جموں کشمیر اسٹیٹ پراپرٹی کے نامعلوم خریدار


تحریک انصاف کی حکومت تقریبا چھ ماہ قبل نے کئی سرکاری اداروں کو ”بوجھ“ قرار دے کر ختم کرنے کی بات کی تھی جسے روزنامہ جنگ نے شہ سرخی کے طور پر شائع کیا تھا۔ اس خبر کے مطابق وفاقی حکومت نے کہا کہ لاہور میں ایڈمنسٹریٹر جموں کشمیر سٹیٹ پراپرٹی آفس بھی ختم کیا جائے گا۔ یہ آفس دراصل وزارت امور کشمیر کے تحت اسٹیٹ پراپرٹی آف جموں کشمیر کا انتظام و انصرام سنبھالنے کے لئے موجود ہے اور اسٹیٹ پراپرٹی وزارت امور کشمیر کے انتظام میں ہے۔

اس پراپرٹی کے اصل وارث ریاست جموں وکشمیر کی حکومت ہے لیکن عملا ریاست جموں کشمیر کی نمائندہ حکومت کا دعوی کرنے والی ”آزاد“ حکومت کے پاس کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی کوئی تفصیل موجود نہیں۔ آزاد حکومت کا پاکستان سے مسلسل مطالبہ رہا ہے کہ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام آزاد کشمیر حکومت کو واپس دیا جائے جو ابھی تک نہ کیا جا سکا۔

جموں کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام 1947 سے 1955 تک آزاد کشمیر حکومت کے پاس رہا ہے اور پھر ان جائیدادوں کو وفاقی حکومت نے اپنے انتظام میں لے لیا۔ 1961 میں وفاق نے ایڈمنسٹریٹنگ آف کشمیر پراپرٹی آرڈیننس کے ذریعے متنازع ریاست جموں وکشمیر کی سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام و انصرام وفاقی وزارت امور کشمیر (وزارت بے محکمہ) کو دے دیا اور تب سے وزارت امورکشمیر کے تحت لاہورمیں قائم ایڈمنسٹریٹر جموں کشمیر سٹیٹ پراپرٹی آفس ان جائیدادوں کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔

ایڈمنسٹریٹر جموں وکشمیرسٹیٹ پراپرٹی لاہور کے مطابق 1947 ء میں آزادی کے بعد ریاست جموں وکشمیر کی جائیدادیں (یا مہاراجہ آف جموں کشمیر یا مہاراجہ پونچھ) جو ریاست جموں وکشمیر کی علاقائی حدود سے باہر واقع تھیں، ان کا انتظام آزادحکومت ریاست جموں وکشمیر سے لینے کے لئے سٹیٹ پراپرٹی کا قیام عمل میں لایا۔ حکومت پاکستان اور حکومت پنجاب نے کشمیر اسٹیٹ پراپرٹی کو متروکہ جائیدادتصورکیا۔ ایڈمنسٹریٹر آفس کے مطابق قانونی و انتظامی مشکلات کی وجہ سے آزادکشمیر حکومت نے جون 1955 میں حکومت پاکستان سے درخواست کی کہ وہ کشمیر پراپرٹی کا انتظام سنبھال لے۔

حکومت پاکستان ایڈمنسٹریٹنگ آف کشمیر پراپرٹی آرڈیننس 1961 کے تحت کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ 1974 میں جب آزاد حکومت کا انتظام چلانے کے لئے ایکٹ دیا گیا تو اس کے مطابق کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام کشمیر کونسل کو منتقل کیا جانا تھا جو نہیں کیا گیا تھا اور عملاً اس کا انتظام وزارت امور کشمیر لاہور میں قائم ایڈمنسٹریٹیو آفس کے ذریعے چلا رہا ہے۔ یوں 15 اگست 1947 ء سے ریاست جموں وکشمیر، مہاراجہ کشمیر و مہاراجہ پونچھ کی پاکستان میں واقع جائیدادیں حکومت پاکستان کے زیر انتظام قرار پائیں۔

