اصغر سودائی: ایک عظیم استاد کی باتیں


گذشتہ چند روز سے غالباً ملتان میں ہونے والے ایک انتہائی دلخراش اور افسوس ناک واقعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے ۔ جس میں چند نوجوان اپنے ہی کالج کے استاد پر تشدد کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ دکھ کا مقام یہ ہے کہ شاگرد اور استاد ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات بھی لگا رہے ہیں۔ اس طرح کے واقعات ہمارے معاشرہ میں سماجی افراتفری، اخلاقی قدروں کے فقدان،عدم برداشت اور اخلاقی گراوٹ کی غمازی کرتے ہیں۔ ایسے میں اپنے وہ عظیم استاد یاد آتے ہیں۔ جو اخلاق، کردار کی اعلیٰ عظمتوں پر فائز تھے۔ اور استاد شاگرد کا ایک ایسا مضبوط، دیرپا اور ارفع و اعلیٰ رشتہ ہو تا تھا۔ جس پر صرف فخر ہی کیا جا سکتا تھا۔

آج سے تقریباً چار دہائی قبل کا اپنا زمانہ طالب علمی یاد آ رہا ہے۔ اور وہ تمام عظیم استاد جن سے کسی نہ کسی مرحلہ پر کسب فیض کیا۔ میرے ذہن کے دریچوں میں 1960 اور 1970 کی دہائیوں کے وہ تمام استاد اور ان کا عظیم اور مشفقانہ رویہ ایک فلم کی طرح چل رہا ہے۔ میرے لئے بڑا مشکل ہے۔ کہ ان میں سے کس کو دوسرے سے بہتر قرار دیا جائے، ایک سے بڑھ کر ایک ہیرا تھا۔ مگر نہ جانے کیوں میری نظر ایک نہایت ہی قابل احترام بزرگ، میرے محسن اور مشفق استاد جناب اصغر سودائی پر اٹک گئی ہے۔

مرحوم پروفیسر اصغر سودائی علامہ اقبال کالج سیالکوٹ میں ہمارے پرنسپل تھے۔ ایک قد آور استاد اور عظیم انسان تھے۔ جسمانی طور پر دھان پان مگر دور رس اور گہری نگاہ، عمیق مطالعہ، انسان دوست، ایک دھڑکتا ہوا دل، حلم اورعلم میں یکتا، ایک خوبصورت صاحب دیوان شاعر، ایک دلنشیں مقرر، انداز گفتگو اتنا دھیما اور اتنا میٹھا کہ دلوں کو چھو لے۔ شاگردوں کے استاد اور دوست، سراپا پاکستانیت،عجزو انکسار میں بے مثل، شہر اقبال سیالکوٹ کی جان اور شان جناب اصغر سودائی چند سال قبل ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ اور میرے جیسے ہزاروں شاگردوں، مداحوں، ہم عصر دوست احباب اور لواحقین کو افسردہ کر کے چلے گئے۔

اصغر سودائی مرحوم عظمت استاد کے اس عالی شان مقام پر فائز تھے کہ الفاظ احاطہ نہیں کر سکتے۔ بے شمار حسین یادیں ان کی شخصیت سے جڑی ہوئی ہیں۔ کردار سازی اور انسان دوستی ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو تھا جس پر ان کے شاگرد اور مداحین بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔ بلاشبہ مرحوم اصغر سودائی ایک ہمہ پہلو شخصیت کے مالک تھے۔

بطور طالب علم تحریک پاکستان میں ان کا متحرک رول تاریخ کا حصہ ہے۔ اور تحریک پاکستان میں جس نعرہ نے جان پیدا کی اور جو آگے چل کر تحریک پاکستان اور دو قومی نظریہ کی شناخت بنا۔ میری مراد ” پاکستان کا مطلب کیا (لا الہ الا اللہ)” سے ہے۔ یہ نعرہ سودائی صاحب نے بطور طالب علم غالباً 1945 کے لگ بھگ تخلیق کیا اور پھر یہ زبان زد عام ہو گیا۔ سودائی صاحب کے اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے خلوص نیت اور اس دھرتی سے پیار کے عملی اظہار کے کئی واقعات کا میں گواہ ہوں۔ مگر انہوں نے اس شہرہ آفاق نعرہ کا کبھی کریڈٹ لینے کی شعوری کوشش نہیں کی۔ سودائی ساحب ایک بہت اچھے شاعر اور ادیب بھی تھے۔ جب تحریک پاکستان کا جاں گسل مرحلہ بخوبی انجام پا گیا اور پاکستان وجود میں آ گیا اور مسلمان ہند کی لازوال قربانیوں کو انہوں نے اپنی مشہور نظم ” میرا وطن ” میں اس طرح داد تحسین ادا کیا۔

