موٹیویشنل سپیکرز کو بولنے دیں ۔ زندگی سے سیکھیں ۔


رانا ذیشان حیدر صاحب خبرناک کے محقق ہیں اور کبھی کبھار ہم سب کے لئے بھی لکھتے بھی ہیں۔ میری گزارش ہے کہ ان کی عمر کا شمار مہ و سال سے نہیں بلکہ گرمئی جذبات سے ہونا چاہیے اور اس اعتبار سے ان کی عمر داستان امیر حمزہ والے امیر حمزہ کے برابر ہے۔ میں نے داستان کا حوالہ اس لئے دیا مبادا جماعت الدوتہ والے امیر حمزہ کا خیال کوند آئے۔ جناب ان معدودے چند لوگوں میں سے ہیں جو مجھے ہمیشہ کثیف لطیفے سنانے کی وجہ سے یاد رکھتے ہیں۔

مجال ہے کبھی کہا ہو کہ اپ کی فلاں بات نے میری بڑی راہنمائی کی، فلاں جگہ پر اپ کے فلاں فرمودات یاد آئے۔ ہر گز نہں۔ ایسی توفیق اگر ہے بھی تو اظہار کرنے میں پرلے درجہ کے بخیل۔ ”سر میں دوستاں نل بیٹھاں ساں تواڈی فلانی گل سنائی یقین کرو اک دوسرے تو نظراں نہیں ملا سکے۔ کسے نے گل مکان لئی کہہ دتا چلو روٹی کھائیے۔ چھڈو پرے“۔

مجھ سے عمر اور عہدہ میں چھوٹے ہیں لیکن خیال دونوں باتوں کا نہیں رکھتے بلکہ منہ پھاڑ کر تنقید کر دیتے ہیں گو کہ بعد میں جعلی سی معذرت بھی کر لیتے ہیں۔ کتابیں پڑھنے کے شوقین ہیں اور چھوٹی سی عمر میں زندگی کی کتاب بھی پڑھ گئے ہیں اور یہ کتاب پڑھنے کے لئے انہیں آنکھوں سے دیے جلانے پڑے۔ فرماتے ہیں انہیں کبھی کوئی شے پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملی لیکن میرا خیال ہے جو پلیٹ میں رکھ کر ملی جناب نے اس کی قدر بھی نہیں کی۔

رانا صاحب نے زندگی سے مار بھی خوب کھائی ہے اور ڈھیٹ ایسے ہیں کہ آتے جاتے زندگی پر آوزیں کسنے سے باز نہیں آتے بلکہ أس کا ٹھٹھہ أڑاتے ہیں۔ ”جو اینہے میرے نال کیتا جے اوہی میں ایندے نال کراں گا“ گویا کہہ رہے ہوں بلا سے مر جاؤں لیکن تجھ کو بیوہ کر کے چھوڑوں گا ”۔ جناب نے کوئی کام دلچسپی سے کرنا ہو تو اپنے منہہ سے کہتے ہیں“ جے کم کروانا اے تے ضد لوا دئیو ”۔ شاید موصوف کا منہ چھوٹا ہے اس لئے بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن ہم سب کے بہت لاڈ لے بھی ہیں۔ ہم سب وجاہت مسعود صاحب نہیں بلکہ خبرناک والے۔ اس ساری تمہید کی شان نزول ان کی ایک پوسٹ ہے۔

انہوں نے اپنے فیس بک پر جمیکا کے ایک سنگر باب مورلے کی وڈیو پوسٹ کی ہے جس نے بہت کسمپرسی کی حالت میں گیت گانے کا آغاز کیا اور بہت عروج دیکھا۔ باب کہہ رہے ہیں کہ دولت سے بندہ امیر تو نہیں ہو جاتا! دولت یا ملکیت سے خوشی تو نہیں ملتی! کتنی دولت چاہیے خوشی حاصل کرنے کے لئے وغیرہ وغیرہ۔ بھئی یہ باتیں تو آپ أس وقت کہتے جب دوست پارٹی کرتے اور آپ کو ”فقرا“ سمجھ کر نہ بلاتے۔ آپ کی گرل فرینڈ سالگرہ کا تحفہ نہ دینے پر کسی اور کے شانوں پر زلفیں بکھیر دیتی۔

آپ لاکھ سمجھاتے کہ آپ میں بہت جوہر ہیں اور مستقبل میں آپ جسٹن بیبر کے دانت کھٹے کریں گے اور لوگ کہتے ’جا منہہ دھو جا کے ”۔ کسی زمانے میں جب میں بہت سمارٹ تھا (بہت دوستوں کو اعتراض ہو گا ) شرٹ کے کالر کھڑے رکھتا تھا اور میری طرف دیکھ کر کچھ چھچھورں نے بھی ایسا کرنا شروع کر دیا جب کسی نے اعتراض کیا تو بولے اگر ذیشان حسین حماقتیں کرے تو سٹائل اورہم کریں تو“ چول ”۔ حضور اچھی اچھی گاڑیوں کے ہوتے ہوئے بسوں ویگنوں پر دھکے کھانا عیاشی ہے۔

