ڈاکٹر عارف علوی کی نجی ٹی وی چینل کے پروگرام پر تنقید: ’حضور جاگ جائیں، آپ صدرِ پاکستان ہیں‘


عارف علوی

پاکستان کے سابق صدر ممنون حسین نے اپنے دورِ صدارت میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پہلے بدعنوان لوگوں کو رشتہ نہیں ملتا تھا۔ بدعنوان لوگوں کو خدا کا خوف کرنا چاہیے ایسے لوگ اللہ کی پکڑ میں آ جاتے ہیں۔‘

صدر ممنون کے دورِ صدارت میں عوام کی جانب سے ان کے خلاف سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی میمز بھی سب کو یاد ہوں گی جن کا مقصد صرف اور صرف ان کے عہدے کے ’بے اختیار‘ ہونے پر مزاح کرنا ہوتا تھا۔

بدعنوان عناصر کے خلاف دیے گئے بیان کے بعد بھی سوشل میڈیا پر نہ صرف میمز بنی بلکہ صارفین نے مطالبہ کیا کہ بدعنوانوں کا معاملہ اللہ کے سپرد کرنے کے بجائے صدرِ پاکستان کو سخت ایکشن لینا چاہیے۔

اسی نوعیت کا معاملہ حال ہی میں موجودہ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کے ساتھ پیش آیا۔

یہ بھی پڑھیے

ڈینٹسٹ سے صدر پاکستان کا سفر

ڈاکٹر عارف علوی پاکستان کے 13ویں صدر منتخب

صدرِ پاکستان کا خطاب اور حزبِ اختلاف کے احتجاج کی گونج

بدھ کی صج صدرِ پاکستان ڈاکٹر علوی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر کا سہارا لیتے ہوئے پاکستان کے ایک نجی ٹیلیویژن چینل پر چلائے گئے پروگرام پر تنقید کی جس میں ایک اینکر جنسی زیادتی کے شکار ایک بچے کا انٹرویو ایک عوامی ہجوم کے سامنے کر رہا تھا۔

صدر پاکستان نے سوال کیا کہ کیا انھیں اس کی بالکل پروا نہیں ہے کہ اس پھول سے بچے پر اس اقدام کے کیسے معاشرتی اور نفسیاتی اثرات مرتب ہوں گے؟

اپنی دوسری ٹویٹ میں ڈاکٹر علوی نے یہ شکایت بھی کی کہ اس پروگرام کے حوالے سے انھوں نے چیئرمین پیمرا سے بات بھی کی تھی مگر اس کے باوجود وہ پروگرام صبح کے اوقات میں دوبارہ نشر کیا گیا۔

https://twitter.com/ArifAlvi/status/1202106018521632768?s=20

‘اس کے خلاف قوانین ضرور موجود ہوں گے، اُن پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا جاتا ہے؟ ایسا دنیا میں کہیں اور نہیں ہو سکتا۔ یہ بہت تکلیف دہ ہے۔’

اس نازک مسئلے پر ان کی دو ٹویٹس کی عوامی حلقوں میں کافی پذیرائی ہوئی اور پاکستان میں پیمرا کے اس حوالے سے کردار اور روک ٹوک پر بھی بات ہوئی۔

https://twitter.com/itsfarmankhan/status/1202136958128074752?s=20

مگر دوسری جانب کثیر تعداد میں ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے صدر پاکستان کو ’بیدار‘ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ وہ صدر پاکستان ہیں اور اس حوالے سے ٹویٹر پر ’احتجاج‘ کرنے کے بجائے عملی اقدام اٹھائیں۔

ٹویٹر پر کئی صارفین نے تو ان سے ذمہ داران کے خلاف بھرپور ایکشن لینے اور انھیں کیفر کردار تک پہنچانے کے مطالبات تک کیے۔

https://twitter.com/zoiatariq/status/1202118795382448128?s=20

وجہ شاید یہ ہے کہ پاکستانی عوام کو شاید فاروق خان لغاری اور غلام اسحاق خان جیسے انتہائی ’بااختیار‘ سابقہ صدور یاد ہیں جنھوں نے اچھی بھلی چلتی جمہوری حکومتوں کو گھر بھیجا۔ یا شاید سابق صدر پرویز مشرف، کہ طاقت جن کے عہدے کا مرکز و محور تھی۔

صدر مشرف کے دورِ حکومت کے بعد بحال ہونے والی جمہوریت نے پہلا کام ملکی جمہوریت سے غیر جمہوری اقدار کا خاتمہ کیا۔ اپریل 2010 میں پارلیمان سے پاس ہونے والی 18 ویں آئینی ترمیم نے ملک کو ’نیم صدارتی‘ نظام سے نکال کر پارلیمانی نظام تک پہنچایا۔

