کہاں کا تجاہل، کہاں کا تغافل


گل خان بڑا ناراض تھا، اس کا کہنا تھا کہ مجھے جرات کس طرح ہوئی کہ اُسے مشورہ دوں۔ مجھے گل خان نے بڑا جھاڑا، ڈانٹ پلائی اور تین دن تک ناراض رہا۔ (کیونکہ وہ جانتا تھا قطع تعلق گناہ ہے ) ، میں بھی گل خان سے الجھنا نہیں چاہتا تھا، کیونکہ گل خان بہت طاقت ور ہے اس لئے میں مقابلے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کہاں گل خان اور کہاں قادرخان۔ لیکن ایک بات مشترک تھی کہ وہ سنتا کسی کی نہیں تھا اور میں بولتا کچھ نہیں تھا۔

ان چھوٹے بڑے پہیوں کے ساتھ ہماری دوستی کی گاڑی اسی طرح گزر رہی تھی۔ اس گاڑی کے دو پہیے اور کھینچنے والا ایک گدھا۔ اب گدھے کے ذکر پر آپ کے ذہن میں کیا چل رہا ہے اس پر مجھے کچھ کہنا نہیں چاہیے لیکن کچھ بھی سوچنے سے پہلے جان لیں کہ گدھا ہر قسم کا بوجھ خود پر لاد لیتا ہے، مشقت و جانقشانی اس کی فطرت میں ہے۔ اب اس میں گدھے کا کوئی قصور تو نہیں کہ اگر اُس پر بوجھ زیادہ لاد جائے۔ بوجھ زیادہ لاد دینے سے جو حشر ہوتا ہے وہ سب آپ کو معلوم ہے۔

یعنی گاڑی سے گدھا اوپر لٹک جاتا ہے۔ پھر دو ہی صورتیں ہوتی ہیں کہ یا تو گدھا گاڑی سے وزن کم کردیا جائے یا پھر وزن کو اس توازن سے رکھا جائے کہ گاڑی پر وزن تو ہو لیکن گدھے کی ٹانگیں زمین پر ٹکی رہیں۔ تاہم یہ بڑے کمال و تجربے پر منحصرہے کہ گدھے گاڑی میں وزن کم کیے بغیر گدھے پر کتنا بوجھ مزید لادا جاسکتا ہے۔ گدھے کے ساتھ اکثر و بیشتر مریل ولاغر سا چھوٹا خچر بھی جت دیا جاتا ہے۔ گدھا طاقت صرف کرنے کے باوجود سمجھتاہے کہ اُس کے ساتھ وزن ڈھونے میں خچر بھی مدد کررہا ہے۔ لیکن اس کا کوئی خاص کردار نہیں ہوتا، اس کا علم ہمیں ہے، گدھے کو نہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ گدھا، گھوڑے کے نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ بلکہ خچر، زبیرا اور ٹٹو بھی گھوڑے کے شجرے سے ملتے ہیں۔ جس کے بعد مجھے سمجھ آئی کہ ہارس ٹریڈنگ کیوں کہلائی جاتی ہے۔ جب میں گدھے پر لکھ رہا تھا تو گل خان مجھے بڑے غصے سے دیکھ رہا تھا۔ میں نے لکھنا چھوڑ کر اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ گھور کیوں رہے ہو۔ (اس بات سے میری مراد یہ تھی کہ گھورنے کا کام تو کسی اور کا ہوتا ہے) ۔ گل خان ہمیشہ کی طرح غصے میں بولا کہ یہ بتاؤ یہ آج کل تم گدِھ، مکھی، کتے اورگدھوں پر کیوں لکھ رہے ہو؟

(اس نے اپنا نام گُل کردیا تھا کہ میں نے اُس پر بھی لکھا) میں نے اپنے چشمے کو درست کرتے ہوئے کہا کہ اتفاق ہے کہ گدِھ، مکھی، کتے اور گدھے میرے کالموں کا موضوع بن گئے، لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ویسے بھی عوام کو تبدیلی پسند ہے۔ اس لئے ان کی پسند کا خیال رکھنا بھی چاہیے۔ تبدیلی کا نام سنتے ہی جیسے گل خان کو کرنٹ لگ گیا۔ تم نے مجھے چھیڑا، تم نے مجھے پھر چھیڑا۔ ۔ میں ہکا بکا رہ گیا کہ گل خان تو ہٹا کٹا بھلا مانس ہے، میں بھلا اس کو چھیڑ کر اپنی شامت کو آواز کیوں دوں۔

