طلبہ یونین اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مفادات


یہ بات سو فیصد درست ہے کہ تحریک پاکستان میں طلبہ یونینز نے مثالی کردار ادا کیا تاہم اس وقت کے حالات کے پیش نظر، الگ ملک کے حصول کے لئے ایک پُرجوش اور مضبوط تنظیم کی ضرورت تھی، جو نوجوانوں کی ذہن سازی کے لئے جلسے و جلوسوں کا انتظام کرے، بہرحال اللہ کے ساتھ سے یہ امر کامیاب ہوا اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔ فی زمانہ ہم نے کوئی نیا وطن حاصل نہیں کرنا بلکہ اپنے ملک کو ترقی، شادمانی و خوشحالی سے ہمکنار کرنا ہے۔ ظاہر ہے اس کے لئے بہترین تعلیم و تربیت سے مزین ہونے کی ضرورت ہے، جلسے یا جلوسوں کی نہیں۔

آج کل لال لال کے نعروں کا غل پبا ہے جیسے وہ شخصیات سپورٹ کر رہی ہیں جو پہلے متنازعہ ثابت ہوچکی ہیں، کچھ ایسے صحافی و قلم کار بھی ان لال لال کے نعروں میں سرخ ہورہے ہیں جن کے متعلق پہلے سے سوالیہ نشان موجود ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے سبز ہلالی وادی کو لال لال کرنے پر تولے ہوئے یہ جذباتی نوجوان طلبہ یونین بحالی کے لئے ریاستی اداروں سے اظہار نفرت کرتے نظر آتے ہیں جبکہ طلبہ یونین کے افکار میں نفرت انگیزی یا اشتعال نہیں بلکہ تعلیم کی طالب ہوتی ہے،

آئیں سب سے پہلے ترقی یافتہ ممالک میں بننے والی طلبہ یونین پر نظر ڈالتے ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں کوئی بھی طلبہ یونین سیاسی یا مذہبی رجحانات پر متحرک نہیں ہے۔ اگرچہ 1935 ء میں امریکا میں طلبہ پر مشتمل بائیں بازو کی ایک امریکن اسٹوڈنٹ یونین ASU بنائی گئی۔ یونین نے فوجی جارحیت کے خلاف بھرپور احتجاج بھی کیے، بعدازاں 1939 ء میں اس گروپ کی پُرتشدد سرگرمیوں کے خلاف تحقیقات کی گئیں اور 1941 ء میں اسے ختم کر دیا گیا۔ اب امریکا میں اسٹوڈنٹ گورنمنٹ اور اسٹوڈنٹ سینیٹ کے نام سے طلبہ یونینز کام کر رہی ہیں، جن کے قیام کا مقصد طلبہ کو رہنمائی اور سہولیات کی فراہمی ممکن بنانا ہے۔ ان یونینز کے تحت طالب علموں کے لئے دفاتر قائم اور ہم نصابی سرگرمیاں منعقد کروائی جاتی ہیں۔

برطانیہ میں طلبہ یونین کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ 1883 ء میں پہلی طلبہ یونین یونیورسٹی کالج لندن یونین کے نام سے بنائی گئی۔ اب وہاں طلبہ کی نمائندہ متعدد یونینز اور کونسلز موجود ہیں جن کی اکثریت نیشنل یونین آف سٹوڈنٹس سے الحاق شدہ ہے۔ یہ یونینز طلبہ کو احتجاج اور دھرنوں میں استعمال نہیں کرتیں بلکہ طلبہ کو نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں معاونت فراہم کرتی ہیں۔

چین میں طلبہ تنظیموں کو اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشنز کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، جو متعلقہ ادارے کی پالیسی کے مطابق مختلف پروگرامز میں طلبہ کی طرف سے کردار ادا کرتی ہیں۔ چین کی طلبہ تنظیموں میں شمولیت ہر طالب علم کے لئے نہیں بلکہ ممبرشپ کے لئے طالب علم کا باقاعدہ ریکارڈ چیک کیا جاتا ہے، جس میں اس کی تعلیمی قابلیت اور ادارہ میں حاضری کو سامنے رکھا جاتا ہے۔

