کتنے گریباں چاک ہوں گے


موسم بدلا رت گدرائی اہل جنوں بے باک ہوئے ظہیر کاشمیری کی یہ غزل تو موسم بہار کی آمد کا مضمون باندھتی ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ دس ماہ گرمی کی لپیٹ میں رہنے والے ہم لوگوں کے لیے سردیاں وہی لطف لاتی ہیں کہ جنون میں بے باک ہونے کو جی چاہتا ہے۔ اس بے باکی کے ساتھ ہوش ضروری ہے وگرنہ خواہ مخواہ جی چاہے گا کہ اس تصفیے کی حقیقت جانی جائے جس کے نتیجے میں پاکستان کو بیٹھے بٹھائے 38ارب روپے مل گئے۔ کسی کی جیب سے اتنی بڑی رقم نکلی ہے تو معاملہ ایسا سادہ تو نہیں ہو گا۔ ہم تو ویسے ہی موسموں کے اسیر ہیں۔

سیاسی اور سماجی تبدیلی کے لیے جو کر سکتے تھے کیا۔ اب بھی کر رہے ہیں، مزید کرتے رہیں گے مگر یقین کریں تبدیلی کا کوئی لال یا ہرا رنگ ٹھہرا نہیں۔ اگر کچھ تبدیل ہوا تو وہ موسم ہے۔ پہلے سردیاں طویل ہوتی تھیں اب چند ہفتوں کی تھیلی میں سمٹ گئی ہیں پھر گنے کے رس سے گڑ بننے کی مہک، وچھوڑے کی ٹھنڈی سانسیں بھرتی ہوا۔ شاخوں میں موسم بہار کا جوش بھرنے کی توانائی اور سرد رات کی پراسرار آوازوں میں گم ہو جانے کا لطف ہے جو اب ڈھونڈنے نکل پڑتا ہوں اس کو تبدیلی سمجھ کر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔ فصل بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے عشروں سے اپنے گرد کیکٹس کا جنگل دیکھ رہے ہیں۔

ان پر بہار آتی ہے تو نہ پھول کو ہاتھ لگا سکتے ہیں نہ خوشبو کے قرب کو محسوس کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنے کی ضد کریں تو کانٹے جسم کے پار اور روح کے اندر اتر جاتے ہیں۔ ہمارا سماج نوجوانوں سے بھرا ہے۔ 16سال سے لے کر 45سال کی عمر کے جوان، جن کے بازو کی مچھلیاں تڑپتی ہیں اور آنکھوں میں تیل سے بھرے چراغ ہیں۔ ان سے تقاضہ کیا گیا کہ وہ اچھے بچے بن جائیں۔ اچھے بچے یعنی ایسا کچھ نہ کریں جو بڑوں کو پسند نہ ہو۔ کیا بڑوں کی اس بات کو مان لیا جاتا تو بنی آدم نئی چیزیں تلاش کر سکتے۔ 2011ء میں عمران خان نے اقبال پارک کے وسیع و عریض سبزہ زار میں جلسہ کیا۔

پرویز رشید نے بول نکالا کہ 50 ہزار کرسیاں بھر دیں تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔ اس روز پچاس ہزار کیا لاکھوں کی تعداد میں نوجوان جمع ہو گئے۔ پرویز رشید سیاستدان بن گئے تاویل کرنے لگے، بات سے مکر گئے۔ کونسی تحریک ہے جو نوجوانوں کے بغیر چلی ہو۔ قائد اعظمؒ نے تحریک پاکستان کے دوران نوجوانوں پر بھرپور اعتماد کیا مگر جونہی آزادی ملی نوجوانوں سے کہا کہ وہ سیاسی سرگرمیاں چھوڑ کر درس گاہوں کو لوٹ جائیں۔ تحریک نظام مصطفے ہو یا تحریک ختم نبوت یہ نوجوان تھے جنہوں نے اپنے بزرگوں کی رہنمائی کی، ان کے پیر ہوئے۔

