اب کچھ کام کر لیں


ہمارا ملک جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے بہترین خطے میں واقع ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ حسین وجمیل قدرتی نظارے، آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی محسوس ہونے والی برف پوش چوٹیاں، سنگلاخ پہاڑ، زرخیزسونا اگلتی زرعی زمینیں، شفاف سمندر، جنگلات، بڑے بڑے شہر اور چھوٹے چھوٹے دیہات، قدرتی سبزے سے ڈھکی وادیاں اور دل پر فسوں طاری کرتے ریگستان۔ سب کچھ تو ہے یہاں جس کی ضرورت ایک ملک کو ہونی چاہیے لیکن ان سب کے باوجود ہم ترقی نہیں کر پاتے۔ دنیا کے کئی ایسے ملک دیکھے جہاں قدرتی وسائل بھی کم رقبہ بھی چھوٹا سا مگر اس کے باوجود وہ ہم سے کہیں آ گے ہیں۔

ایسا بھی نہیں کہ بحیثیت قوم ہم کوئی ناقص العقل ہیں۔ بلکہ ہمیں تو یہ یقین ہے کہ ہماری قوم انتہائی ذہین اور بہت تیزی سے معاملات کی تہہ تک پہنچنے والی ہے۔ ہمارے عام عوام انتہائی باریک بینی سے ہر معاملے کا مشاہدہ کرنے والے اور دیوار کے پیچھے دیکھنے کی صلاحیت سے بھر پور ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے پاس وہ سہولیات نہیں جو دنیا کے باقی ممالک نے بہت تیزی اور سرعت سے حاصل کر لیں۔

گزرے ہوئے ستر برسوں کا جائزہ ہر قسم کی جانبداری سے علیحدہ ہو کر دیکھیں تو اندازہ ہو گا۔ کہ ہم کہاں کہاں غلط ہیں۔ یا ہمیں کہاں کہاں غلط راستے پر ڈال دیا گیا۔ بعض اوقات جانتے بوجھتے اور کبھی کبھی غیر ارادی طور پر شاید ہماری سب سے بڑی بدنصیبی یہ رہی کہ ہم ملک بنتے ہی اس کے بانی سے محروم ہو گئے گویا پیدا ہوتے ہی یتیم ہو گئے۔ اور پھر دنیا نے ہمارے ساتھ وہی سلوک کیا جو سنگلاخ دل رکھنے والے یتیموں کے ساتھ کرتے ہیں۔

ہماری اس سے بھی بڑی بد نصیبی یہ رہی کہ بیرونی دشمنوں نے تو جو سلوک کیا سو کیا۔ ہمیں اندر سے زخم لگانے والے باہر والوں سے زیادہ مہلک ثابت ہوئے۔ اور آ ج تک مسلسل ہمارے لیے باعث تکلیف ہیں۔

ہم آج تک طرزِ حکومت طے کرنے کی گتھی سلجھانے میں مصروف ہیں۔ یا جان بوجھ کر ہمیں پارلیمان اور صدارتی نظام کی بھول بھلیوں میں الجھا دیا گیا۔ ہمیں منتخب او غیر منتخب کے جھمیلوں میں الجھا کر حسب توفیق اپنے اپنے الو سیدھے کیے گئے۔

کبھی ہمیں روٹی، کپڑا، مکان کے خواب دکھا کر کسھوٹا گیا اور کبھی اسلامی صدارتی نظام کے بے مقصد نظریات کے پیچھے دوڑایا گیا۔ کبھی ہم سے ایک بلاک کی وفاداری کروائی گئی۔ کبھی دوسرے بلاک کی چاکری کروائی گئی۔

ہر صورت میں صرف بحثیت قوم ہمیں الجھایا گیا۔ ہر کسی نے یتیم کا باپ بننے کا دعویٰ کیا اور ہمارے ہی وسائل ہمیں ہی دھوکے میں رکھ کر کھائے گئے۔ اپنے خاندان، اپنی اولادیں اور اپنے اثاثے بچانے کے لیے بہت ہی بے دردی سے ہم پر ظلم کیا گیا۔ لیکن ان سب میں ایسا نہیں کہ قوم بالکل ہی بے قصور ہے۔

ہمارا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ ہم کبھی ایک قوم نہیں بن سکے۔ جس پاکستان کو ایک نظریے کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔ ہم اس نظریے کو کہیں بہت پیچھے چھوڑ آئے۔ اور جو اقوام اپنا نظریہ ہی کھو بیٹھیں وہ ایسے ہی راستے سے بھٹک جایا کرتی ہیں۔

آج ہم سب اپنی علیحدہ شناخت کو زیادہ سیریس لیتے ہیں۔ ہم پنجابی ہیں۔ سندھی، پشتو، بلوچ ہیں۔ پاکستانی نہیں ہیں۔

اپنی ثقافت، زبان اور حسب نسب سے انسیت ہونا کوئی غلط عمل نہیں ہے۔ یہ ایک نارمل اور فطری جبلت ہے۔ اپنی مادری زبان سے محبت رکھنا اسے اپنانا یہاں قانون فطرت ہیں۔ اور فطرت کے بنائے اصول تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔

لیکن جب ہم ایک قوم کی صورت میں ابھرتے ہیں تو اس کاسب سے پہلا اصول یاہدف یہ ہونا چاہیے کہ ہم جس سرزمین سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہی ساری دنیا میں ہماری اولین پہچان ہو۔ اور صرف دنیا ہی میں نہیں ہم اپنے ملک میں بھی اسی اصول پر کاربند رہیں۔

