دعا منگی ہم تم سے شرمندہ ہیں


دعا منگی تھی ہی ایسی اس کہ ساتھ ایک دم ٹھیک ہوا کوئی بھی شخص ہوتا تو دعا کو جس قسم کے کپڑے وہ پہنا کرتی تھی اس میں ملبوس دیکھ کر اغوا ہی کرتا۔ اور اب جو ہوا اس کا ذمہ دار اغوا کار نہیں خود دعا منگی ہے۔ اور اگر دعا منگی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کہ بعد مار کر کسی گلی کہ کونے میں یا کسی گہرے کنوئیں میں پھینک دیا جائے تو اغواکاروں کو قطعی کوئی الزام نہ دے کیونکہ دعا نے اپنے لباس سے اغواکاروں کو خود اس بات کی دعوت دی کہ اس کو اغوا کرکے زیادتی کا نشانہ بنانے کہ بعد موت کہ گھاٹ اتار دیا جائے۔

توبہ استغفار یہ وہ بیہودہ اور گھٹیا تبصرے ہیں جو سوشل میڈیا پر عقل و فہم و فراست سے قاصر اور تنگ نظر افراد بڑھ چڑھ کر دے رہے ہیں۔ اور دن دھاڑے دعا منگی کہ اغوا کا الزام بجائے اغوا کاروں اور حکومتی اداروں کی کمزوری کہ اس کا الزام دعا منگی پر ہی لگاکر اغوا کاروں اور حکومتی اداروں کی کمزوریوں کو تحفظ فراہم کررہے ہیں۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل 9 کے مطابق کسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا جبکہ قانون اس کی اجازت دے۔ تو پھر آپ اور ہم کون ہوتے ہیں جو کسی رنگ و روپ یا اس کہ لباس پر تنقید کرکے کسی انسان کی ذات پر کیچڑ اچھالیں اور محض مفروضوں کی بنیاد پر اپنی مرضی کی کہانیاں بناکر اس میں چٹخارے دار تڑکہ لگائیں۔

ہمارا سوال ان نام نہاد سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ سے صرف اتنا ہے کہ دعا منگی کی جگہ خدا نا خواستہ کہیں آپ کی اپنی بہن یا بیٹی ہوتی اور اس ہی طرح اغوا کرلی جاتی تو کیا آپ یہ ہی جواز ڈھنڈ کر خود کو تسلی دے سکتے تھے؟ اور اس پریشان کن صورتحال میں جب آپ کا اہل خانہ صدمہ کی حالت میں ہوتا اور کوئی فیس بک اور ٹیوٹر پر بیٹھا آپ کی بہن بیٹی کہ ساتھ ہونے والی زیادتی اور قتل کا پیشگی تجزیہ کررہا ہوتا تو آپ کے دل پر کیا گزرتی؟

کیا آپ کے دل اتنے پتھر ہوچکے ہیں ضمیر اتنا مردہ ہوچکا ہے جو کسی کی بہن بیٹی کہ اغوا پر اس ہی کو الزام دیتے ہوئے اس کہ ساتھ زیادتی اور قتل کا پیشگی تجزیہ کررہے ہیں۔ کیا آپ نے اس طرح کہ تجزیے اور فتوے دینے سے پہلے سوچا دعا منگی کا اہل خانہ اس وقت کس قدر ذہنی اذیت اور صدمے سے دوچار ہوگا اور آپ بجائے اس خاندان کو حوصلہ دیں آپ ان کی پریشانیوں میں اضافہ فرما رہے ہیں۔ آپ وہ ہی لوگ ہیں جو کشمیر میں ہماری مسلمان بہنوں اور بچوں پر ہونے والے مظالم پر تو نوحے پڑتے نظر آتے ہیں مگر اپنے ملک اپنے شہروں میں اپنی ماؤں بہنوں کہ اغوا ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا الزام ان ہی پر عائد کرتے ہیں۔

بحیثیت مسلمان آپ کو پورا حق حاصل ہے کہ آپ کشمیر سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر آواز اٹھائیں۔ مگر اس سے پہلے اپنے گھر میں بھی جھانکنا ہوگا جہاں ہماری مائیں بہنیں۔ بچے بچیاں تک محفوظ نہیں۔ اور ہم بجائے ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر آواز اٹھائیں ہم ان ہی پر الزامات عائد کردہتے ہیں۔

آئین پاکستان کا آرٹیکل 9 ہر شہری کو اہنی مرضی سے زندگی گزارنے کی اجازت دیتا ہے۔ تو پھر آپ کس طرح کسی شہری کو اس کی مرضی سے زندگی گزارنے کہ حق سے محروم کرسکتے ہیں اور اس کہ جینز اور ٹی شرٹ پہننے پر پابندی لگاسکتے ہیں؟ اور کیا جس معاشرے میں ہم اور آپ سانس لے رہے ہیں کیا وہاں صرف جینز اور ٹی شرٹ پہہنے والی لڑکیوں کو ہی اغوا کیا جاتا ہے؟ تین تین سال کی بچیوں بچوں کو اغوا و زیادتی کا نشانہ جو بنایا جاتا ہے وہ کون سی جینز اور ٹی شرٹ پہنتے تھے؟ کیا ان معصوم بچے اور بچیوں کہ اغوا کہ ذمہ دار بھی وہ معصوم بچے اور بچیاں ہیں یا وہ انسان نما بھیڑیے جو انسان کہلانے کہ لائق نہیں کیا آپ ان جنگلی جنسی درندوں کو بھی وہی تحفظ فراہم کریں گے جو آپ دعا منگی کہ اغواکاروں کو فراہم کررہے ہیں؟

ریاست پاکستان میں ہر شخص کی عزت اس کہ جان و مال کی حفاظت کرنا ریاست کا کام ہے اور جہاں دن دھاڑے پر رونق مقام سے کسی کی بہن بیٹیاں بھرے ہجوم سے اٹھالی جائیں اتنے دن گزرنے کہ بعد بھی کوئی پیش رفت نہ ہو تو یہ ریاست کی ناکامی ہے۔

دعا منگی ہم تم سے شرمندہ ہیں ہم اس تنگ نظر معاشرے کہ مکین ہیں جہاں ہمیشہ طاقتوروں کو ہی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ جہاں عورت کو پاوں کی جوتی سمجھا جاتا ہے۔ جہاں اپنے اہل خانہ کی مالی معاونت کرنے والی دفتروں میں کام کرنے والی لڑکیوں تک کو حدف تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ان کہ لباس ان کہ کردار پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ تو دعا منگی ہم تم سے شرمندہ ہیں بہت شرمندہ ہیں۔ ہم جانتے ہیں تمھارے بابا تمھاری ماما تمھاری بہنیں اس وقت کس ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ اور یہاں مفروضوں کی بنیاد پر تمھارے لباس تمھارے کردار پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں۔ ہمیں معاف کردینا دعا منگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).