کتنے پیکر کٹے پھر یہ پیکر بنا

کتنے ماتھے جلے پھر یہ جھومر بنا

کتنے اشکوں کی بنیاد پر گھر بنا

میرا سندر سنہرا سجیلا وطن

 متذکرہ بالا قطعے کے ذریعہ نوجوان نسل کو اس ملک کے حصول کیلئے کی گئی قربانیوں کا کس قدر سحر انگیز پیرائے میں درس دیا گیا ہے جس کا احساس وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہوں نے تحریک پاکستان میں بے پناہ قربانیاں دیں اور اس تحریک کا حصہ رہے۔ اصغر سودائی کی شاعری میں فنی پختگی اور ایک جاذبیت ہے ایک مرتبہ کلاس روم میں جب جگر مراد آبادی کا یہ شعر پڑھا گیا کہ

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے

ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

تو سودائی صاحب نے فوراً اپنی غزل کا ایک مقطع سنایا کہ

عشق وہ آگ ہے اصغر جو ہے تاثیر میں سرد

تو بھی جل بھن کے اسی آگ میں ٹھنڈا ہو جا

پروفیسر اصغر سودائی کے شعر سنانے کا اپنا ہی انداز تھا۔ بڑے بڑے ہم عصر شعراء اصغر سودائی صاحب کی شاعری کے مداح تھے۔ ایک مرتبہ سیالکوٹ کے تاریخی قلعہ پر ایک شاندار مشاعرہ ہو رہا تھا جس میں بڑے بڑے شعرائے کرام شریک تھے محفل جب جوبن پر تھی تو عبدالحمید عدم نے یہ شعر پڑھ کر محفل لوٹ لی۔

شہر سودائی میں آج رات تماشا ہے عدم

کتنے پروانے ہیں جو رقص فغاں کرتے ہیں

سیالکوٹ شہر جسے شہر اقبال بھی کہتے ہیں وہ شہر سودائی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ سیالکوٹ میں سودائی صاحب کی تعلیمی خدمات نا قابل فراموش ہیں۔ ایک عرصہ تک جناح اسلامیہ کالج میں درس و تدریس کے فرائض ادا کرنے کے بعد پروفیسر محمد یوسف (مرحوم) جو کہ ان کے داست راست تھے اور بڑے باکمال آدمی تھے سے مل کر سیالکوٹ میں علامہ اقبال کالج قائم کیا۔ اور اپنی مدد آب کے تحت ایک وسیع و عریض نہایت قیمتی قطعہ اراضی کا حصول، اس پر ایک خوبصورت بلڈنگ اور پھر اس ادارہ کو کامیابی سے کئی سالوں تک چلانا پروفیسر اصغر سودائی کا ایک عظیم کارنامہ تھا۔

اصغر سودائی ایک وضع دار، انتہائی باوقار، سادہ مگر مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے وہ عجزو انکسار کا ایک پیکر نظر آتے تھے۔ جنہیں کبھی کسی نے غصہ میں نہیں دیکھا۔ اصغر سودائی صاحب ایک عظیم استاد تھے ان کی شخصیت میں اتنی جاذبیت اور کشش تھی کہ بڑے ہی نجیف و نزار جسم کے ساتھ وہ جب بھی کالج کے سٹوڈنٹس کے بپھرے ہوئے جلوس کے سامنے تن تنہا کھٹرے ہو جاتے تو تمام طالب علم ان کے احترام میں واپس اپنے کلاس رومز میں پلٹ جاتے۔

وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے جو اپنے پیچھے بے شمار خوبصورت یادیں اور ان گنت سوگوار چھوڑ گئے۔

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردوں سے انسان نکلتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).