آسٹریلیا کی تمام جامعات میں ایک یا ایک سے زیادہ طلبہ آرگنائزیشنز ہیں، لیکن قومی سطح پر نیشنل یونین آف اسٹوڈنٹس آف آسٹریلیا تمام یونین کی نمائندگی کرتی ہے۔ اسٹوڈنٹ یونینز کا مقصد طلبہ کو کیمپس نیوز پیپر، آرٹس، اسپورٹس جیسے شعبہ جات میں معاونت فراہم کرنا ہے۔

ملائیشیا میں طلبہ یونین کی اکثریت ایم پی پی یعنی

Majlis Perwakilan Pelaja

کے تحت کام کرتی ہیں۔ ایم پی پی کے نمائندوں کا انتخاب ہر سال ستمبر کے مہینے میں الیکشن سے کیا جاتا ہے، اس الیکشن میں ووٹر ٹرن آؤٹ 70 سے 95 فیصد تک رہتا ہے۔ وزارت ہائیر ایجوکیشن ملائیشیا ہر سال ایم پی پی کے نمائندگان سے باقاعدہ میٹنگ کرتی ہے، جس میں طلبہ کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ مختلف نصابی و ہم نصابی پروگرامز کو ترتیب دیا جاتا ہے۔

جاپان، فرانس، جرمنی، اٹلی، سویڈن، برازیل، میکسیکو جیسے ممالک میں طلبہ یونینز موجود ہیں، ان کے قیام کا مقصد طلبہ کو کسی خاص سیاسی یا مذہبی جماعتوں کے جھنڈے تلے نہیں بلکہ مختلف شعبہ زندگی کو مدنظر رکھ کر نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھنا ہے۔

اس کے برعکس پاکستان میں طلبہ یونین یا تنظیمیں دہشتگردی، غنڈہ گری اور بھتہ خوری کا گروہ سمجھی جاتی ہیں کیونکہ ان کا ٹریک ریکارڈ خاصا بھیانک ہے۔ جس کے پیش نظر کسی جمہوری حکومت تک نے طلبہ یونین پرعائد پابندی میں نرمی نہیں برتی، آج مسلم لیگ نون کی مریم اورنگ زیب اور پیپلزپارٹی کی نفیسہ شاہ نیوز چینل پر بیٹھ کر جس طرح طلبہ یونین کا دفاع کر رہی ہیں شاید انہیں یہ یاد نہیں کہ ان کی جماعتیں وفاق پر براجمان رہی ہیں، اس وقت طلبہ یونین سے ہمدردی کہاں تھی؟ تب طالبہ یونین کو بحال کرنے میں کیا قباحت تھی؟

اگرچہ سندھ کی حکمران جماعت نے لاہور سے اٹھنے والے طلبہ یونین کی بحالی کے شور پر صوبہ سندھ میں طلبہ یونین کی بحالی کا حکم جاری کیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ حکم کتنا حقیقی ہے کیونکہ ایسے دعوی سابق وزیراعظم یوسف گیلانی بھی کرچکے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے، آخر کیوں پاکستان میں طلبہ یونین پر پابندی عائد ہے۔ آئیے پس منظر پر نظر ڈالتے ہیں۔

کراچی سے تعلق ہونے کی بیناد پر سب سے پہلے کراچی یونیورسٹی اور طلبہ یونین کا ذکر کرنا چاہونگی۔

ساٹھ کی دہائی میں جنرل ایوب خان کی حکومت کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں میں جامعہ کراچی نے اہم کردار ادا کیا۔ ان دنوں بائیں بازو کے طلبہ کی نمائندہ جماعت نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن (این ایس ایف) ہوا کرتی تھی۔ ان دنوں این ایس ایف ہی سب سے مقبول طلبہ تنظیم تھی۔ جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک میں اسی تنظیم نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔

ستر اور اسی کی دہائی میں جامعہ کراچی دائیں بازو کے اسلام پسندوں اور بائیں بازو کے ترقی پسندوں کے درمیان تناؤ کا مرکز رہی۔