1947 میں پاکستان کی حدود میں کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی 35 جائیدادوں تھیں جن میں شہری پراپرٹی کا رقبہ 1048 کنال جبکہ 2426 ایکڑ دیہی اراضی تھی۔ 1961 سے 2013 تک ان میں سے 14 جائیدادیں وزارت امورکشمیر کے خطوط پر مبنی اجازت کے ذریعے منظور نظر افراد کو فروخت کی گئیں تاہم وزارت امور کشمیر یا کسی بھی ادارے کر پاس کشمیرسٹیٹ پراپرٹی کی فروخت شدہ جائیدادوں کی مالیت کی تفصیل موجود نہیں ہے اور نہ کہیں یہ بتایا گیا ہے کہ کس کو کتنے میں فروخت کی گئیں؟ اس کے ساتھ ساتھ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آزاد حکومت کے پاس بھی پاکستان میں واقع کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی کوئی تفصیل موجود نہیں ہے۔

جموں کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی کل 35 جائیدادوں اور ان میں سے فروخت ہونے والی جائیدادوں پر صحافی اطہر مسعود وانی نے تحقیق کی ہے جس کے مطابق :

” ( 1 ) ۔ حویلی دیال سنگھ لاہورمیں 55 کنال 6 مرلہ 150 مربع فٹ آراضی تھیں جس میں سے 32 کنال 10 مرلہ 203 مربع فٹ لیٹر نمبرKP۔ 3 / 11 / 72 مورخہ 3۔ 9۔ 1980 اور لیٹر نمبر KP 1۔ 1 / 1 / 81 مورخہ 15۔ 7۔ 1981 کے ذریعے نامعلوم افراد کو فروخت کردی گئیں۔ اب اس میں سے 22 کنال 17 مرلہ 128 مربع فٹ جائیداد باقی بچی ہے۔

( 2 ) ۔ لنڈا بازار لاہور ( 3 ) ۔ لوہا بازار لاہور ( 4 ) ۔ ٹرنک بازار لاہور ( 5 ) ۔ چنگڑ محلہ لاہور ( 6 ) ۔ تھاریاں لاہور ( 7 ) ۔ جھگیاں لاہور ( 8 ) ۔ سرد چاہ باغ لاہور ( 9 ) ۔ کٹیر لاہور ( 10 ) ۔ احاطہ غلام بی بی لاہور ( 11 ) ۔ احاطہ میاں سلطان لاہور ( 12 ) ۔ احاطہ کرپا رام لاہور اور ( 13 ) ۔ سرائے میاں سلطان لاہور، کی کل اراضی 289 کنال 5 مرلہ 200 مربع فٹ تھی جس میں سے 32 کنال 17 مرلہ 127 مربع فٹ لیٹر نمبر KP۔ 9 ( 3 ) / 62 (K۔ 1 ) مورخہ 27۔ 3۔ 1963 اور KP۔ 4 / 1 / 81 (K۔ 1 ) مورخہ 31۔ 7۔ 1962 کے تحت فروخت کردی گئیں۔ اور اب اس میں سے 256 کنال 8 مربع 7 مربع فٹ باقی ہے۔

( 14 ) ۔ نو لکھا گڈز ٹرانسپورٹ لاہور کل اراضی 1 کنال 12 مرلہ 221 فٹ تھی جو کہ تمام کی تمام لیٹر نمبر KP۔ 10 ( 17 ) 64۔ KII مورخہ 5۔ 3۔ 1965 کے ذریعے فروخت کردی گئی۔

( 15 ) ۔ کشمیر ہاؤس کشمیر رو ڈ لاہور کل اراضی 100 کنال 12 مرلہ 13 فٹ، اور ( 16 ) ۔ حسن دین نرسری ایجرٹن روڈ لاہور کی 13 کنال 216 فٹ جائیداد لیٹر نمبر KII ( 3 ) / 61 (K۔ 1 ) مورخہ 21۔ 3۔ 1961 تمام کی تمام فروخت کردی گئیں۔

