انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر: کیا کشمیری سیاسی کارکنوں کے ساتھ ’دھوکہ‘ ہوا ہے؟


محبوبہ

اگست میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد سے لے کر اب تک درجنوں بڑے سیاسی رہنماؤں اور کارکنان کو نظر بند کیا گیا ہے۔ بی بی سی کے سمیر یاسر نے جاننے کی کوشش کی کہ وادی کے سیاسی کارکنان کو کیوں لگتا ہے کہ ان کے ساتھ ’دھوکہ‘ ہوا ہے۔

فکر مند سلیم میر اپنے کمرے کی کھڑکی سے لگ کر کھڑے تھے۔ ان کی کھڑکی سے دریائے جہلم جو سرینگر کے بیچ سے گزر کر پاکستان میں جا گرتا ہے، صاف دکھائی دے رہا تھا۔

کشمیر کی سب سے پرانی سیاسی پارٹی نیشنل کانفرنس کے لیے برسوں محنت کرنے والے سلیم میر اب اپنے ہی گھر میں بے گھر محسوس کرتے ہیں۔

مسلمان اکثریتی علاقے میں 30 سال تک دلی کے خلاف مسلح بغاوت کے دوران سلیم جیسے کشمیروں کو انڈیا کی طرف داری کرنے کے لیے اپنے ہی لوگوں سے ‘غدار’ جیسے القاب سننے کی عادت ہے۔

ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کے عزیزواقارب کو انڈیا کی طرف داری کرنے کے لیے عسکریت پسندوں نے ہلاک کر دیا۔

حالیہ سالوں سے تشدد کی لپیٹ میں آنے والے ضلع کُلگام سے تعلق رکھنے والے سلیم کہتے ہیں کہ ‘اب تو ہم انڈیا کی نظر میں بھی دشمن ہیں۔’

کشمیر

یہ بھی پڑھیے

کشمیر کا مسئلہ کیا ہے؟

’کشمیری سوچ رہے ہیں کیا انڈیا سے ملنا درست تھا؟‘

انڈیا کی کشمیر پالیسی ’ایک ہندو نظریاتی پوزیشن ہے‘

محبوبہ مفتی:’پاکستان پر انڈیا کو ترجیح دینے میں غلط تھے‘

’ہمیں صرف یہ سمجھ آیا ہے کہ ہماری اب کوئی حیثیت نہیں‘

‘انڈیا کے دشمن’

اگست میں وزیراعظم نریندر مودی کی حمکران جماعت بی جے پی کی نگرانی میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر پر کریک ڈاؤن ہوا۔ بی جے پی کے مطابق متنازعہ علاقے میں بدنظمی سے بچنے کے لیے یہ اقدام ضروری تھا۔

کشمیر کی خودمختاری واپس لے لی گئی اور وفاق کے زیرِ انتظام کر کے اس کو دو یونین علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ علاقے کو لاک ڈاؤن کر دیا گیا اور ریاست کے اہم سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں بمشول انڈیا کے ساتھ وفادار رہنے والوں کو بھی نظر بند کر دیا گیا۔

انڈیا کے وزیرِ خارجہ سبریمانیئم جے شنکرکا کہنا ہے ‘ہماری کوشش ہے کہ سیاستدان ایسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیں جو تشدد کے لیے راہ ہموار کرے جیسا ماضی میں ہو چکا ہے۔‘

سلیم کا شمار ان 5000 سماجی کارکنان، کاروباری شخصیات، سول سوسائٹی ممبران اور وکلا میں ہوتا ہے جنھیں نظر بند کیا گیا۔ سابق چیف منسٹر عمر عبداللہ، فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت کئی قانون دان اب تک حراست میں ہیں۔

محبوبہ

رکنِ پارلیمان سابق چیف منسٹر عمر عبداللہ کو متنازع پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت قید کیا گیا ہے۔

پی ایس اے کے تحت کسی فرد کو باضابطہ الزامات کے باوجود دو سال تک قید میں رکھا جا سکتا ہے۔

کشمیر کا مستقبل دلی سے جوڑنے میں عمر عبداللہ کے خاندان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ نظر بندی سے قبل عمر عبداللہ ٹی وی پر آئے اور التجا کی کہ انھوں نے انڈیا کے لوگوں کا ساتھ دیا ہے اور اب لوگوں کی باری ہے کہ وہ ان کا ساتھ دیں۔

پی ڈی پی سے تعلق رکھنے والے رکنِ پارلیمان میر محمد فیاض نے وفاقی وزیرِ داخلہ سے تمام سیاسی رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

‘درمیانی راستے کا خاتمہ’

کشمیری سیاسی جماعتیں مکمل طور پر انڈیا میں ضم ہونے اور مکمل آزادی حاصل کرنے کے بیچ، ہمیشہ درمیان کے راستے پر چلتی رہی ہیں۔

