امریکن انفرادیت، جدت اور پاکستانی روایت پسندی


امریکی معاشرت کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو جو سب سے اہم جز اور خاصیت نظر آتی ہے وہ ان کی جداگانہ معاشرت اور جدت پسندی ہے۔ اور یہ عنصر ہر شعبہ زندگی میں ایک غالب نظریہ کے طور عملی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے جو کسی دوسرے معاشرے میں اتنی واضح اور موثر صورت میں نظر نہیں آتا۔ امریکی قوم بہت سی عادات و اطوار میں دوسری اقوام سے مختلف ہے۔ اور اس انفرادیت کو قائم رکھنے کے لئے امریکی قوم نے شعوری یا لاشعوری سطح پر اپنی زبان، کلچر، کھیل اور عادات کو بھی دوسری دنیا سے قدرے منفرد رکھنے کی کوشش کی ہے۔

انفرادیت کی اس خواہش نے امریکی معاشرت کو جامد نہیں ہونے دیا بلکہ جدت، تبدیلی اور نئی سوچ کو اس معاشرت کا حصہ بنا دیا گیا ہے جس وجہ سے امریکی معاشرہ نے نئی سوچ کو اپنے اندر جذب کرتے ہو اس سے ہم آہنگ ہونے کی بھرپور صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی معاشرہ تبدیلی اورجدت کو کھلے دل کے ساتھ نہ صرف قبول کرتا ہے بلکہ ایسا ماحول مہیا کرتا ہے جس میں جدت پسندی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے نئی سوچ اور نئے خیالات کو پنپنے کا بھر پور موقع دیا جاتا ہے اور ان خیالات کو کھلے دل کے ساتھ نہ صرف تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ ان کی عملی و معاشرتی تشکیل کے لئے بھی سازگار مواقع مہیا کیے جاتے ہیں۔

امریکہ معاشرت کی جدت پسندی اور انوکھے پن ان کے قول و فعل میں واضح طورپر دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طورپر اگر کھیلوں کا جائزہ لیا جائے تو امریکہ میں بیس بال اور فٹ بال پسندیدہ ترین کھیلوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اور دونوں کھیلوں کے انداز اور رولز دنیا سے جداگانہ اور منفرد ہیں۔ بیس بال بنیادی طور پر امریکی کھیل ہے اور انیسویں صدی سے امریکہ میں کھیلا جا رہا ہے۔ اگرچہ اب دنیا کے کئی ممالک میں بیس بال بطور کھیل مقبیولیت حاصل کر رہا ہے لیکن پسندیدگی کے لحاظ سے یہ امریکہ میں سب سے آگے ہے۔

اسی طرح فٹ بال میں بھی امریکی فٹ بال کو انفرادی حیثیت حاصل ہے۔ یورپ اور باقی دنیا میں فٹ بال جسے ”ساکر“ کہا جاتا ہے ایک پسندیدہ کھیل ہے اور اس کھیل کے قواعد و ضوابط امریکہ میں کھیلے جانے والے فٹ بال سے مکمل طور پر نا صرف مختلف ہیں بلکہ کھیلنے کا انداز بھی قطعی طور پر جداگانہ اور منفرد ہے۔ امریکن فٹ بال کے کھیل میں پاؤں کے بجائے ہاتھوں کا استعمال قدرے زیادہ کیا جاتا ہے جبکہ باقی دنیا میں فٹ بال کے کھیل میں اگر فٹ بال کو ہاتھ لگ جائے تو اس کو فاؤل قرار دے دیا جاتا ہے۔

انفرادیت اور جدت کی حد درجہ پسندیدگی اور حوصلہ افزائی ہر شعبہ زندگی میں کارفرما نظر آتی ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی تعلیمی اداروں کی درجہ بندی کرتے ہونے جدت یا انوویشن کو بطور بنیادی پیمانہ کے طور پر استعمال کیا جاتاہے۔ جیسا کے امریکی قومی تعلیمی اداروں کی درجہ بندی کے مطابق پرنسٹن، ہارورڈ، کولمبیا، ایم آئی ٹی اور سٹین فورڈ یونیورسٹی ملک کی بہترین درسگاہیں ہیں لیکن وہی دوسری طرف نئے خیالات و جدت پر مبنی ایجادات اور جدید تیکنیکس کے استعمال کے لحاظ سے یونیورسٹی آف ایریزونا کو پہلے درجہ پر رکھا گیا ہے۔ دوسری بہت سی وجوہات کے ساتھ ساتھ منفرد رہنے کی خواہش، جدت پسندی اور تبدیلی کے بارے میں امریکہ کا بطور قوم یہ رویہ ہی وہ بنیادی وجہ ہے جس نے امریکہ بدلتی دنیا کے چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے عالمی طاقت بننے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