مگر دیکھیں غور کریں کیا ہم ایسا کر پائے؟

ہر گز نہیں

ہم پاکستان سے باہر ہوں تو ضرور پاکستانی ہو جاتے ہیں مگر اپنے ملک میں ہم ذات اور تعصب کی قید میں رہتے ہیں۔ اور اس اسیری سے رہائی کے خواہشمند بھی نہیں ہوتے۔ آپ اپنے جمہوری نظام کا جائزہ لیں اپنی سیاسی وابستگی پر نظر ڈالیں۔ ہم ہر جگہ عصبیتوں کے مرض میں مبتلا ہیں۔

ہماری تمام سیاسی جماعتیں عصبیتوں کی بنیاد پر تشکیل پائی ہیں۔ ہم پنجابی ہیں تو ہمارا ووٹ بھی پنجا بی کا ہے۔ ہم سندھی ہیں تو ہمارا ووٹ بھی سندھی کا ہم پٹھان ہیں تو ووٹ پٹھان کا ہم بلوچ ہیں تو ووٹ بلوچ کا۔ پھر ہم ووٹ کو عزت کیسے دے سکیں گے جب ہم پاکستان کو عزت نہیں دے سکتے ہم تو اپنی برادری کو اپنے قبیلے کو اپنی ذات والوں کو عزت دیتے ہیں۔ بس ہم نے آج تک پاکستان کو عزت نہیں دی تو ہمارے ووٹ کو عزت بن کیسے مل جائے گی۔ خواب دیکھنا بہت آسان ہوتا ہے۔ مگر خوابوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بڑی محنت اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

انقلاب کی آبیاری اپنے لہو سے کرنی پڑتی ہے اور ہم جس معاشرے میں زندہ ہیں یہاں سب اپنی انفرادی حیثیت میں عظمت رفتہ حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ اپنی اپنی شخصیت اور ذات کے پنجروں میں قید مفاد پرست سیاست کی پرستش کرنے والے بے مایہ لوگ ہیں۔

ہم ابھی تک اپنے لیے درست راستے کا انتخاب نہیں کر پائے جو ہمیں منزل تک پہنچا دے۔ اور یہ مذاق اب تک ہمارے ساتھ جاری ہے۔ لیکن کہیں تو اس سلسلے کو روکنا ہوگا اور اسے کوئی اور نہیں ہم خود روکیں گے۔ اب ہمیں ساری عصبیتوں کو بالائے طاق رکھ کر ایک صفحے پر آ کر رہنا ہوگا۔ ہمارے ملک کی ترقی کے لیے کون سا نظام بہتر ہے۔ یہ فیصلہ ہمیں خود کرنا ہوگا کون ہمارے قومی مفادات کا صحیح اور مخلص نگہبان ہے۔ یہ فیصلہ ہمیں خود کرنا ہوگا۔

یہ سب۔ اس وقت ہوگا۔ جب ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی عادت ڈالی جائے گی اگر آپ کو پارلیمانی طرز حکمرانی پسند ہے۔ تو ضرور کریں مگر درست لوگوں کا انتخاب کریں جو آپ کی زمین سے اور آپ کے بحیثیت مجموعی مفادات سے مخلص ہوں۔

ملک کو اپنی میراث نہ سمجھتے ہوں کہ نسل درنسل حکمرانی کو اپنا استحقاق سمجھ بیٹھیں۔ اس سوچ سے چھٹکارا ہی اصل تبدیلی ہے۔ آپ کا مسیحا کسی نامی گرامی خاندان سے ہونا ضروری ہو یہ کس کتاب میں لکھا ہے۔ وہ ایک عام سا انسان بھی ہو سکتا ہے اس سوچ کو اپنائیں۔ دوسروں کی دولت اور بھرم سے متاثر ہونا چھوڑ دیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو یکساں خوبیاں عطا کی ہیں کوئی کسی سے کمتر یا برتر نہیں۔ شخصیت پرستی کے حصار سے باہر نکلیں ہم نہیں تو کچھ نہیں کی خوش گمانی سے نجات حاصل کریں۔

انتہائی آسان لفظوں میں کہوں تو ایک دوسرے کو قبول کریں۔ سازشیں کرنے کے بجائے کام کریں اب کام کرنے کا وقت ہے۔ سنجیدگی سے ملک کو ترقی دینے کے لیے اپنی تمام توانائیاں صرف کرنے کا وقت ہے۔ دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔

اور ہمارا وقت فروہی معاملات میں الجھا کر ضائع کیا جا رہا ہے۔ جس وقت کو سنجیدگی سے ملک و ملت کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کی پلاننگ میں صرف کرنا چاہیے تھا اس وقت کو قائم ہونے والی حکومتیں خواہ وہ کسی بھی پارٹی کی ہوں۔ لاحاصل دھرنوں، فضول ترین احتجاجی مظاہرے، بے مقصد مارچ اور سازشوں سے نمٹنے میں گنوا دیتی ہیں۔

لہذا اب بحثیت قوم ہم سب پاکستانیوں کی طرف سے التجا ہے کہ خدارا ملک کو آ گے بڑھنے دیں۔ ایک دوسرے کو۔ برداشت کریں اور پاکستان کو۔ اپنی جاگیر سمجھنا چھوڑ کر اب کچھ کام کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).