟

نہیں! تبدیلی لوگ بدلنے سے سسٹم کے بدلنے سے یا پھر سربراہ کے بدلنے سے نہیں آتی۔ اگر تاریخ کا باغور مطالعہ کیا جائے تو دو طرح کے انقلاب دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایک خونی انقلاب اور دوسرا اصلاحی انقلاب۔

خونی انقلاب خون مانگتا ہے جیسا کہ ایران میں ہم نے دیکھا یکلخت سیکولر سے مذہبی حکومت لیکن کئی سالوں کی محنت اور ہزاروں انسانوں کی بلی چڑھائی گئی۔

اصلاحی انقلاب میں آپ حضرت مجدد الف ثانی کی مثال لے لیجیے کہ جب اکبر نے اپنی کم علمی کی وجہ سے مفاہمت کی سیاست کرتے ہوئے تمام مذاہب کو حلیم کی صورت میں ملا کر ایک نیا مذہب جسے دین الہی کا نام دیا، رائج کیا، تو حضرت مجدد الف ثانی نے ان کے خلاف اصلاحی و علمی تحریک چلائی جس کے نتیجے میں عوام میں شعور آیا اور جہانگیر کو اکبر کے بنائے دین کی جگہ خدا کا دیا ہوا دین پھر سے رائج کرنا پڑا۔

کچھ عرصے سے وطن عزیز میں بھی تبدیلی کا نعرہ لگایا گیا۔ اس کی خاطر جو طریقے استعمال کیے گئے اس کی بحث میں جانے کی بجائے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا تبدیلی آگئی؟

نہیں! بلکہ حالات مزید خراب ہوگئے گئے ”جمہور“ اور ”جمہوریت“ دونوں کے بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا ”کہ حالات بدلے ہیں صرف امیروں کے“

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تبدیلی سسٹم یا لوگوں کے بدلنے سے نہیں آئی تو کیسے لائی جائے؟

وطن عزیز نے اپنے معرض وجود میں آنے سے اب تک بہت خون دے دیا ہے۔ اس لیے اب اور خون کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ لحاظہ اگر ہم تبدیلی چاہتے ہیں، تو ہمیں اصلاحی انقلاب کا راستہ اپنانا چاہیے، جس میں سب سے پہلے آئین کو اپنے بچوں کے سلیبس میں شامل کریں تاکہ ان کے ذہنوں میں نقش ہوجائے اور کل کو کوئی بھی اسے توڑنے سے پہلے ہزار بار سوچے۔

لوگوں کو شعور دلانے کے لیے تحریک چلائی جائے، جس کا مقصد سیاست نہیں بلکہ ذہنی اصلاح ہو کیونکہ کہ آپ کا تو پھل بیچنے والا بھی کرپشن کرتا ہے۔

پھر جو تبدیلی آئے گی وہی اصل کہلائے گی وہی ہمیں ترقی کی راہ پر گامزن کر دے گی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پہلے لوگوں کی ذہن سازی ہی کی تھی اور یہ وقت طلب عمل ہے۔

عدیل عمر
Latest posts by عدیل عمر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).