( 17 ) ۔ A۔ 10 کشمیر روڈ کی 6 کنال 12 مرلہ جائیداد میں سے 2 کنال 3 مرلہ 53 مربع فٹ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے ) نے اکوائر کرلی۔ یوں اب اس میں سے 4 کنال 8 مرلہ 172 مربع فٹ جائیداد باقی ہے۔

( 18 ) ۔ پونچھ ہاؤس لاہور کی کل 212 کنال اراضی میں سے 36 کنال لیٹر نمبر K۔ 8 ( 6 ) / 53 (K۔ 2 ) مورخہ 1۔ 11۔ 1965 فروخت کردی گئی اور اب یہاں کوئی اراضی باقی نہیں ہے۔ یوں پونچھ ہاؤس لاہور کی باقی 176 کنال جائیداد کا کچھ پتہ نہیں ہے، ایڈمنسٹریٹر آفس کے ریکارڈ کے مطابق پونچھ ہاؤس لاہور کی 212 کنال اراضی میں سے کچھ باقی نہیں ہے۔

( 19 ) ۔ پونچھ ہاؤس کنسٹریکشن سکیم ایریا لاہور کی کل جائیداد 174 کنال 11 مرلہ 194 مربع فٹ تھی جو تمام کی تمام زیر لیٹرنمبر KP۔ 3 ( 3 ) / 82 مورخہ 9۔ 6۔ 1992 کو فروخت کردی گئی۔ اور اب کشمیر پراپرٹی کی اس جائیداد کا بھی کوئی وجود نہیں ہے۔

ضلع گوجرانوالہ میں، ( 20 ) ۔ فاریسٹ ریسٹ ہاؤس وزیر آباد میں کل 5 کنال 13 مرلہ پر مبنی کشمیر پراپرٹی کی جائیدادتھی جس میں سے 4 کنال 16 مرلے لیٹر نمبر KP۔ 1 / 1 / 81 مورخہ 15۔ 7۔ 1981 فروخت کر دی گئی اور اب اس میں سے صرف 17 مرلہ باقی ہے۔

ضلع سیالکوٹ ( 21 ) ۔ سرائے مہاراجہ سیالکوٹ کی کل 19 کنال 1 مرلہ جائیداد ہے اور یہ اب تک فروخت ہونے سے بچی ہوئی ہے۔ ( 22 ) ۔ بنگلہ نمبر 13 ہسپتال روڈ سیالکوٹ کی 1.87 ایکڑ اراضی تھی جسے B۔ 1 قرار دیا گیا اور اس کا قبضہ پاکستان آرمی کو دیا گیا۔

ضلع جہلم ( 23 ) ۔ فاریسٹ ریسٹ ہاؤس جہلم کی کل 17 کنال 12 مرلہ اراضی پر مبنی جائیداد تھی جس میں سے 13 کنال 3 مرلہ لیٹر نمبر K۔ 23 ( 1 ) ۔ K۔ 1 مورخہ 26۔ 8۔ 1963 اور لیٹر نمبر KP۔ 4 / 3 / 71 مورخہ 14۔ 2۔ 1981 فروخت کردی گئیں۔ یوں اب اس میں سے 4 کنال 19 مرلہ 47 مربع فٹ کی جائیداد باقی بچی ہے۔

( 24 ) ۔ فاریسٹ ہاؤس شاداب روڈ جہلم کل اراضی 43 کنال 11 مرلہ تھیں جس میں سے 38 کنال 9 مرلہ 47 مربع فٹ زیر لیٹر نمبر KP۔ 4 / 3 / 71 مورخہ 14۔ 2۔ 1981 فروخت کردی گئی۔ یوں اب اس میں سے 4 کنال 18 مرلے 47 مربع فٹ باقی ہے۔ ( 25 ) ۔ پونچھ ہاؤس راولپنڈی 23 کنال 11 مرلہ۔ یہ اب تک فروخت ہونے سے بچی ہوئی ہے۔ ( 26 ) ۔ سرائے خردو کلاں راولپنڈی 10 کنال اراضی ہے۔ جس میں 83 کرایہ دار مقیم ہیں۔

