سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے لوگوں کی پرائیویسی متاثر ہونے سے متعلق درخواست سماعت کے لیے منظور


پاکستان

لاہور ہائیکورٹ نے سی سی ٹی وی فوٹیج کو سوشل میڈیا پر وائرل کرنے اور شہریوں کی پرائیویسی کا خیال نہ رکھنے کے معاملے پر وفاقی اور صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کر دیے ہیں اور سی سی ٹی وی کیمرے کی موجودگی میں شہریوں کے تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات کی تفصیلات مانگ لی ہیں۔

ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سلمان صوفی کی درخواست پر سماعت کی جس میں سی سی ٹی وی کیمرے کی موجودگی میں ایک عام شہری کی پرائیویسی پامال کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

سی سی ٹی وی کیمرے کی موجودگی میں شہریوں کی پرائیویسی کے تحفظ کے لیے اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد درخواست ہے جو لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’اسلام آباد میں نصب کیمرے چہرہ شناخت نہیں کر سکتے‘

پاکستان میں مقبول، دنیا میں مشکوک

لاہور کی ٹریفک سدھارنے کی نئی کوشش

گزشتہ کچھ عرصے میں پبلک مقامات پر لگائے گئے پرائیویٹ سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں اور عام شہریوں کی پرائیویسی خلاف ورزی کی گئی۔

جسٹس جواد حسن نے درخواست پر ابتدائی کارروائی کے بعد اسے باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرلیا اور وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں سے جواب مانگ لیا ہے۔

شہریوں کی پرائیویسی کو پامال کرنے کا ایک واقعہ صوبائی دارالحکومت لاہور کے جدید طرز کے سینما گھر میں ہوا جہاں سینما گھر میں ہال میں بیٹھے کچھ لوگوں کی نجی نوعیت کی فوٹیج کو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

اس کے علاوہ بلوچستان یونیورسٹی میں مبینہ طور پر خفیہ کیمروں کے ذریعے طالبات کو ہراساں اور بلیک میل کرنے کی خبروں کو بھی درخواست میں بنیاد بنایا گیا ہے۔

انس مشہود ایڈووکیٹ نے سینما گھر کے علاوہ دیگر واقعات کو بنیاد بنا کر درخواست دائر کی اور اس میں ان واقعات کے بارے میں اخباری تراشے اور تصاویر کو لف کیا گیا۔

سی سی ٹی وی کیبنٹ

یہ کہا گیا کہ خرابی کی صورت میں وائی فائی کنکٹیویٹی کی وجہ سے کیبنٹ کو بغیر کھولے ہی انجینیئرز نیچے سے اسے درست کر سکتے ہیں

جمعرات کو درخواست گزار سلمان صوفی کے وکیل انس مشہود عدالت میں پیش ہوئے اور سی سی ٹی وی کیمرے کی موجودگی میں شہریوں کی پرائیویسی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے نکات پر دلائل دیے۔

انس مشہود ایڈووکیٹ نے دلائل میں یہ نشاندہی کی کہ سی سی ٹی وی کیمرے کے ذریعے بنائی گئی فوٹیج میں شہریوں کی پرائیویسی کا دھیان نہیں رکھا جاتا اور کئی مرتبہ ایک عام شہری کی پرائیویسی مجروح ہوتی ہے۔

لاہور ہائیکورٹ کے روبرو درخواست گزار کے وکیل انس مشہود نے مختلف ممالک میں پرائیویسی کے قوانین کا حوالہ دیا اور یہ بتایا کہ وہاں پرائیویسی کی پامالی کے مسائل سے کس طرح نمٹا گیا۔

درخواست گزار سلمان صوفی کے وکیل نے توجہ دلائی کہ پبلک مقامات پر لگائے گئے سرکاری اور نجی سی سی ٹی وی کیمرے کے ذریعے بنی ہوئی فوٹیج کو وائرل کرنے کے واقعات رونما ہوئے جو بینادی حقوقِ کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

وکیل نے نکتہ اٹھایا کہ پبلک مقامات پر لگائے گئے سی سی ٹی کیمرے کی فوٹیج کو وائرل کرنے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا ٹھوس اور موثر طریقہ کار ہونا چاہیے۔

انس مشہود ایڈووکیٹ نے نشاندہی کی کہ پبلک مقامات پر پرائیویٹ سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہوتے ہیں لیکن ایسے نوٹس آویزاں نہیں کیے جاتے جس سے عام شہری کو کیمرہ نصب ہونے کا علم ہو۔ انھوں نے استدعا کی کہ جہاں بھی سی سی ٹی وی کیمرے ہوں وہاں عوامی نوٹس آویزاں کرکے اس کی موجودگی کی اطلاع دی جائے۔

وکیل نے یہ بھی نشاندہی کی کہ پبلک مقامات اور مختلف دکانوں کے علاوہ سیف سٹی اتھارٹی کے کیمرے سے بنی فوٹیج بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں۔

درخواست گزار سلمان صوفی نے اپنے وکیل کے ذریعے یہ بھی نکتہ اٹھایا کہ سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج کو کسی بھی طور کسی کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

انس مشہود ایڈووکیٹ نے دلائل میں افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان میں کسی شخص کی پرائیویسی کے تحفظ کیلئے قوانین تو ہیں لیکن ان پر عمل نہیں کیا جا رہا۔

لاہور ہائیکورٹ کے روبرو انس مشہود ایڈووکیٹ نے نکتہ اٹھایا کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شہری کی پرائیویسی کے تحفظ کو یقینی بنائے اور اس مقصد کے لیے قانون سازی کی جائے۔

درخواست پر آئندہ کارروائی دس دسمبر کو ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp