کیسے برباد کیے کوہ و دمن


بارہا نتھیا گلی کی بلندیوں سے یا گلگت میں فوج کی سروس کے دوران یا کسی بھی پہاڑی سڑک سے گزرتے ہوئے، پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر تعمیر گاؤں دیکھتا رہا۔ دن میں ویسے ہی گھروندے اور راتوں کو روشنیاں اوپر تلے مگر کبھی کسی ایسے گاؤں میں جانے کا اتفاق نہیں ہو پایا۔ اسی طرح اٹلی کی شاہراہوں سے گزرتے ہوئے پہاڑیوں کی ڈھلوانوں اور کہیں کہیں کگر پہ بسی بستیاں دیکھنے کا اتفاق ہوا مگر دور دور سے۔ روس میں رہتے ہوئے ٹیلیویژن پر قفقاز کی دور افتادہ بستیاں بھی اسی طرح کی دکھائی دیں مگر جانا نہ ہو سکا لیکن کل مجھے، ہری پور ہزارہ کے نواح میں ایک ایسی ہی بستی میں جانے کا موقع میسر آ گیا۔ وہاں اپنے مہربان دوست زاہد کاظمی کے ساتھ بیاہ کی ایک تقریب میں شریک ہونا تھا اگرچہ یہ تقریب گاؤں سے ذرا پرے پہاڑی کے دامن میں پھلائی کے درختوں والے ایک کھیت میں باقاعدہ اہتمام کے ساتھ تھی۔

قدیم کتابوں، قلمی نسخوں اور نوادرات کے شائق اور جمع کرنے والے نورمحمد نظامی صاحب اس گاؤں میں واقع ایک قدیم منہدم مندر دیکھنے پہنچے ہوئے تھے۔ اس مندر سے متعلق مجھے زاہد کاظمی راستے میں ہی بتا چکا تھا۔ مجھے بھی اسے دیکھنے کا اشتیاق تھا مگر زیادہ شوق پہاڑی بستی سے گزرنے کا تھا۔ پہلے ایک اترائی اترے تو نیچے نالہ تھا جو چوڑائی میں دو ڈھائی میٹر تھا مگر اس میں سے پانی کی کہیں دو انچ چوڑی تو کہیں پانچ انچ چوڑی لکیر بہہ رہی تھی۔ زاہد نے بتایا کہ یہ نالہ کچھ برس پہلے تک سال بھر مسلسل جاری رہتا تھا اور جتنا اس کا عرض دکھائی دیتا ہے اتنا ہی بھرا ہوا ہوتا تھا ہاں جب بارش ہوتی تو کہیں عریض اور پرشور۔

لیکن اب ایسا بے آب کیوں؟ میرے استفسار پر زاہد نے بتایا کہ اوپر کہیں پہاڑوں میں جپسم کی کانیں ہیں، جپسم حاصل کرنے کی خاطر کانوں کے کندہ نا تراش مالکان نے پہاڑ ڈھا ڈھا کر توجہ کیے بن اور خیال رکھے بغیر اکثر چشمے مسدود کر دیے جو نابود ہو گئے اور کہیں کہیں تو نالہ ہی بند ہو گیا۔ ہل من مزید کے لالچی کانوں کے کے یہ مالکان پاکستان کے پہلے عسکری ٓآمر کے پوتے ہیں۔ ایسا کیا جانا ماحولیاتی بربادی یعنی ecological catastrophe ہے مگر پیسہ کمانے والے قدرت کے ساتھ کھلواڑ کرنے سے کہاں باز آیا کرتے ہیں۔

ہاں البتہ اگر کہیں حکومتیں معقول ہوں، قانون کارگر ہو تو ایسے لوگوں کو نہ صرف بھاری جرمانے کیے جاتے ہیں بلکہ ان کو اس نوع کے کاروبار میں حصہ لینے سے روک دیا جاتا ہے اور اگر بربادی ناقابل تلافی ہو جیسا کہ یہ نالہ بہنا بند ہو چکا اس پر سزائے قید بھی ہو سکتی ہے مگر ملک عزیز میں تو ”نیند اس کی ہے، خیال اس کا ہے، راتیں اس کی ہیں، جس کے بازو پر تری زلفیں پریشاں ہو گئیں“ یعنی لیلائے اقتدار جن کے پہلو میں ہو، انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔

اس نالے میں ایک مقام پر ایک تین انچ کے قطر کے پائپ سے ڈیڑھ انچ کے حجم میں مسلسل شفاف پانی بہہ رہا تھا۔ یہ ناوا نام کا واحد چشمہ ہے جو باقی بچ رہا ہے کیونکہ ایک زمانے میں اس گاؤں کے زیادہ باسی ہندو تھے جنہوں نے اس چشمے کے ساتھ بیٹھنے کو پتھر کے دیواری بنچ اور تھڑا بنوایا تھا جو اب تک کسی حد تک قائم ہے۔ اس چشمے کا پانی موسم کی نسبت گرم تھا۔ زاہد کے مطابق اس کے پانی سے سردیوں میں نہایا جا سکتا ہے اور گرمیوں میں اس کا اپنی ٹھنڈا برف ہوتا ہے۔ میں نے بھی اس پانی کے دو چلو پیے۔ اس چشمے کے پانی سے گاؤں کے لوگ استفادہ کرتے ہیں، پینے کے علاوہ یہاں خواتین کپڑے بھی دھونے آتی ہیں۔ اس گاؤں میں ایک دھرم شالہ بھی تھا جس کی عمارت اب تک قائم اور مستعمل ہے۔