( 27 ) ۔ پنڈی ہزارہ ٹرانسپورٹ کمپنی اینڈ ناردرن پنجاب ٹرانسپورٹ کمپنی کی 17 کنال 13 مرلہ پر مبنی جائیداد تھی جو تمام کی تمام زیر لیٹر نمبر KP۔ 30 / ( 2 ) / 56۔ (۔ 1 ) مورخہ 7۔ 3۔ 1964 فروخت کر دی گئی۔ ( 28 ) ۔ سرائے گنڈا سنگھ کی 4 کنال 9 مرلہ 6 مربع فٹ اراضی پر مبنی جائیداد تھی، یہ بھی تمام کی تمام زیر لیٹر نمبرK۔ II ( 6 ) 61 (K۔ 1 ) مورخہ 7۔ 3۔ 1964 فروخت کردی گئی۔

( 29 ) ۔ راجہ بازار راولپنڈی میں 7 کنال 162 مربع فٹ اراضی پرقائم 17 دکانیں تھیں جو زیر لیٹر نمبر K۔ II ( 4 ) 61 (K۔ 1 ) مورخہ 14۔ 2۔ 1962 فروخت کر دی گئیں۔

( 30 ) ۔ آزاد پتن میں 16 کنال 12 مرلہ اراضی، ریکارڈ کے مطابق یہ تمام زمین دریائے جہلم کے کٹاؤ میں آگئی۔

( 31 ) ۔ سرائے مہاراجہ کہوٹہ ساڑھے پندرہ مرلہ، یہ اب بھی باقی ہے۔

( 32 ) ۔ پونچھ ہاؤس مردان میں 15 کنال کشمیر سٹیٹ پراپرٹی KAD کے زیر لیٹر نمبر K۔ 81 ( 14 ) 53 (K) مورخہ 15۔ 11۔ 1965 کو ڈاکٹر امیر محمد خان کو فروخت کردی گئی، یوں اب خیبر پختون خواہ میں کشمیر سٹیٹ کی کوئی پراپرٹی موجود نہیں ہے۔

اسی طرح کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی زرعی اراضی کے ریکارڈ کے مطابق، ( 33 ) ۔ گاؤں سلطان پور لاہور میں 111 ایکڑ اراضی تھی جس میں سے 234 کنال 14 مرلہ لیٹر نمبر K۔ 6 ( 8 ) / 60 (K۔ 1 ) مورخہ 14۔ 2۔ 1962 کے ذریعے 1091 کنال بی آر بی نہر اور ریلوے لائن کے لئے ایکوائر کی گئی، اب اس میں سے 12 ایکڑ 1 کنال 12 میٹر باقی ہے۔

( 34 ) ۔ ضلع شیخوپورہ گاؤں پوراب تحصیل فیروز والا میں 1259 ایکڑ اراضی میں سے 353 ایکڑ 9 مرلہ زیر لیٹر نمبر KP۔ 3 / 1 / 75 مورخہ 10۔ 8۔ 1981 فروخت کردی گئی۔ اوراب اس میں سے 906 ایکڑ اراضی باقی بچی ہے۔

( 35 ) ۔ گاؤں جنگھو چک شیخوپورہ میں 1056 ایکڑ اراضی موجود ہے۔ ”

اسٹیٹ پراپرٹی آرڈیننس 1961 کا مقصد متنازع ریاست جموں وکشمیر کے حتمی فیصلے تک پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں موجود کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا اچھا انتظام کرنا تھا لیکن وفاقی وزارت نے اچھا انتظام سنبھالنے کے بجائے مختلف حکومتوں نے لاوارث جائیداد کو سیاسی نوازشوں کے لئے استعمال کیا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ آزاد کشمیر کے عبوری آئین کی تیرہویں ترمیم میں ریاست کی اس جائیداد کو حکومت آزاد کشمیر کو تفویض کیا جائے گا لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ اس کے ساتھ ایڈمنسٹریٹر جموں کشمیر سٹیٹ پراپرٹی آفس کو ختم کرنے کے بعد اس کا انتظام کون سنبھالے گا یا ان جائیدادوں کو ریاست پاکستان کی جائیداد قرار دیا جائے گا یہ ابھی تک سوالیہ نشان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).