طالبان اور امریکہ کی دوحہ میں افغان مفاہمتی عمل دوبارہ شروع کرنے کی کوشش
امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد جمعرات کو قطر پہنچ رہے ہیں جہاں وہ دوحہ میں افغان طالبان سے دوبارہ مذاکرات کریں گے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بدھ کو جاری کیے گئے بیان میں امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ زلمے خلیل زاد قطر میں طالبان مذاکرات کاروں سے افغانستان میں جنگ بندی اور وہاں جاری تنازعے کے حل کے لیے اقدامات پر گفتگو دوبارہ شروع کریں گے۔
اس سے قبل خلیل زاد نے افغانستان کے دار الحکومت کابل میں افغان حکام اور دیگر سے طالبان کے ساتھ سیاسی سمجھوتے پر مذاکرات کے حوالے سے گفتگو کی جس کے بعد وہ دوحہ روانہ ہوگئے۔
یہ پیش رفت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 28 نومبر کو دورہ افغانستان اور اسی دوران دوحہ میں خلیل زاد کے ’خفیہ مذاکرات‘ کی اطلاعات کے چند دن بعد ہی سامنے آئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
طالبان مذاکراتی ٹیم میں کون کیا ہے؟
ڈونلڈ ٹرمپ: ’افغان امن مذاکرات مکمل طور پر ختم ہو چکے‘
امریکہ، طالبان امن مذاکرات منسوخ کیوں ہوئے؟
یاد رہے کہ ستمبر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ ایک سال طویل امن مذاکرات کو معطل کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’طالبان سے بات چیت مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔‘
افغانستان کے ایک میڈیا ہاؤس طلوع نیوز کی رپورٹ کے مطابق زلمے خلیل زاد کابل میں افغان رہنماؤں اور سیاستدانوں سے ملاقات اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی پر بات کرنے کے لیے آئے ہیں۔
دریں اثنا افغان صدر کے دفتر نے بھی اعلان کیا ہے کہ دونوں ممالک افغان جنگ کے ایک پرامن حل کی تلاش کی کوشش کر رہے ہیں۔
افغان صدارتی ترجمان صدیق صدیقی کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’دونوں ممالک نے ملک میں امن کے لیے ایک مشترکہ روڈمیپ پر بات چیت کی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ جنگ کے خاتمے کی ہماری مشترکہ کوششیں کامیاب ہوں گی۔‘
علاوہ ازیں امریکی محکمہ خارجہ کے بیورو برائے جنوبی و وسطی ایشیائی امور کی ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری نینسی ازو جیکسن نے بھی کابل کا دورہ کیا جہاں انھوں نے افغانستان کے چیف ایگزیٹیو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی۔
اس کے علاوہ چند ہفتے قبل قیدیوں کے تبادلے میں رہا ہونے والے طالبان سے ملحق حقانی نیٹ ورک کے رہنما انس حقانی نے اپنے علیحدہ بیان میں کہا ہے کہ وہ امن عمل میں سہولت کاری کے لیے محنت کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر خدا نے چاہا تو میں مشکلات سے دوچار افغان قوم میں امن لانے کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں استعمال کروں گا۔‘
مذاکرات کی منسوخی
تقریباً ایک سال تک افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد افغان امن عمل اس وقت کھٹائی میں پڑ گیا جب رواں سال ستمبر کے اوائل میں کابل میں طالبان کے حملے میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہ مانا جا رہا تھا کہ امریکہ اور افغان طالبان افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے ہونے والے معاہدے کے بظاہر بالکل قریب آ چکے تھے۔
کابل میں ہونے والے حملے کے بعد آٹھ ستمبر کو امریکی صدر نے اپنی ٹویٹس کے ذریعے طالبان سے مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
انھوں نے اس موقع پر انکشاف کیا تھا کہ وہ طالبان رہنماؤں سے امریکی صدر کے کیمپ آفس کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کرنے والے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری میٹنگ (کیمپ ڈیوڈ میں طالبان رہنماؤں سے ہونے والی خفیہ ملاقات) طے شدہ تھی۔ میٹنگ بلانے کا آئیڈیا بھی میرا تھا اور اس کو منسوخ کرنے کا بھی۔ یہاں تک میں نے کسی اور سے اس پر تبادلہ خیال نہیں کیا تھا۔‘
صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’میں نے کیمپ ڈیوڈ میٹنگ کو اس بنیاد پر منسوخ کر دیا کیونکہ انھوں (طالبان) نے کچھ ایسا کیا تھا جو انھیں بالکل نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘
یہ بھی پڑھیے
طالبان سے رہائی پانے والے ٹموتھی کو طالبان سے نفرت کیوں نہیں؟
بھارتی مغویوں کے بدلے افغان طالبان کمانڈروں کی رہائی
افغانستان سے ہمارا انخلا مشروط ہوگا: زلمے خلیل زاد
بی بی سی کے نامہ نگار خدائے نور ناصر کے مطابق امریکی صدر کے بیان کے رد عمل میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ وہ امریکہ کی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ سنیچر تک امن معاہدے کے باضابطہ اعلان کے لیے تیاریوں میں مصروف تھے جبکہ 23 ستمبر کو بین الافغان مذاکرات کا پہلا دن مقرر کیا تھا۔
انھوں نے اپنے بیان میں مزید کہا تھا کہ ’اب جب امریکی صدر نے اسلامی امارت کے ساتھ مذاکرات کی منسوخی کا اعلان کیا ہے، تو اس کا سب سے زیادہ نقصان خود امریکہ کو ہو گا، اُن کے اعتبار کو نقصان ہو گا، اُن کا امن مخالف مؤقف دنیا کو نظر آئے گا اور اُن کی جان اور مال کا نقصان زیادہ ہوگا۔‘
انس حقانی کی رہائی
لیکن نومبر کے وسط میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان برف اس وقت پگھلتی ہوئی نظر آئی جب طالبان نے اپنی قید میں موجود کابل یونیورسٹی کے ایک امریکی پروفیسر کیون کنگ اور آسٹریلوی پروفیسر ٹموتھی ویکس کو رہا کیا جبکہ افغان حکومت نے اس کے بدلے میں حقانی نیٹ ورک کے رہنما انس حقانی کو رہا کیا تھا۔
اس کے چند دن بعد 21 نومبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کو ٹیلی فون کیا جس میں انھوں نے افغانستان میں طالبان سے دو غیرملکی مغویوں کی رہائی میں سہولت کاری کے لیے شکریہ ادا کیا تھا۔
- امریکی محکمہ خارجہ کی سالانہ رپورٹ میں عمران خان اور ان کی جماعت کے بارے میں کیا کہا گیا اور کیا یہ پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتا ہے؟ - 25/04/2024
- چڑیا گھر میں سات سال تک نر سمجھا جانے والا دریائی گھوڑا مادہ نکلی - 25/04/2024
- امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ 61 ارب ڈالر کی عسکری امداد یوکرین کو روس کے خلاف کیسے فائدہ پہنچائے گی؟ - 25/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).