میں نے کہا کہ تبدیلی سے تمھارا کیا سروکار۔ تم تو ویسے بھی گل خان ہو۔ وہ پھر غصے سے بھڑک اٹھا کہ جاؤ، میں تم سے بات نہیں کرتا۔ ہمت ہے تو صاف صاف لکھو۔ میں نے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر 72 کے فونٹ پر ”صاف صاف“ لکھ کر اُسے دکھایا کہ دیکھو کتنا بڑا صاف صاف لکھا ہے۔ گل خان مجھے لات مارکر چنگاڑا کہ اٹھو، تم بے وقوف ہو۔ میں نے تسلیم کیا کہ درست فرمایا کیونکہ صحبت کا اثر ہے۔ اس کے بعد کیا ہوا، پڑھنے کاکیا فایدہ۔

تاہم میں کراہتے ہوئے سوچتا رہا کہ گل خان، تبدیلی کے نام سے اس قدر غیص و غضب میں کیوں آیا۔ میں دوبارہ کراہا، کہ وہ تو گل خان ہے، لیکن مجھے غصہ کیوں آیا۔ میں نے تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے سر جھٹکا کہ چھوڑو، گل خان کی باتیں بھی سوچنے کے قابل ہونے لگی تو ہم کیا کریں گے۔ سوچ سوچ کا دماغ سوج جاتا ہے کہ ہم جو سوچھتے ہیں وہ گل خان کو کیوں نہیں سوجھتا۔ اچھا خاصا ”گدھے“ پر لکھ رہا تھا کہ درمیان میں آگیا۔

لکھ، گدھے پر رہا تھا اور لات گل خان نے مار دی، یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ کرتا کوئی ہے اور بھرتا کوئی اور ہے، لیکن سچ کہوں کہ گل خان اتنا سادہ بھی نہیں جتنا اُسے سمجھا جاتا ہے، جب اُس نے مجھے سب کچھ صاف صاف لکھنے کو کہا تو اُسی وقت سمجھ گیا تھا کہ گل خان کمال ہوشیاری سے مجھے پھنسانا چاہتا ہے اس لئے فونٹ کا سائز بڑا کرکے ”صاف صاف“ لکھ کر جان چھڑائی۔ لیکن در حقیقت دل میں پشیمانی ضرور ہوئی کہ واقعی سب کچھ صاف و شفاف نہیں لکھا جاسکتا۔

اب آپ اس کو کچھ بھی سمجھیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اور ہمارا ایک ہی حال ہے کہ وہ افغانستان میں چھپ کر اس لئے آتا ہے کیونکہ کابل خطرناک جگہ ہے اور ہمارے لئے صاف صاف لکھنا بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ صاف (سچ) لکھنے سے کبھی نہیں گھبرایا، لیکن عدم برداشت کے بڑھتے رجحان کی وجہ سے بوڑھی ہڈیاں، لوہے کی راڈوں کی مار اورنائن ایم ایم کی گولی کو اب شاید برداشت نہ کرپائیں۔ یقین کیجئے کہ آپ کو تبدیلی کا جنون نہ ہوتا تو اپنے کالموں میں گدھ، گدھے، مکھی، بکرے اورکتوں کا ذکر کبھی نہیں کیا کرتا، لیکن آپ کو تبدیلی پسند ہے اور مزیدتبدیلی چاہتے ہیں، خود کو تبدیل کریں یا نہ کریں لیکن چاہتے ہیں کہ سب تبدیل ہوجائیں۔ یہ المیہ سا ہے کہ انسان، جانور جیسا بن سکتا ہے، جانور کبھی انسان نہیں بنتا۔

جنوں تبدیلی موسم کا تقریروں کی حد تک ہے

یہاں جو کچھ نظر آتا ہے تصویروں کی حد تک ہے

کچھ ساعت بعد گل خان کے پاس دوبارہ گیا، اُس سے معافی مانگی کہ آئندہ میں شریف جانورو ں پر کچھ نہیں لکھوں گا، بے شک ہم اشرف المخلوقات ہیں، لیکن جب سوچ فکر سے کام نہیں لیتے تو تمام ذی حیات سے بھی بدتر گردانے جاتے ہیں۔ اگر اس قسم کی تبدیلیاں عوا م کو پسند ہیں تو کیا کہاجا سکتا ہے، کیونکہ عوام نے ثابت کردیا ہے کہ وہ نئی تبدیلی کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، دنیا چاہے ادھر سے اُدھر ہوجائے، انہیں تبدیلی پسند ہے، ویسے بھی نقار خانے میں طوطی کی سنتا کون ہے۔ گل خان نے خاموشی سے سب کچھ سنا اور تغافل سے کام لیتے ہوئے مجھے گلے لگایا کہ شاباش، تم نے عقل مندی سے کام لیا، اچھا چھوڑو، یہ بوٹ تم پالش کردو، میں تھک گیا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).