انڈیا کے جمہوری عمل میں حصہ لے کر الیکشن لڑنے کا مطلب ہے کہ کشمیری سیاسی جماعتیں اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ علاقے کے معاملات پر دلی بھی اپنی رائے دے گا۔

چنانچہ کشمیر کی دو مرکزی سیاسی پارٹیاں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) سرکاری طور پر کشمیر کی خودمختاری اور وفاق میں خود حکمرانی کے حق میں ہیں۔

تاریخ دان صدیق واحد کہتے ہیں کہ دلی کی حالیہ سیاسی چال نے کشمیری سیاستدانوں کا درمیانی راستہ ختم کر دیا ہے اور یہ خلا عسکریت پسند پُر کر سکتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ لوگ اب سیاسی جماعتوں کو یہ کہیں گے کہ ‘ہمیں تو پتا تھا، ہم نے تو آپ کو پہلے ہی بتا دیا تھا۔’

کرفیو

‘بے یقینی’

کپِل کاک نامی ریٹائرڈ ایئر وائس مارشل کہتے ہیں ‘کشمیر میں روایتی سیاست کا خیال دم توڑ چکا ہے۔’

کشمیر کے رہائشی کپِل جنھوں نے یہ تنازعہ سلجھانے کے لیے کئی اقدامات میں حصہ لیا ہے کہتے ہیں کہ انڈیا نے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں 70 سالوں کی سخت محنت گنوا دی ہے۔

دھمکیوں، حملوں اور عوامی ذلت جھیلنے کے باوجود انڈیا کا ساتھ دینے والے سیاسی کارکن بالکل مایوس ہو گئے ہیں اور اپنی جان کے لیے خوف محسوس کرتے ہیں۔

ممتاز جو اب آزاد ہیں، کہتے ہیں کہ ‘ہمیں کبھی میڈیا پر یقین نہیں کرنا چاہیے تھا۔’

رحمان شیخ کے کزن پی ڈی پی کے بانی ممبر تھے اور ضلع شوپیان میں انھیں ہلاک کر دیا گیا اور ان کے گھر کو آگ لگا دی گئی۔ رحمان کہتے ہیں کہ نریندر مودی کی حکومت نے ‘میرے چھوٹے بھائی کی قربانی کی بےعزتی’ کی ہے۔

انھوں نے مزید کہا ‘وہ انڈیا جس کے لیے ہم نے اپنا خون بہایا، اس نے ہم سے ہمارے سیاسی حقوق چھین کر ہمیں بے کار بنا دیا ہے۔’

تنویر عالم کے کزن سابق قانون دان ہیں اور قید میں ہیں۔ تنویر کہتے ہیں ‘پارٹی کارکن ہمارے پاس آتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ ہمارا کیا مستقبل ہے؟ میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ میں خاموش رہتا ہوں۔’

کرفیو

‘ہم ختم ہو گئے ہیں’

ممتاز پیر نے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں اپنے والد کو ہلاک ہوتے دیکھا۔ وہ کہتے ہیں ‘اب اگر میرے دروازے پر مسلح افراد آئیں گے تو مجھے بچانے کوئی نہیں آئے گا۔’

سابق ریاستی قانون دان کے لیے کام کرنے والے ممتاز کا کہنا تھا ‘ہم ختم ہو چکے ہیں۔ ہم صرف وقت گزرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔’

ممتاز کہتے ہیں کہ اگر وادی کی اہم سیاسی شخصیات علاقے میں انڈیا کی گرفت کو مضبوط بنانے کے بجائے کشمیر کی آزادی کے لیے آواز اٹھانے میں وقت لگاتے اور محنت کرتے تو ‘لوگ آزادی حاصل کر چکے ہوتے۔’

‘ہمارا مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم کشمیری اور مسلمان ہیں۔ ہم نے کشمیر میں انڈیا کے لیے لڑائی لڑی اور بدلے میں ہمیں یہ ملا۔’

جب مزاحمت کی تحریک عروج پر تھی تو شمالی کشمیر میں سیاستدان غلام حسن راہی نے کئی انتخابات لڑے اور عسکریت پسندوں کی طرف سے دھمکیاں ملنے کے باوجود انھوں نے اپنا کام جاری رکھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اب جج وہ اپنے سیاسی کارکنوں سے ملتے ہیں تو سر جھکا لیتے ہیں۔

غلام حسن کہتے ہیں کہ حال ہی میں ایک کارکن نے ان کو بولا کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کشمیری مسلمان انڈیا کے لیے کیا کچھ کر سکتے ہیں، دلی ان پر کبھی یقین نہیں کرے گا کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔’

یہ بات سن کر غلام حسن نے سر جھکا لیا اور آگے چل دیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp