گلیشیر پگھلانے والی ترقی


حال ہی میں گلگت بلتستان سے خبر آئی ہے کہ ایک گلیشیر نیچے سرک گیا اور اس نے دریا بند کر کے ایک جھیل بنا دیا۔ یہ کوئی نئی بات ہے نہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ دنیا کے گلیشیر بڑی تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ یہ گلیشیر ہی ہیں جن سے میٹھا پانی پگھل کر دریاؤں میں آتا ہے اور یوں دریا رواں ہوتے ہیں۔ دریاؤں کی مستقل روانی اسی لئے رہتی ہے کہ گلیشیر پر برف ہمیشہ جمی رہتی ہے اور ہلکے ہلکے پگھلتی جاتی ہے۔ مگر اب فطرت کا یہ پورا نظام الٹی گنتی گن کر تباہی کی طرف بڑی تیزی سے گامزن ہے۔

پاکستان کے گلیشیر ہی اتنی تیزی سے پگھل رہے ہیں کہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ بمشکل 40، 50 سال میں سارے ہی گلیشیر پگھل جائیں گے۔ چلئے آپ اس دعوے کو مبالغہ آمیز کہہ لیں اور اس وقت کو بڑھا کر 80 یا 100 سال کہہ لیں مگر سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ جب سارے گلیشیر پگھل جائیں گے اس کے بعد زندگی کی صورت کیا ہو گی؟ سطح سمندر بلند ہو کر کتنی ہی شہروں کو سمندر کے اندر لے جائے گی۔ سرد علاقے گرم ہو جائیں گے، پھر کیا ہو گا؟ انسان اور دیگر جاندار کیا بن جائیں گے؟ زندگی کی کیا صورت ہو گی؟ ان تمام سوالات کے جوابات کسی کے پاس نہیں۔ یہ طے ہے بہرحال کہ گلیشیر کے پگھل جانے کے بعد زندگی شاید صرف آبی حیات یا پھر کسی حد تک ان پرندوں کی رہ جائے جو آبی حیات کو کھاتے ہیں۔ انسان مع باقی زمینی مخلوقات دنیا سے رخصت ہو۔

چلئے قصہ ہی پاک ہو گا۔ ہم مسلم تو روز قیامت پر ایمان رکھتے ہی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ اسی تباہی کی ہی ابتداء کا ایک مظہر ہو مگر اس پوری صورت حال میں غور طلب بات یہ ہے کہ یہ تباہی انسان کی ترقی کی ہوس نے پیدا کی ہے۔ انسان کی تمام ہی ایجادات ایک طرف مقناطیسی شعاعیں خارج کرتی ہیں تو دوسری طرف گیس اورفضلہ پیدا کرتی ہیں جو ماحول کو تباہ بھی کرتی ہیں اور ساتھ ہی درجہ حرارت بھی بڑھاتی ہیں۔

اوزون (O 3 ) کی سطح جس طرح شگاف کا شکار ہوئی ہے وہ تو سب جانتے ہی ہیں اور اس پر ماتم بھی کرتے ہیں مگر کوئی اس کی وجہ، یعنی صنعتیں اور دیگر ایجادات پر قابو پانا تو دور کی بات ان کو حقیقت میں ماحول درست بنانے پر بھی تیار نہیں۔

گلوبل وارمنگ پر مغرب میں بہت شور ہے مگر یہ آگ دراصل مغرب نے ہی دنیا میں لگائی ہے۔ آج مغرب اس پر واویلا کر رہا ہے مگر ساری دنیا کو اندھی ترقی کی لائن پر لگا کر اب اس سے ہٹانا کس کے بس میں ہے؟

غور کیجئے کہ CPEC کے سلسلے میں بننے والی سڑکوں اور دیگر مواصلاتی ذرائع پر اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ دنیا کے بلند ترین علاقے سے اتنی بہت سے گاڑیاں، ٹرینیں وغیرہ گزریں گی، ان سے حرارت اور دھواں نکلے گا۔ پھر ان بلند ترین علاقوں میں آبادی بڑھے گی (یعنی لوگ کام کرنے آئیں گے اور وہیں رہیں گے ) تو اس ساری صورت حال سے ان بلند ترین مقامات کو ماحولیاتی فائدہ ہو گا یا نقصان؟ ظاہر ہے نقصان۔ اور یہ نقصان تو بڑی تیزی سے شروع بھی ہو چکا، اس اعتراض پر کتنی لعنت اور نفرین بھیجی جائے گی۔

اس ترقی کے زینے کو ماحولیاتی تباہی کی وجہ کہنے والے کو پاکستان کا دشمن، ترقی کا دشمن قرار دیا جائے گا۔ کوئی ترقی کے خلاف ایک لفظ سننے پر تیار نہیں، ترقی اب ہر کسی کے ایمان کا حصہ ہے اور ترقی کی اس دور پر اعتراض کرنے والے اب دنیا میں مرتد کا درجہ رکھتے ہیں۔ جس کے پاس ترقی جس قدر کم ہے وہ اتنا ہی اس کا بھوکا ہے، جو جتنا بھوکا ہے وہ اسی طرح اس کے لئے دوڑ رہا ہے۔ اس دوڑ میں گلیشیر پگھل رہے ہیں۔ دریا آلودہ ہو رہے ہیں۔

زمین تباہ ہو رہی ہے۔ آسمانوں سے تیزاب کی بارش ہو رہی ہے۔ اس دوڑ میں انسان اور انسانیت کا اجتماعی مستقبل معدوم ہو رہا ہے مگر پھر بھی اس پر سوال اٹھانا منع ہے۔ ترقی اب سب سے بڑا Taboo ہے، کون ہے جو اس پہاڑ کو سرکا سکے؟ ہاں رہ گئی گلیشیرز کی بات تو ان بیچاروں کی کیا بساط ہے، ترقی کی دیوی کے سامنے ان کا پگھل جانا ہی اب مقدر ہوا ہے۔ اس مقدر کو کون بدل سکتا ہے؟ کون اس پر سوال اٹھا سکتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).