امریکی معاشرہ اجتماعی طور پرنئی اور منفرد سوچ، جدت و اختراع کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے اور قبول کرتا ہے۔ چاہے وہ جدید ٹیکنالوجی کی شکل میں ہو یا معاشرتی رویوں کے بدلتے ہوئے رجحانات ہوں۔ بہت سے نظریات و افکار جو کسی دوسرے معاشرے میں شاید اس درجہ قبولیت حاصل نہ کر سکیں۔ قطع نظر معاشرتی، اخلاقی اور سماجی ویلیو، وہی آئیڈیاز نہ صرف امریکی معاشرہ میں قبول کیے جاتے ہیں بلکہ ان کی عملی توجیح و عمل درآمد میں بھی کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالی جاتی۔

جدت پسندانہ خیالات کی اس درجہ قبولیت اور مقبولیت کی وجہ سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا میں ہونے والی بیش تر ایجادات و منفرد خیالات پر مبنی بزنس ائیڈیاز اور ماڈل امریکہ سے ہی پورے دنیا میں مقبول ہوئے۔ امریکی دانش پر مبنی منفرد آئیڈیاز اور ان پر مبنی بزنس ماڈلز کی فہرست اگرچہ حیران کن حد تک لمبی ہے مگر ان میں سے چند ایک ایپل، گوگل، فیس بک، یو ٹیوب، اوبر اور ایمازون جیسے بے مثال اداروں کا وجود میں آنا ہے۔

ان اداروں کے اگر پس منظر اور تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بڑی شدت سے واضح ہوتی ہے مندرجہ بالا ادارے جوبلاشبہ دنیا کو کسی نہ کسی طریقہ سے متاثر کر رہے ہیں ان کی بنیاد بہت بڑے سرمایہ سے نہیں رکھی گئی بلکہ ان کی ڈرائیونگ فورس یا محرک ایک منفرد اور جداگانہ خیال تھا جس کو عملی شکل میں نافذ العمل کردیا گیا ہے اور آج یہ ادارے پوری دنیا کے دماغ اور دل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔

اب اگرپاکستانی معاشرت کو عمومی اور پاکستانی نظام تعلیم کو خصوصی طور پر پرکھا جائے اور اس کے بنیادی خدوخال کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں جدت پسندی کی دور دور تک کو ئی گنجائش نہیں ہے۔ ہمارے طلبا سکول کے وضع کردہ نصاب سے ہٹ کر ایک لفط بھی سوچ اور لکھ نہیں سکتے کیونکہ ہمارا امتحانی نظام طلبا کو تحقیق اور تنقید کی اجازت نہیں دیتا۔ اور بدقسمتی سے اساتذہ کرام بھی اسی قاعدہ کو فالو کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ اس نظام کا حصہ رہتے ہوئے کسی متبادل تجربے کی گنجائش نہیں ہے۔

ہمارے نطام تعلیم کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ طلبا کو عملی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کے ادراک کی طرف مائل نہیں کرتا اور نہ ہی ان مسائل کو نئے زاویوں سے دیکھنے، پرکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ جس وجہ سے طلبا عملی زندگی میں پیش آنے والے معاملات کو ماہرانہ انداز میں حل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ پوری دنیا میں تعلیمی نطام کو بہتر کرنے کے لئے استاد، تدریسی طریقہ کار، تحقیقی مواد اور تخلیقی تدریسی ماحول پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے جب کہ بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نظام میں ان عوامل کو سرے سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ لیکن چونکہ ہمارا تعلیمی نظام بھی ہماری معاشرت کا ایک حصہ ہے اور اس کو ڈیزائن کرنے والے بھی ہم لوگ ہی ہیں لہذا ہم کیسے یہ گوارا کرسکتے ہیں کہ اس کو کسی بہتر سماجی و معاشرتی نظام سے تبدیل کر دیا جائے۔

ہمارا معاشرہ اور ہم من حیث القوم نئی سوچ اور جدت کے شدید مخالف ہیں اور ہر اس سوچ کو جو ہمارے طے شدہ عقائد اور نظریات سے متصادم ہو، اس کوبغیر کسی دلیل کے نہ صرف رد کرتے ہیں بلکہ ایسی تمام کوششوں کو عملی طور حوصلہ شکنی کرنا بھی فرض عین سمجھتے ہیں جو کسی نہ کسی طور پر سماجی ڈھانچہ کی تشکیل نو کی بات کرے۔ اور اس کے لئے ہم بسا اوقات اخلاقیات کو بطور ترغیب استعمال کرتے ہیں تو کبھی شاندار ماضی کی تاریخ اور کلچر کو۔ اور اگر ضرورت محسوس ہو تو مذہب کا استعمال بطور ہتھیار کرنے سے بھی نہیں کوئی امر مانع نہ ہے۔

”Learning and innovation go hand in hand۔ The arrogance of success is to think that what you did yesterday will be sufficient for tomorrow۔ “ William Pollard


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).