ہمارا نوجوان معاشرے کو چلانے کا تجربہ سیکھ رہا تھا۔ اس نوجوان کو ارشد امین چودھری، عابد چودھری، رئیس کالیا، اکرم گجر وغیرہ کس نے بنایا؟ ان لوگوں نے ،جو جانتے تھے کہ سماج نے اگر مہذب رویوں کو حکمران بنا لیا تو پھر جرائم پیشہ سیاست دان کہاں جائیں گے۔ بس پھر دھڑا دھڑ ایسی تنظیمیں بنیں، گروہ بنے اور لیڈر بنے جو مہذب رویوں کے دشمن تھے، بریانی کھانے والے کارکن اور پیشہ ور عورتیں سیاسی جماعتوں میں گھس گئے۔ اب ہمارے نوجوان خود کو منوانے کے لیے مکالمہ کی بجائے پرتشدد کارروائیوں پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ پچھلے ایک ماہ سے لاہور میدان جنگ بنا ہوا ہے۔

ایک طرف ڈاکٹر ہیں۔ دوسری طرف وکیل، دونوں اعلیٰ تعلیم یافتہ۔ دونوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ انسانی خدمت کے لیے ذاتی مفادات قربان کریں گے۔ اب حالت یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی بات پر بھی آپس میں سر پھٹول کرتے ہیں اور کبھی صف بندی کر کے دوسرے لشکر کو نیست و نابود کرنے پر تیار۔ ایک نوجوان کی ویڈیو دیکھی۔ پنجاب کارڈیالوجی کے باہر کھڑا رو رہا ہے۔ اس کی ماں دو دن سے کرسی پر بیٹھی ہے۔ ڈاکٹر اس ضعیفہ کے لئے بستر فراہم کرنے کی درخواست نہیں سنتے۔ دل کی شدید تکلیف مگر کوئی مسیحا اس بزرگ خاتون کی طرف دھیان نہیں دیتا۔ وہ خدا کا واسطہ دے رہا ہے۔

ایسے بہت سے سائل عدالتوں پر لگے تالے کھلنے کے بھی منتظر ہوں گے۔ جانے کیسے کیسے پریشان حال لوگ ہیں جو روٹی کھانے کی بجائے وکیل کی فیس کے لیے رقم جمع کرتے ہیں۔ کچہری آتے ہیں، کبھی ہڑتال ہو جاتی ہے کبھی دھرنا۔ ہمارا نوجوان سماج کے ساتھ نہیں جڑ سکا۔ ’’اسے پیوستہ رہ شجر سے ‘‘ کا درس تو دیا جاتا ہے مگر شجر کے ساتھ جڑنے نہیں دیا جاتا۔ وہ خاص گروہ یا حلقے کے مفادات سے اس قدر وفادار ہے کہ قومی مفادات اس کی نظر سے اوجھل ہو گئے ہیں۔

میں اسلامیہ کالج سول لائنز میں پڑھتا تھا۔ کالج کی باڈی بلڈنگ اور کبڈی ٹیم کا نمایاں کھلاڑی تھا۔ ادب سے لگائو تھا۔ ایک بار اسلامی جمعیت طلبہ کے دوستوں نے اپنے ساتھ آنے کی دعوت دی۔ میں نے مسکرا کر معذرت کر لی۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے والد میری سرگرمیوں سے تکلیف محسوس کریں۔ اباجی نے کہہ رکھا تھا محلے میں جو سیاست کرنی ہو کرو مگر کالج میں نہیں۔ اب والدین بچوں کو سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں۔ معاشرے سے ملنے نہیں دیتے۔ معاشرہ اور نوجوان ایک دوسرے کے لئے اجنبی بن گئے ہیں۔معاشرہ عفریت نہیں بلکہ یہ ویسا بن جاتا ہے جیسا ہم چاہتے ہیں۔ ہم اسے مہربان، مسیحا، منصف مزاج اور لڑکیوں کے لیے محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے بچوں کو معاشرے کی مثبت اقدار سے متعارف کرا دیں۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).