ہماری یادوں کا کمرہ


فلسفہ و دانش، عمرانیات، معاشیات، فلکیات، طبیعات اور بالعموم وہ تمام علوم جن کا اختتام ”ت“ پر ہوتا ہے، ان سب کا اور ہماری گفتگو کا آپس میں اتنا ہی تعلق ہے جتنا مینار پاکستان کا ایفل ٹاور سے بلکہ اگر ہم یہ کہیں کہ ان دو کے بیچ فاصلہ بھی اتنا ہی حائل ہے تو کچھ غلط نا ہو گا۔ اگر خدانخواستہ کبھی ہم سے بہت دانشمندانہ گفتگو سرزد ہو جائے تو ناصرف اپنے کانوں پر یقین نہیں آتا بلکہ دنوں اترائے اترائے سے پھرتے ہیں۔ کئی دفعہ فلسفہ پڑھنے اور دوستوں کی تجویز کردہ ویڈیوز دیکھنے کی کوشش کی اور ہمیں یقین ہے کہ اگر ہر دفعہ پانچ منٹ کے اندر اندر سو نا جاتے تو آج دنیا ایک اور عظیم فلسفی سے روشناس ہوچکی ہوتی۔

ہماری عام سی زندگی اور اس کی عام سی خوشیاں۔ عام سی باتیں اور عام سے دن اور رات، اور ان دن اور رات کا سب سے قیمتی وقت وہ، جب ہم اپنے بچوں کے ساتھ ہوں۔ ان کی سنیں، انہیں اپنی سنائیں۔ ایسے ہی وقت میں ہنستے ہنساتے باتیں کرتے ہمیں اپنی زندگی کی بڑی اہم سیکھ ملی جب ہمارے صاحبزادے نے فرمایا کہ ”آپ کو یاد ہے اتنے ہفتے پہلے فلانے فلانے دن آپ نے ہمیں ایک زوردار تھپڑ لگایا تھا، اور وہ تھپڑ ہمیں ابھی تک یاد ہے“۔

ہم تو دنگ ہی رہ گئے! جہاں ایک طرف بیٹے کی شاندار یادداشت پر عش عش کر اٹھے، وہیں اس ”یاد“ کی کوالٹی نے ہمیں بھنویں اچکانے پر مجبور کر دیا۔

ہم نے بیٹے سے پوچھا کہ بھلا ان سارے پچھلے ہفتوں اور دنوں میں ہم نے جو تمہارا بے انتہا پیار سے خیال رکھا اس میں سے بھی کچھ یاد ہے کہ نہیں؟

مگر نہیں جی، صاحبزادے نے تو ہر بات اگنور کر کے اس تھپڑ اور اس جیسے دوسرے واقعات کو یاد کرنے، ان کا سوگ منانے، ہمیں ایک ظالم ماں ثابت کرنے اور شرمندہ کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔

ہم نے تحمل سے بیٹے کا گریہ اور اپنے ظلم کی داستانیں سنیں پھر بہت پیار سے کہا کہ تم سے ایک بات پوچھنی ہے۔ بھلا، یہ تو بتاؤ کہ یہ جو تمہارا کمرہ ہے، جہاں تم دن کا بیشتر وقت گزارتے ہو، تم کیا چاہو گے؟ ایک صاف ستھرا تمہاری پسند کے آرام اور سکون کے سامان سے آراستہ، چمکتا دمکتا کمرہ، یا پھر گندا، دھول مٹی سے اٹا، بیکار چیزوں سے بھرا تعفن ذدہ کمرہ؟

صاحبزادے نے کہا، بے شک مجھے صاف ستھرا اور خوشبودار کمرہ پسند ہو گا۔

ہم نے کہا کہ بیٹا تمہارا دل تمہارا دماغ بھی تو تمہارا کمرہ ہی ہے، اب یہ تم پر ہے کہ تم اسے اچھی باتوں سے سجاؤ، اچھی یادوں سے آراستہ کرو، اچھے خیالات کی خوشبو سے مہکاؤ، خوش رہو اور زندگی میں مثبت رویہ اپناؤ یا پھر تکلیف دہ باتیں، واقعات اور حادثات کو اس کمرے کا بڑا حصہ دے کر افسردہ رہو۔ صاحبزادے خاموش ہو گئے یا شاید کچھ کچھ متفق بھی۔

اس دن بڑا عقلمند بن کر بیٹے کو نصیحت تو کر دی مگر جب اسی رات ہم نے اپنی یادوں کے کمرے کا دورہ کیا تو کیا کچھ کاٹھ کباڑ نظر نا آیا۔ دیکھا تو بچپن کے حادثات و واقعات نا صرف کنڈلی مارے بیٹھے تھے بلکہ کچھ تو اتنے بدنما اور دیواروں پر ایسے نقش تھے جیسے چاقو سے کھرچ کر بنائے ہوں۔ جا بجا کتنے ہی خاندانی گلے شکوے بکھرے تھے۔ دوستوں کی زیادتیاں جالوں کی شکل میں چھت سے لٹکی ملیں۔ بہت سے لوگوں سے بہت سی خودساختہ شکایتوں کی دھول سے کمرہ اٹا ہوا۔

اور تو اور دوسروں کے دیے طعنے تشنیع سنبھال کر بدنما پتھروں کی شکل میں بھر رکھے تھے جن کو وقتا فوقتا واپس انہیں پر برسانے کا ارادہ تھا۔ اپنے اور بیگانوں کی سب زیادتیاں اور انہیں معاف نا کرنے کا عہد کمرے میں سوگواری کی طرح پھیلا تھا۔ اور اس سب کے ہوتے زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں، اپنوں کا پیار، سب کچھ دھندلا سا گیا تھا۔

شرمندگی، تاسف اور افسردگی نے آن گھیرا۔ سوچا یہ کیا؟ دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فصیحت! کیوں کر دی اتنی دیر؟ کیوں نا پہلے کبھی خیال آیا؟ پھر اپنے آپ کو تسلی دی کہ چلو دیر آید درست آید۔ کچھ کچھ ندامت کے ساتھ صفائی پر کمر باندھی۔

اب جٹے ہوئے ہیں۔ بھلانے میں، درگزر کرنے میں، معاف کرنے میں۔ مگر کچھ تو ازلی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے رفتار سست ہے۔ کچھ بھولے بسرے درد ہیں، جن کی وجہ سے آنکھیں نم ہیں۔ مگر خوشی ہے کہ بہت کچھ صاف ہو گیا۔ کچھ تو شکل نکلی، ناصرف اپنا آپ ہلکا محسوس ہوا بلکہ اس ملبے تلے جو اچھی یادیں دب سی گئی تھیں ان کی روشنی، چمک اور خوشبو نے کمرہ مہکا سا دیا۔

ڈاکٹر عظمیٰ قدرت
Latest posts by ڈاکٹر عظمیٰ قدرت (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).