میز لذت بھرے کھانوں سے سجا ہو تو ڈائٹنگ کا اپنا ہی مزہ ہے۔ اماں کریماں پھر یاد آ گئی جسے روزے رکھنے کا پوچھتے تو کہتی ”کے گال ہائی۔ کیوں رکھاں روجے۔ او میکو چوکھا دتا ہائی“۔ یعنی کیوں رکھوں روزے مجھے کون سا اللہ نے بہت زیادہ نوازا ہوا ہے۔ ضیاء دور میں ایسی باتیں کرتی تو ہم کہتے اماں ضیاء کوڑے مارے گا تو کہتیں ”میں اونہہ ضیاء دے کوڑے کھانی ودی ہاں اینہ میکوں کی کوڑے مار سی“۔ میں تو أس ضیاء ( قسمت لکھنے والا) کے کوڑے کھا رہی ہوں یہ ضیاء مجھے کیا کہہ سکتا ہے ”

رانا صاحب کو پتہ نہیں کسی موٹیویشن کی ضرورت کیوں رہتی ہے حالانکہ موصوف کے ذمہ اگر بلی کو بگہیاڑ اور کتے کو کبوتر بنانے کا کام سونپا جائے تو بغیر وقت ضائع کیے اس میں جت جائیں گے شرط مگر یہ ہے کہ کہیں سینگ پھنسوا دیے جائیں۔

موٹیویشنل سپیکرز کو دیکھ کر مجھے وہ چوہا یاد آجاتا ہے جو کسی موٹیویشنل سپیکر سے مل کر آتا ہے اور کہتا ہے ”کتھے جے بلی۔ اوہنوں کہ جلدی آ نہیں تے میں کج کر بیٹھا گاں“۔  بلی نے کہا حضور آپ فکر نہ کیجئے میں حاضر ہوں اور بڑے اطمینان سے أسے کھا گئی۔ موٹیویشنل سپیکرز ہمیشہ کامیاب لوگوں کی کہانیاں سناتے ہیں حالانکہ ہزاروں ناکام لوگوں کے بعد ایک کامیاب آدمی پیدا ہوتا ہے اور ذرا باریک بینی سے دیکھیں تو وہ بے چارہ بھی حادثاتی طور پر اس میدان میں کودا ہوتا ہے۔

بس دست تہہ سنگ آمدہ پیمان وفا ہے والی بات ہے۔ موٹیویشنل سپیکرز اور مساج کرنے والوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ دونوں وقتی طور پر شل اعصاب کو سکون دیتے ہیں۔ ان کی باتیں سن کر کچھ بھی ناممکن نہیں رہتا اور بندہ بے چارہ خود کہیں کا نہیں رہتا۔ اگر موٹیویشنل سپیکرز اتنے ہی اہم ہوتے تو اپنی چرب زبانی سے عشق کا بھوت اتار دیتے اور بندہ سمجھدار بن کر اپنی بلا کسی اور کے سر تھونپ کر پتلی گلی سے نکل بھی جاتا اور محبت میں سرخرو بھی ہو جاتا۔

یہ ہر سہل طلب کو فرہاد اور ہر مجبور کو مجذوب  بنانے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ کوڑے کرکٹ کو عود و عنبر کا پیاڑ اور بیاباں کو بازار بنا دیتے ہیں۔ ذیشان حیدر صاحب کے فلسفہ سینگ پھنسوائی دراصل خود ہر موٹیویشن کی اساس ہے۔ جولیس سیزر میں کیسئیس انہیں منفی جذبات کو بر انگیختہ کر کے بروٹس سے اپنے دوست کو چاقو مروا دیتا ہے۔

موٹیویشن منفی جذبات اجاگرکرنے میں زیادہ ممدومعاون ثابت ہوتی ہے مثلا کسی دوسرے کی کامیابی محنت اور صلے کو کسی دوسرے کی نوازش قرار دے کر چھوٹا کرنا اور کامیاب آدمی کو بے وقعت کرکے ناکام آدمی کو احساس دلانا کہ یہ کرسکتا ہے تو تم کیوں نہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ سماج ہے اور اس کی اخلاقیات ایسی ہی ہیں یعنی بے شرمی سے لوگ کہہ دیتے ہیں کہ پروفیشنلزم ہے اگر بونے اپنی جگہ بنانے کے لئے سیزر کا دامن تارتار کر دیں۔

موٹیوشنل سپیکنگ ایک نیا رحجان ہے اور میرا خیال ہے ادب یا فلسفہ پڑھنے سے دوری نے اس صنف مسلسل تکلم کو جگہ دی ہے ورنہ میں نے آج تک ڈیموستھنیز کی طرح کسی کو ہکلانے سے لے کر عظیم مقرر بنتے نہیں دیکھا۔ کسی کو موثیویشن کی وجہ سے نالائقی کا طعنہ سن کر بھی ورلڈ وار لڑتے نہیں دیکھا۔ زندگی سے بڑی موٹیویشن کوئی نہیں اور حوادث و تجربات سے بڑا گائیڈ کوئی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).