پھر ہم گاؤں کے ایک حصے سے گزر کی مزید چڑھتے چلے گئے، ایک اور یکسر خشک نالے کے اطراف و اکناف سے گزرتے، اوپر چڑھتے ہم خاصی اونچائی پر وہاں پہنچے جہاں ایک قدیم جٹا دھاری وسیع بڑ کا درخت اپنی داڑھیوں کے ساتھ ویران اور برباد خاموش کھڑا تھا۔ اسی بڑ کے درخت تلے وہ مندر ہے جو کسی حد تک دھنس گیا ہے، جس کا گنبد ہے پورا مگر بیٹھ چکا ہے۔ ساتھ ایک اور کمرہ نما تعمیر ہے جو بالکل بیٹھ چکی ہے اس کے دروازے اور کھڑکیوں سے اس کے اندر اگی گھاس اور جھاڑ جھنکار دیکھی جا سکتی ہے۔ زاہد کا کہنا تھا کہ یہ مندر انیسویں صدی کے اواخر میں تعمیر ہوا تھا مگر نظامی صاحب نے وضاحت کی کہ اس میں سیمنٹ برتا گیا ہے جو اس علاقے میں کہیں 1920 کی دہائی میں آیا تھا اس لیے یہ بیسویں صدی کے آغاز میں تعمیر ہوا ہوگا۔ ممکن ہے پہلے ہی تعمیر ہوا ہو اور سیمنٹ پہنچنے کے بعد اس کی مرمت کی گئی ہو۔

دوسری جانب نالے کے اس پار ایک چٹان تھی جس میں بھورے رنگ کے تہہ دار، اینٹوں کی شکل کے پتھر قدرتی طور پر چنے ہوئے تھے مگر اس کے پہلو میں نالہ تو گاؤں کے نزدیک کسی حد تک رواں نالے کی نسبت یکسر خشک تھا، لگتا تھا اسے دیکھ کر برگد کا درخت استعجاب میں منجمد ہو چکا ہے۔ یہ تباہی بھی انہیں دولت کے پجاری حیوان نما انسانوں کی تھی جو قدرت کی عصمت دری کے مرتکب ہیں۔ جس طرح تین ہفتے پیشتر مجھے دریائے سندھ کے دونوں اطراف میں تباہ ہو چکی کپاس کی فصل دیکھ کر قلق ہوا تھا اتنا ہی افسوس مجھے نالوں کو بے آب کر دیے جانے سے ہوا۔ میرا بس چلے تو ایسا کرنے والوں کو کڑی سزائیں دلواؤں۔

خون روتے دل کے ساتھ واپسی کا سفر کرکے، جس دوران مجھے پھسلنے یاگرنے سے بچانے کی خاطر زاہد بار بار میرا بازو پکڑلیتا تھا، ہم گاؤں پہنچے۔ جہاں پہلے ایک دوست کے گھر ایسے کمرے میں بیٹھ کر چائے پی جہاں کارنس پر صاف دھوئے ہوئے برتن ہی برتن تھے جن کی میں نے تصویر بناتے ہوئے صاحب خانہ سے کہا کہ میں آپ سے اجازت لیے بنا تصویر بنا رہا ہوں۔ شوکت نام کے ان مہربان میزبان نے کہا، ”کوئی بات نہیں بلکہ میں آپ کو ایک اور چیز بھی دکھاؤں گا“۔

جاتے ہوئے انہوں نے برآمدے میں دھری وہ چیز دکھائی جسے ”تونڑی“ ( ت پر زبر اور نون غنہ ( کہتے ہیں۔ یہ ٹانگوں پر کھڑی لکڑی سے بنی ایک الماری نما شے تھی جس کے پٹوں پر ہاتھ سے خوبصورت نقش و نگار بنائے گئے تھے۔ درمیان کے ٹوٹے ہوئے پٹ کے ادھر ادھر پٹوں پر دو مدور آئینے لگے ہوئے تھے۔ یہ چیز پہلے زمانوں میں رضائیاں رکھنے کے کام میں لائی جاتی تھی۔ شوکت نے بتایا کہ یہ ان کی والدہ کو جہیز میں ملی تھی جنہیں اس جہان سے گزرے بھی تیس برس ہو چکے ہیں۔ اگر اس الماری نما شے کی تھوڑی سی مرمت کروا لی جائے تو یہ ایک خوشنما قدیم اثاثہ ہوگا۔

پھر ہم ایک اور صاحب کے ہاں جانے کے لیے موٹر سائیکلوں کی پچھلی نشستوں پر بیٹھ کر گاؤں کی اترتی چڑھتی، صاف اور پکی گلیوں سے گزرتے ہوئے ایک دوسرے میزبان کے ہاں پہنچے جو خود تو موجود نہیں تھے مگر ان کی گھر سے باہر بیٹھک میں جس میں ایک اٹیچڈ صاف باتھ روم بھی تھا ان کے فرزند نعیم جو میری خود نوشت کا پہلا حصہ ”پریشاں سا پریشاں“ پڑھ چکا تھا اور اس کا دوست بیٹھے تھے۔ وہ زاہد کاظمی سے یہ پوچھتے رہے کہ ہمیں گاؤں کے نوجوانوں کو شعور دینے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔

زاہد نے انہیں بہت مناسب مشورے دیے جس کے بعد یہ دونوں نوجوان ہمیں اپنی اپنی موٹر سائیکلوں پر ان کی بیٹھک میں پہنچا کے گئے جن کے دو بیٹوں کا بیاہ ہوا تھا۔ زاہد نے دونوں نوجوانوں کو لفافوں میں سلامی کے پیسے دیے اور پھر ہم ان کے والد اور زاہد کے دوست ریٹائرڈ ماسٹر خداد داد صاحب سے اجازت لے کر زاہد کاظمی کے بے حد تھکے ہوئے بھانجے طاہر کی گاڑی میں بیٹھ کے گھر لوٹے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).