پارلیمنٹ کا این آر او!


ایک نئے میثاق یا ایک نئے عمرانی معاہدے پر بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ قومی اداروں کے مابین مکالمے کے آغاز کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے اور ہم آہنگی کی فضا کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

’اختلاف‘ مکالمے کو جنم دیتا ہے اور اتفاق ’رائے‘ کی راہ ہموار کرتا ہے۔ میثاق، معاہدہ یا ہم آہنگی بات چیت کے بغیر ممکن نہیں اور بات چیت کے لیے انا کو پس پشت ڈالنا ضروری ہے۔

دستوری ضمانتوں کے لیے باہمی مشاورت اور باہمی مشاورت کے لیے پارلیمانی اہمیت کو ماننا پڑے گا۔ اداروں کے مابین مکالمے کا آغاز آئیڈیل گراؤنڈ تیار کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔

اداروں کے اختیارات اور آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے معاملے پر دیے جانے والے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے بہرحال ایک زمین تیار کر دی ہے۔

دو سال سے مفلوج پارلیمان کی لگتا ہے کہ سُنی گئی۔ قومی اسمبلی کے اجلاسوں سے جان چھڑانے والی حکومت کو اب پارلیمنٹ کو ’عزت‘ دینا ہو گی۔ سیاسی جماعتوں کا اصل موقف کیا ہے۔۔۔ اظہار کا بھر پور موقع ملے گا۔

آئینی ترمیم ہو یا محض ایکٹ میں تبدیلی، جمہوری سیاسی جماعتیں ایکسپوز ہوں گی۔ اچھی یا بُری سیاسی جماعتوں کے پاس نادر موقع ہے کہ اپنے ’اُصولی‘ موقف کا کھل کر اظہار کریں۔

تحریک انصاف کی حکومت جتنی سیاسی نابالغ محسوس ہوتی ہے اتنی ہے نہیں ورنہ نوٹیفیکشن کا معاملہ کوئی ایسا سائنسی فارمولا ہر گز نہ تھا کہ جسے سمجھنے میں دقّت ہوتی۔

نوٹیفیکشن کی زبان سے لے کر انداز، تاریخیں اور مختلف بیانات۔۔۔ قانونی موشگافیوں سے روشناس سیانی قانونی ٹیم کی موجودگی میں بار بار مسودے کی تیاری اور پھر بھی غلطیاں۔۔۔ سمجھ دار لوگوں کو مطمئن کرنے میں ناکام ہو رہی ہیں۔

سمجھنے والے سمجھ گئے ہیں لیکن ایک بار پھر چونکہ کام اسی قانونی ٹیم سے ہی لینا ہے لہذا مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ تیل دیکھیں اور تیل کی دھار۔

اس قدر خوش نصیب حکومت کبھی پہلے نہیں دیکھی، ہر موقع اور وقت کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا کوئی تحریک انصاف سے سیکھے۔

’کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے اور کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے‘ کا فارمولا تحریک انصاف نہ صرف سیکھ چکی ہے بلکہ اس بات کا فن بھی خوب جانتی ہے کہ کس مہارت کے ساتھ اپنی ہی غلطیاں یا اپنا ہی پیدا کردہ آئینی بحران بی جے پی اور دولت باہر لے جانے والے مافیا کے سر تھوپ دیا جائے۔

عدالتوں کو آزمائش اور قومی ادارے کو امتحان میں ڈالنے کی مہارت بھی صرف اسی حکومت کے عظیم دماغ ہی کر سکتے ہیں۔ محض معمولی گناہوں کی غیر معمولی سزا پانے والی سیاسی جماعتیں تحریک انصاف کی معصومانہ غلطیوں کو معاف کیے جانے پر سخت نالاں مگر تاحال بے بس ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ نئے میثاق اور اداروں کے مابین ڈائیلاگ کی بات فواد چوہدری صاحب کی سیاسی ایجاد ہو مگر کیا ادارے آئندہ چند دنوں میں پارلیمان سے اُٹھنے والے اعتراضات سُن لیں گے؟ پارلیمان کے اندر اور باہر سوالات کو کیسے روکا جائے گا؟

قانون سازی کے لیے آرمی چیف کے اختیارات اور مراعات پر بحث ہو گی۔ کئی روایتوں کو قانونی لبادہ ملے گا، سیاسی جماعتیں جن موضوعات پر بات کرنا بھول گئی ہیں اُن پر بات کریں گی اور موجودہ حالات میں یہ بھی غنیمت ہی سمجھا جائے گا۔

اس سارے مرحلے میں سب ایک امتحان سے گزریں گے سوائے موجودہ حکومت کے جس کا کچھ بھی داؤ پر نہیں لگا ہوا۔۔۔ اتفاقِ رائے پیدا کرنے کا کوئی دباؤ کم از کم اس حکومت پر قطعاً نہیں۔ پیپلز پارٹی، ن لیگ سب اپنی اپنی ڈی میں کھیلیں گے جبکہ اصل کھیل ڈی سے باہر ہو گا۔

دیکھتے ہیں کہ فارورڈ کس کے پاس آتا ہے؟ اب گیند پارلیمان کے کورٹ میں آ ہی گئی ہے تو دیکھنا ہو گا اس نادر موقع پر پارلیمانی بالادستی کا گول ہوتا ہے یا نظام ہی ’گول‘؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).