دعا کریں Consensus ہو جائے


گزشتہ ہفتہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے طریقہ کار کی بابت سپریم کورٹ آف پاکستان میں لیے گئے نوٹس پر بننے والی خبروں کے حوالے سے خاصہ ہنگامہ خیز رہا۔ چند روز قبل ہی وزیراعظم صاحب نے ایک صحافی سے ملاقات میں فرمایا تھا کہ وہ رواں سال مارچ میں ہی ذہن بنا چکے تھے کہ جنرل قمر باجوہ کو جانے نہیں دینا۔ اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اگست سے ہی وفاقی کابینہ وزیراعظم اور صدر مملکت نے قانونی لوازمات پورے کرنے کی کوششیں بھی شروع کر دیں تھیں۔

لیکن اتنا عرصہ قبل یہ کاوش شروع ہونے اور کئی بار سمری ایک سے دوسری جگہ گھومنے کے بعد بھی مگر یہ معمولی کام ڈھنگ سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا۔ مجھ ایسے غریب و جاہل شخص جن کا دفتری و ریاستی امور سے کبھی کبھار پالا پڑتا ہو ان کے لیے قانونی باریکیاں اور پیچیدگیاں سمجھنا کار محال ہے۔ ایمانداری کی بات ہے یہ اندازہ لیکن بالکل نہ تھا کہ اتنے عالی دماغوں پر مشتمل حکومتی و ریاستی لیگل ٹیم جن کی تنخواہ اور مراعات پر غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی سے بے تحاشا پیسہ خرچ ہو رہا ہے وہ بھی معمولی باتوں کے بارے ہماری طرح لاعلم نکلے گی۔

سپریم کورٹ میں اس مسئلے پر پٹیشن دائر نہ ہوتی اور سپریم کورٹ اس پٹیشن کو واپس لینے کی درخواست کے باوجود اس مسئلے پر سماعت نہ کرتی، تو شاید اب بھی اس لیگل ٹیم کی قابلیت کا اندازہ نہ ہوتا۔ حیرت اور افسوس اس بات پر ہے کہ اس قدر حساس پوسٹ پر تعیناتی کے بارے رولز اب تک واضح نہیں اور نہ ہی آج تک کسی نے اس بارے توجہ دینے کی ضرورت محسوس کی۔ مقام شکر ہے کہ مسئلے کی سنگینی کا احساس اب بھی کر لیا گیا۔ بالفرض آرمی چیف حکومتی منشاء کے مطابق تین سال توسیع حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے اور کل کلاں کوئی شخص اٹھ کر عدالت سے رجوع کر لیتا اور پھر یہ سوال اٹھتے جو اب اٹھے تو پھر کیا صورت بنتی؟

حکومتی نا اہل قانونی ٹیم اور مشیروں نے بات عدالت میں پہنچنے کے بعد بھی مسئلے کو سلجھانے کے بجائے اپنے تئیں مزید الجھانے کی حتی المقدور کوشش کی۔ ایک دو نہیں بلکہ چار بار عدالت میں سمری بنا کر پیش کی گئی مگر معاملہ حل ہونے کے بجائے مزید گھمبیر ہوتا گیا۔ اٹارنی جنرل کے دلائل تو ایسے تھے جنہیں سن کر بے اختیار اپنا سر پیٹنے کو جی چاہ رہا تھا۔ بات کسی طور بنتی نہ دیکھ کر آخری چارے کے طور پر اٹارنی جنرل صاحب نے یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی کہ قانون کی چھڑی میں اگر سختی ہو تو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے۔

ازاں بعد اٹارنی جنرل کی طرف سے عدالت میں آرمی چیف کی توسیع کا قابل عمل جواز یا جائز طریقہ پیش نہ ہونے کے باوجود عدالت نے نرمی سے کام لیتے ہوئے حکومت کو مزید چھ ماہ کی مہلت اور آرمی چیف کو اپنے عہدے پر کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔ اس مدت میں حکومت کو اب Act of parliament کے ذریعے آرمی چیف و دیگر سروسز چیفس کی مدت ملازمت بارے قوانین اور آرٹیکل 243 کا دائرہ کار واضح کرنا پڑے گا۔ حالیہ قضیے سے چند روز قبل تک حکومتی ایام ختم ہونے کی پیشگوئیاں ہو رہی تھیں۔

اب مگر بعض تجزیہ کار یہ کہنا بھی شروع ہو گئے ہیں کہ جب تک مطلوبہ قانون سازی نہیں ہوتی حکومت کے لیے ”ستے خیراں“ ہے۔ دوسری طرف بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن کہہ رہے ہیں نیا وزیراعظم آنے کے بعد ہی یہ قانون سازی ہو گی۔ حکومتی لیگل ٹیم میں شامل ایک عالی دماغ بابر اعوان نے اطلاع یہ بھی دی ہے کہ واجد ضیاء کی بطور ڈی جی ایف آئی اے تقرری، جو پانامہ کیس کی تحقیق کرنے والی جے آئی ٹی سربراہ بھی رہ چکے ہیں، سابق وزیر دفاع کے خلاف اقامہ کیس کو انجام تک پہنچانے کی خاطر ہے۔

گزشتہ سے پیوستہ ماہ حکومتی ذرائع سے خبر کی تصدیق کے بعد اس کالم میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ وزیراعظم ہر صورت خواجہ آصف کو لٹکانے کے خواہش مند ہیں۔ اس مقصد کے لیے بشیر میمن پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا اور نہ ماننے پر انہیں منصب سے ہٹا دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اچانک ن لیگ کے صدر شہباز شریف کی جائیداد بھی نیب نے منجمد کر دی ہے۔ اپوزیشن کے بقول نیب اور نیازی گٹھ جوڑ ہے۔ آئین کے مطابق کوئی قانون پاس کرانے کے لیے دونوں ایوانوں میں کم از کم سادہ اکثریت کا ہونا ضروری ہے۔

فی الوقت سینیٹ میں تو حکمراں جماعت کو یہ اکثریت میسر نہیں۔ اپوزیشن پہلے ہی ”گرم توے“ پر بیٹھی ہے اور حکومت اپنے اقدامات سے توے کے نیچے موجود آنچ کو مسلسل بڑھاوا دے رہی ہے۔ ایک معاملہ الیکشن کمیشن ممبران کی تقرری کا بھی ہے جس کے حل ہوئے بغیر آئینی بحران کا خطرہ ہے۔ میڈیا یہ جاننے میں مشغول ہے کہ ان باتوں پر Consensus ہو سکے گا یا نہیں۔

نظر بظاہر یہی آ رہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی اس رسہ کشی میں مقبوضہ کشمیر جسے جیل میں تبدیل ہوئے اب کئی ماہ گزر چکے ہیں مزید نظر انداز رہے گا۔ حالانکہ میڈیا پر بحث یہ ہونی چاہیے تھی حکومت نے کشمیری بھائیوں کے مصائب میں کمی لانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش آخر کیوں نہیں کی۔ گزشتہ ماہ جب مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کا آغاز ہوا تو حکومتی ذمہ داران کا الزام تھا کہ میڈیا پر اس سرگرمی کو ملنے والی کوریج کی بدولت کشمیر کا ایشو پس پشت چلا جائے گا۔

مولانا کا احتجاج ختم ہوئے تو کئی ہفتے گزر چکے۔ سوال یہ بنتا ہے اب کس کی نا لائقی سے نہ صرف میڈیا اس طرف متوجہ نہیں ہو رہا بلکہ دیگر ریاستی ادارے جن کی کوششوں کا اصل محور کشمیری عوام کی اشک شوئی ہونا چاہیے وہ بھی دیگر معاملات میں مصروف ہیں۔ حکومت اگر بالکل بے بس ہے اور کشمیریوں کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تو کم از کم سیاسی انتقام ترک کرکے اپنی توانائیاں غریب عوام کی معاشی حالت بہتر بنانے پر مبذول تو کر ہی سکتی ہے۔

ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں 16.53 فیصد اضافہ ہوا۔ رواں سال نومبر میں سال گزشتہ کی نسبت 12.28 مہنگائی بڑھی۔ چند روز قبل ایک ویگن ڈرائیور نے اپنی داستاں سناتے ہوئے کہا، اسے ایک up۔ down کا محنتانہ چھ سو ملتا ہے جو ماہانہ اٹھارہ ہزار بنتے ہیں۔ وہ ایک کمرے پر مشتمل کرائے کے گھر میں رہائش رکھتا ہے جس کی مد میں سات ہزار نکل جاتے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر اسے سو روپے کا آٹا لینا پڑتا ہے اور دو وقت کے سالن کے لیے گئی گزری سبزی بھی ڈیڑھ سو سے کم میں نہیں ملتی۔

چھوٹے بچے کو پلانے اور ایک وقت کی چائے کے لیے روزانہ ایک لیٹر دودھ بھی لیں تو ماہانہ تین ہزار یہ بنتے ہیں۔ یعنی کل ساڑھے سترہ ہزار تو ان چیزوں پر ہر صورت خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ یوٹیلٹی بلز، پرچون کے سامان، بچوں کی تعلیم، کپڑے جوتے اور دوا دارو کی رقم اس کے علاوہ۔ اس کا کہنا تھا مندی کی وجہ سے سواریوں میں بھی نمایاں کمی آئی ہے جس کے باعث یہ دیہاڑی بھی روزانہ نہیں لگتی۔ پچھلے ماہ بچے کا ایکسیڈنٹ سے بازو ٹوٹ گیا تھا اور علاج کے لیے پنتالیس ہزار درکار ہیں لیکن کہیں سے قرض کی امید بھی نہیں کیونکہ ہر جاننے والے سے پہلے ہی قرض لے چکا ہوں۔ یہی ایک کہانی نہیں ایسے انگنت المیے ہیں لیکن ان پر بات میڈیا بھی نہیں کر سکتا کیونکہ یہاں سے ریٹنگ ملنے کی امید نہیں۔ حکومت اور اپوزیشن میں Consensus پیدا ہونے کی دعا کریں شاید اس کے بعد غریب کے مسائل پر غور کی باری بھی آ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).