1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل ضیاءالحق نے ملک پر آمریت مسلط کر دی۔ اس زمانے میں جماعت اسلامی نے خود کو ضیاء الحق کے ساتھ ملایا اور عام خیال کے مطابق اس کی طلباء تنظیم اسلامی جمیعت طلباء وہ پہلی طلباء تنظیم تھی جس نے خود کو جدید ہتھیاروں سے لیس کیا۔ اس کے بعد ترقی پسند طلباء تنظیموں نے بھی خود کو جدید ہتھیاروں سے لیس کیا۔

1978 میں جامعہ کراچی میں ہی اے پی ایم ایس او کا قیام عمل میں آیا۔ اس وقت اس کے زیادہ تر أران لبرل اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے تعلق رکھتے تھے۔ انیس سو اکاسی میں اے پی ایم ایس او یونائیٹڈ اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہو گئی جو جنرل ضیاءالحق کے خلاف بنایاگیا تھا۔

1989 سے 1983 کے دوران دائیں اور بائیں بازو کے درمیان کئی خونریز جھڑپیں ہوئیں اوردونوں افغان پناہ گزینوں سے ہتھیار خریدتے رہے۔

اسی کی دہائی میں جامعہ کراچی نے سرکاری سر پرستی میں اسلامی جمیعت طلباء کا دبدبہ دیکھا اور اسی دوران اس جماعت میں آمرانہ مزاج بھی سرایت کرگیا۔ یہ طلبہ یونین کے نام پر قائم مذہبی جماعت کی سپورٹر تنظیم اپنے مدمقابل کسی اور کو برداشت نہیں کیا کرتی تھی۔

1983 میں اسلامی جمیعت طلباء کراچی یونیورسٹی کے انتخابات میں کامیاب ہوئی۔ جس کے بعد ضیاء الحق کی حکومت نے 1984 میں تشدد کے بڑھتے ہوئی واقعات کو وجہ بنا کر طلباء سیاست اور یونینز پر پابندی عائد کر دی۔ مگر جامعہ کراچی میں تشدد کا سلسلہ نہ رکا۔ ملک کے بدلتے ہوئے حالات اور سیاست پر پہرے کی وجہ سے پورے ملک کی جامعات ہی مسائل کا شکار رہیں۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد جونیجو حکومت کے دور میں بھی طلباء سیاست پر پابندی رہی جس کی وجہ سے یونین کے انتخابات نہ ہوئے اور جامعہ کراچی میں اسلامی جمیعت طلباء اوور دیگر تنظیموں کے جھگڑے چلتے رہے۔ 1988 میں بے نظیر حکومت قائم ہونے کے بعد طلباء تنظیموں پر سے پابندی ہٹا لی گئی اور جامعہ کراچی میں اے پی ایم ایس او اور پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے عروج کا دور شروع ہوا۔

اس دوران اے پی ایم ایس او اور پی ایس ایف میں جھگڑے شروع ہوگئے جن میں بتدریج شدت آتی چلی گئی۔ 1990 کے اوائل تک دونوں تنظیمیں جدید ترین اسلحے سے لیس ہو چکی تھیں۔ اسی سال جامعہ کی تاریخ کا سب سے ہولناک واقعہ رونما ہوا جب پی ایس ایف اور اے پی ایم ایس او کا مابین ایک خونریز جھڑپ میں پی ایس ایف کے تین کارکنوں کو بے دردی سے ہلاک کر دیا گیا۔ 1993 کے اوائل میں نواز شریف حکومت نے طلباء سیاست اور یونینز پر پھر پابندی عائد کردی۔

1993 ہی میں پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر حکومت بنائی مگر اس بار بے نظیر بھٹو نے طلبہ تنظیموں پر سے پابندی نہیں اٹھائی۔ جیسے کہ مذکورہ بالا بھی ذکر ہوچکا ہے کہ 2013 کے عام انتخابات کے بعد سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے طلبہ یونین پر سے پابندی ہٹانے کی محض بات تو کی تاہم عمل درآمد نہیں کیا، 1988 بعد سے تاحال جامعہ کراچی کی سیاسی فضاء میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔

اندورن سندھ کے تعلیمی اداروں میں بھی طلبہ یونین کے حوالے سے خاصا طوفان بدتمیزی رونما رہا ہے۔ جئے سندھ اور پیپلزپارٹی نے طلبہ یونین کے لبادے میں تعلیمی ماحول کو متاثر کیا اور نقل کلچر کو فروغ دے کر تعلیم کا بیڑا غرق کیا جبکہ قتل و غارتگری، اغوا برائے تاوان، غنڈہ گردی، بھتہ خوری سمیت دیگر مافیا کے نیٹ ورک کو بھی تقویت دی۔

صوبہ پنجاب کی درسگاہوں میں مذہبی جماعتوں نے اسلامی جمعیت طلبہ اور جمعیت طلبا اسلام نے مذہب کاڈر کھیلتے ہوئے نوجوانوں کو دہشتگردی کی جانب مائل کیا، کہا جاتا ہے ستر کی دہائی میں صوبہ پنجاب میں باقاعدہ اسلحے کے اسٹالز لگا کرتے تھے، اسلحے کی کھلی نمائش جاری رہتی تھی جبکہ روکنے ٹوکنے کی کسی کی ہمت نہیں تھی کیونکہ اسلامی جمعیت طلبہ اور جمعیت طلبہ اسلام کے علاوہ پیپلز اسٹوڈنٹ فیڈریشن اور مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن سے نہ صرف طالب علم بلکہ اساتذہ بھی خوفزدہ رہتے تھے، کیونکہ ان اسٹوڈنٹ ونگز کی وجہ سے تعلیمی مراکز میدان جنگ کا منظر پیش کیا کرتے تھے۔

صوبہ بلوچستان کے کالجز اور جامعات کو سردارنہ نظام نے مفلوج کر رکھا تھا، سردار مینگل اور اکبر بگٹی کی دھک نے تعلیمی نظام کو بھی درہم برہم کیا ہوا تھا۔ یہ عناصر طلبہ یونین کے ذریعے سے تدریسی عمل میں روکاٹ کا باعث رہتے تھے۔

خیبر پختون خواہ میں بھی اسی طرح کی صورتحال رہی اسلامی جمعیت طلبہ اور جمعیت طلبا اسلام نے مذہب کاڈر کے سلسلوں کے ساتھ پشتون اور پختون اسٹوڈنٹ ونگز نے طلبہ یونین میں مداخلت کرکے درسگاہوں کو سیاسی اکھڑا بنائے رکھا جس نے تعلیمی معیار کو بری طرح متاثر کیا۔

ان وجوہات کے تحت طلبہ یونین پر پابندی عائد کی گئی تاکہ طالب علموں کا مکمل دھیان پڑھائی پر رہے تاہم آئین کی شق کو مدنظر رکھ کر طلبہ تنظیموں پر کسی قسم کی قدغن نہیں لگائی گئی جس سے یہ صورتحال واضح ہوتی ہے کہ اگر کسی نوجوان کا رجحان تعلیم کے ساتھ ساتھ ساست اور مذہب کی جانب بھی ہیں تو وہ اپنی تشفی کرسکتا ہے مگر طلبہ یونین کا سہارا لے کر تعلیمی درسگاہوں کا ماحول خراب کرنے کی کسی طور بھی اجازت دینا ممکن نہیں ہے۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان طلبہ یونین کی بحالی کے خواہاں ہیں مگر پس منظر سے بھی آگاہ ہیں۔

یہ سچ ہے کہ طلبہ یونین کی بحالی سے ملک میں سیاسی شعور بیدار ہوگا مگر خان صاحب کی حکومت کو اس قسم کی ٹرم اینڈ کنڈیشنز مرتب کرنی پڑے گئیں جس کا فائدہ کسی سیاسی یا مذہبی گروہ کو نہیں بلکہ طالب علموں کو ہو، جس کا فائدہ ہرگز بھی فیفتھ جنریشن وار فئیر کے نظریات کو نہ ہو، کالجز اور جامعات میں طلبہ تنظیمیں بہت متحرک ہیں، وہ اپنے مقاصد کے حصول کے طلبہ یونین کی بحالی کی منتظر ہیں جبکہ لال لال کے نعروں کے پیچھے کون سی شخصیات اور سوچ ہے یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).