صدر سے عہدے میں غیر قانونی طریقے سے مرتکز کیے گئے بہت سے اختیارات بشمول منتخب اسمبلیوں کو گھر بھیج دینے جیسی طاقتوں کا خاتمہ کر دیا گیا۔

صدور

پاکستانی عوام کو شاید فاروق خان لغاری اور غلام اسحاق خان جیسے انتہائی ‘بااختیار’ سابقہ صدور یاد ہیں جنھوں نے اچھی بھلی چلتی ہوئی جمہوری حکومتوں کو گھر بھیجا

اب صدر انتظامی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتے۔

صدر کے اختیارات

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پارلیمنٹری سٹڈیز کے سابق ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ظفر اللہ خان کا کہنا تھا کہ صدر ریاست کے سربراہ ہیں جن پر کوئی قدغن نہیں کہ وہ بات چیت نہ کر سکیں، مسائل پر اپنی رائے نہ دیں سکیں یا تقاریب سے خطاب نہ کر سکیں۔

’معاشرتی حوالے سے بات کی جائے کی تو صدر کے پاس بہت سے اختیارات ہیں۔ وہ پارلیمان کو مشورہ دے سکتے ہیں، نصیحت کر سکتے ہیں اور اسے سوال بھجوا سکتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ معاشرے میں اگر کوئی خرابی نظر آ رہی ہے اور اس پر وہ اپنا نقطہ نظر ہی بیان نہ کر سکیں تو ایسا نہیں ہے۔ صدر کسی بھی معاملے پر سپریم کورٹ اور پارلیمان کو ریفرنس بھیج سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا آئین میں صدر کے اختیارات کا تعین کر دیا گیا ہے۔ اختیارات درج ذیل ہیں:

  • آرٹیکل 45 کے تحت صدرِ پاکستان کسی بھی مجرم کی سزا معاف، کم یا منسوخ کر سکتے ہیں۔
  • وزیر اعظم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صدر پاکستان کو تمام اہم داخلی امور، خارجہ پالیسی اور پارلیمان میں پیش کی جانے والی مجوزہ قانون سازی سے مطلع رکھیں۔
  • پہلے کی طرح اب بھی صدر پاکستان اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں مگر اب وہ ایسا صرف وزیراعظم کی درخواست پر ہی کر سکتے ہیں۔
  • پارلیمان کے اجلاس صدر ہی کی ہدایت پر بلائے اور منسوخ کیے جاتے ہیں۔
  • اگر پارلیمان کے ایوانِ بالا یا ایوان زیریں میں کوئی قانون سازی تاخیر کا شکار ہو رہی ہے تو اس معاملے پر یا کسی اور معاملے پر خط یا سوال لکھ سکتے ہیں۔
  • ایوان بالا یا ایوان زیریں سے پاس ہونے والی کوئی بھی قانون سازی صدر کو منظوری کے لیے صدر کو بھیجا جاتا ہے۔ صدر کو اس پر منظوری دس روز کے اندر دینی ہوتی ہے۔
  • صدر کسی بھی بل کو پارلیمان واپس بھی بھیج سکتے ہیں ان احکامات کے ساتھ کہ بل میں موجود کسی بھی قانون یا شق کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔ تاہم اگر پارلیمان ان کی تجویز پر عمل نہیں کرتا اور بل کو دوبارہ اصل حالت میں پاس کر دیتا ہے تو صدر کو دس یوم کے اندر اس کو منظور کرنا ہوتا ہے، نہ کرنے کی صورت میں بل کو منظور سمجھا جاتا ہے۔
  • صدر فنانس بل (بجٹ) کو دوبارہ جائزے کے لیے پارلیمان واپس بھیجنے کا مجاز بھی نہیں ہوتا۔
  • صدر پارلیمان کے سپیکر یا چیئرمین کی مشاورت کے بعد پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے لیے طریقہ کار ترتیب دے سکتے ہیں۔
  • اگر پارلیمان کا اجلاس جاری نہ ہو تو صدر کسی بھی انتہائی ضرورت کے مسئلے پر آرڈینینس جاری کر سکتے ہیں۔ ایسے آرڈینینس کی مدت صرف 190 دن ہو گی۔
  • صدر وزیر اعظم کی ایڈوائس پر وفاقی وزرا، وزرائے مملکت، مشیران، مسلح افواج کے سربراہان و دیگر کی تعیناتی کرتے ہیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp