الیکشن کمشن میں تعیناتیوں کے لئے پیدا ہوتی الجھنیں


حکومت اور اپوزیشن کو اتفاق رائے سے الیکشن کمیشن کے چیئرمین اور اس کے اراکین کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ ان دو فریقین کے مابین اس ضمن میں ’’اتفاق رائے‘‘ کا حصول ہمارے آئین میں لازمی ٹھہرایا گیا ہے۔اس کا مقصد الیکشن کمیشن کی غیر جانب داری اور وقار کو یقینی بنانا ہے۔فروری 2019میں سندھ اور بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے اراکینِ الیکشن کمیشن کی معیادِ ملازمت ختم ہوگئی تھی۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے دس مہینے گزر جانے کے بعد بھی حکومت اور اپوزیشن باہمی صلاح مشورے سے نئے افراد کا تعین نہ کرپائیں۔

اب چیف الیکشن کمشنر بھی اپنے عہدے سے ریٹائر ہوچکے ہیں۔ان کی جگہ کسے لگانا ہے؟ حکومت اور اپوزیشن کو اس بارے میں کچھ علم نہیں۔ گومگو کی کیفیت ہے۔آئین میں ’’لازمی‘‘ ٹھہرائے ’’اتفاق رائے‘‘ کے لئے ضروری ہے کہ وزیر اعظم اور قائدِ حزب اختلاف کے درمیان کسی نہ کسی نوعیت کا رابطہ موجود ہو۔ عمران خان صاحب مگر ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ سے رسمی ہاتھ ملانے کو بھی تیار نہیں ہیں۔

ان کے شہزاد اکبر جیسے متحرک تفتیش کاروں نے جو تازہ ترین ’’معلومات‘‘ حاصل کی ہیں ان کے مطابق قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی نشست پر بیٹھے ہوئے شہباز شریف تو مبینہ طورپر پاکستان میں ’’حرام‘‘ ذرائع سے کمائی کو ٹرکوں میں بھرکر ان کارندوں تک پہنچاتے رہے ہیں جو پاکستانی روپے کو غیر ملکی کرنسی میں بدل کر ملک سے باہر بھجوادیتے ہیں۔ڈالروں یا پائونڈ کی صورت میں ’’لانڈر‘‘ ہوئی رقوم بیرون ملک ’’حلال‘‘تصور ہوتی رہیں۔شہباز صاحب اسے ’’قانونی‘‘ دکھتے ذرائع سے پاکستان منگواکر اپنے کاروبار چمکاتے رہے۔حکومتی دعویٰ کے مطابق میسر ہوئی تازہ ترین معلومات کے مطابق عمران صاحب کے لئے اب مزید ناممکن ہوگیا ہے کہ وہ شہباز شریف کو چائے کی پیالی پر مدعو کریں اور تھوڑی گفت وشنید کے بعد نئے چیف الیکشن کمشنر اور اس کے ریٹائرڈ ہوئے اراکین کے متبادل تعینات کردیں۔

شہزاد اکبر صاحب کی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں حاصل ہوئی معلومات کے مطابق تو شہباز شریف کو اس وقت ایف آئی اے کی حراست میں ہونا چاہیے۔واجد ضیاء اس ادارے کے نئے سربراہ تعینات ہوچکے ہیں۔انہوں نے پانامہ دستاویزات کے انکشاف کے بعد مختلف ریاستی اداروں پر مبنی JITکی رہ نمائی فرمائی تھی۔سپریم کورٹ کے ہاتھوں اس JITکی فراہم کردہ معلومات کے مطابق نواز شریف وزارتِ عظمیٰ سے فارغ ہوئے تھے۔بعدازاں واجد ضیاء کی گواہی نے انہیں احتساب عدالت سے سزائیں دلوانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا۔شہباز شریف کی خوش بختی کہ اس وقت ملک میں موجود نہیں ہیں۔ اپنے بڑے بھائی کے علاج کی خاطر لندن گئے ہوئے ہیں۔

ان کی عدم موجودگی میں خواجہ آصف سے مشورہ کیا جاسکتا تھا۔خواجہ آصف کو لیکن عمران خان صاحب نہایت حقارت سے ’’درباری‘‘ پکارتے ہیں۔ وزیر اعظم بہت شدت سے یہ بھی چاہتے ہیں کہ خواجہ آصف کو ’’اقامہ‘‘ کی بنیاد پر گرفتار کیا جائے۔ان سے تفتیش ہوکہ مسلم لیگ کی حکومت میں دفاع اور خارجہ جیسی ’’حساس‘‘ اور اہم ترین وزارتوں کی کمان کرتے ہوئے ان کے پاس جو ’’قومی راز‘‘ تھے وہ انہوں نے کہیں ’’اقامہ‘‘ فراہم کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں میں گھسے ’’وطن دشمنوں‘‘ کے حوالے تو نہیں کردئیے تھے۔ایف آئی اے کے سابق سربراہ بشیر میمن نے اس ضمن میں لیت ولعل سے کام لیا۔ وہ بہت ’’جی دار‘‘ افسر شمار ہوتے تھے۔سندھ سے تعلق رکھنے کے باوجود انہوں نے آصف علی زرداری کے مبینہ طورپر جعلی اکائونٹس کا سراغ لگاکر ’’تاریخ‘‘ بنائی تھی۔ خواجہ آصف کے ضمن میں کوئی جلوہ دکھانے میں اگرچہ ناکام رہے۔ریٹائرمنٹ سے چند ماہ قبل ’’رخصت‘‘ پر چلے گئے اور بالآخر اپنی ریٹائرمنٹ سے چند روز قبل ملازمت سے ’’احتجاجاََ‘‘ مستعفی ہوگئے۔

خواجہ آصف کے علاوہ نون کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ کے احسن اقبال صاحب سے مشاورت ہوسکتی ہے۔احسن اقبال کو مگر روزانہ کی بنیاد پر عمران خان صاحب کے پسندیدہ وزیر مراد سعید صاحب ایک بھاری بھر کم ’’راشی‘‘ کی صورت پیش کرتے رہتے ہیں۔وزیر اعظم احسن اقبال کو ’’عزت‘‘ کیوں عطا کریں؟احسن اقبال گوارہ نہیں تو مسلم لیگ (نون) کے سردار ایاز صادق سے گفتگو ہوسکتی ہے۔سردار صاحب مگر ایچی سن کالج میں عمران خان صاحب کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔اپنی سیاست کا آغاز بھی سردار ایاز نے تحریک انصاف سے کیا تھا۔ اس کی ٹکٹ پر الیکشن لڑا۔بری طرح ہار گئے۔ناکامی کے بعد نواز شریف کی جماعت میں چلے گئے۔

2013کے انتخاب میں ان کا لاہور سے قومی اسمبلی کی ایک نشست پر عمران خان صاحب سے براہِ راست مقابلہ ہوا۔عمران خان صاحب ہار گئے۔ ’’کپتان‘‘ نے مگر اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا۔طویل عدالتی جنگ کے بعد اس نشست پر ضمنی انتخاب ہوا۔ علیم خان نے تحریک انصاف کی جانب سے یہ الیکشن لڑا۔ ایاز صادق دوبارہ جیت گئے اور 2013سے 2018تک قومی اسمبلی کے سپیکر رہے۔خان صاحب کے لئے ایاز صادق کی ’’بے وفائی‘‘ بھلانا ممکن نہیں۔مسلم لیگ (نون) کے شاہد خاقان عباسی،رانا ثناء اللہ اور خواجہ سعد رفیق سنگین الزامات کے تحت ان دنوں جیلوں میں ہیں۔اس جماعت میں راناتنویر ہی باقی رہ گئے ہیں جن سے تحریک انصاف کے پاکباز لوگ گفتگو کرسکتے ہیں۔

سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ رانا صاحب تحریک انصاف سے جو معلاملات طے کریں گے وہ ان کی جماعت کی اکثریت کو بھی قبول ہوگا یا نہیں۔وطنِ عزیز میں کافی لوگوں کو عدالتوں سے رجوع کرنے کی علت لاحق ہوچکی ہے۔فرض کیا کہ رانا تنویر اور تحریک انصاف کی حکومت کے درمیان چند معاملات طے ہوجائیں۔مسلم لیگ (نون) کی اکثریت اس پر آمادگی کا اظہار بھی کردے تو کوئی ’’ذمہ دار شہری‘‘ عدالت میں جاکر فریاد کرسکتا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے ضمن میں آئین میں ’’لازمی‘‘ ٹھہرائی مشاورت نہیں ہوئی۔عدالت نے ممکنہ درخواست کو باقاعدہ سماعت کے قابل ٹھہرایا تو ایک نیا تماشہ لگ جائے گا۔

الیکشن کمیشن جیسے اہم ادارے میں تعیناتیوں کے ضمن میں جو الجھنیں نظر آرہی ہیں انہیں ذہن میں رکھیں تو خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق پارلیمان کے ذریعے ایسے قواعد وضوابط نہیں بناپائیں گے جو آرمی چیف جیسے اہم اور حساس ترین منصب کی معیادِ ملازمت کو واضح الفاظ میں طے کردیں۔

عمران حکومت کا اصرار ہے کہ سپریم کورٹ نے جن قواعد وضوابط کا تقاضہ کیا ہے اسے وہ ایک Act of Parliamentکے ذریعے بآسانی طے کرسکتی ہے۔قومی اسمبلی میں اسے اکثریت حاصل ہے۔وہاں سے قانون پاس کرواکے اسے سینٹ بھیج دیا جائے گا۔

ایوانِ بالا میں عمران حکومت کو قانون سازی کے لئے اکثریت میسر نہیں۔اپوزیشن جماعتوں نے یکسوہوکر بلکہ وہاں چند ایسے ’’قوانین‘‘ کو بھی نافذ نہ ہونے دیا جو تحریک انصاف نے آرڈیننس کے ذریعے متعارف کروانے کی کوشش کی تھی۔آرمی چیف کی معیادِ ملازمت کے حوالے سے تحریک انصاف اپنے تئیں قومی اسمبلی سے جو قانون منظور کروائے گی اپوزیشن اسے سینٹ میں منظور کرتے ہوئے ’’نخرے‘‘ دکھاسکتی ہے۔

عمران خان صاحب اور ان کے ساتھیوں کو مگر کامل اعتماد ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اس حوالے سے رخنہ اندازی والے ’’نخرے‘‘ دکھانے کی جرأت ہی نہیں دکھاپائیں گی۔ اسی باعث فیصل واوڈا صاحب نے نہایت رعونت سے اپوزیشن کے ساتھ آرمی چیف کے حوالے سے مطلوبہ قانون سازی کے لئے مشاورت سے انکار کردیا۔دُنیا کو دکھادیا کہ پارلیمان میں بھاری بھر کم تعداد میں موجود اپوزیشن جماعتوں کو چند معاملات کے ضمن میں اپنی ’’اوقات‘‘ کا بھرپور ادراک ہے۔عمران حکومت کو اس کے نخرے اٹھانے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).