لاہور کو صوبہ بنایا جائے


پنجاب کا صوبائی دارالحکومت لاہور جو برے طریقے سے ترقی کے نام پر آبادی، آلودگی خاص طورپر سموگ جیسی خطرناک وبا میں یوں پھنس کر رہ گیا ہے کہ نہ آگے جانے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی پیھچے جانے کی سکت رکھتا ہے۔ ترقی کے نام پر لاہور کے ساتھ کھیلا جانیوالا کھیل لاہو ر کے عوام کے گلے میں فٹ ہوگیا ہے۔ آبادی سے گبھرائے لاہور کے لوگ آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو آلودگی گھیر لیتی ہے، سانس اکھڑ جاتا ہے اور زندگی کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

لاہور میں سب کچھ کرنے کی مہم جوئی میں شامل شریف سیاستدانوں کی طرف سے اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا تھا کہ اس کے نتائج کیا نکلیں گے، پانی کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ پینے کا پانی اس قابل نہیں رہا ہے کہ اس کو آسانی سے بور کرکے ایک طرف حاصل کیاجاسکے اور دوسری طرف اس کو زندگی کا بنیادی جز سمجھ کر پی لیاجائے، دریائے راوی جوکہ لاہور کی خوبصورتی اور زندگی کا بنیادی جز تھا وہ کب کا ریت کا ڈھیڑ بن چکا ہے، اگردریائے راوی میں کوئی پانی زیارت کے لئے مل جاتا ہے تو اس کو بھی لاہور کے سیوریج کے پانی نے اتنا آلودگی سے بھر دیا ہے کہ وہ اب صحت کی بجائے موت بانٹ رہا ہے۔

لاہور کی آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ سب سے بڑا خطرہ ہے جس پر کنٹرول حکومتوں کی طرف سے کبھی ترجیحات میں شامل نہیں رہا ہے۔ پنجاب جو کہ بارہ کروڑ آبادی کا صوبہ بن چکا ہے اور ابھی تیزی کے ساتھ آبادی کی دوڑ میں آگے بڑھ رہا ہے، اس میں لاہور اور اس کے گرد ونواح کے ڈویثرنوں کی آبادی اس حد تک بڑھ ئی ہے کہ پنجاب کی آبادی کا بڑا حصہ یہاں پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن آبادی کے چیلنج کی طرف دھیان نہ وزیراعظم عمران خان کے وسیم اکرم پلس کی ترجیحات میں شامل ہے اور نہ شریفوں نے پنجاب میں رنجیت سنگھ سے زیادہ وقت اقتدار میں گزارنے کے باوجود اس طرف کبھی دھیان دیا تھا اور نہ ہی اپوزیشن دور میں جن کو وزیراعظم عمران خان پنجاب کے چور اور ڈاکو قرار دیتے تھے، اور اب ان کے خیر سے اتحادی ہیں. انہوں نے حکومتی ایجنڈے میں اس اہم آبادی کے ایشو کو شامل کیا تھا۔

سب نے لاہو ر کو سیاسی اکھاڑے اور طاقت کے مرکز طور پر لیا اور دے مار اور ساڈے چار کی پالیسی کے تحت اپنے اور خاندان کے اثاثوں کے ساتھ غلاموں کے ہجوم کو طاقت کے زور پر آگے دھکیلنے کا سفر جاری رکھا، نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ لاہور جیسے شہر کے تعلیمی اداروں کو تین دن تک بند رکھنا پڑا کہ کہیں نوجوان نسل سانس کی بدترین بیماریوں کا زندگی بھر شکارہوکر نہ رہ جائے۔ ادھرلاہور کے لئے مشورے ہوتے رہے کہ کروڑ روپے خرچ کرکے عارضی بارش برسائی جائے لیکن مصنوعی انتظام، چھٹیاں اور دیگر وقتی بھاگ دوڑ کا سلسلہ کب تک چلے گا، سموگ کے توڑ کی بجائے اس کے خلاف بیان بازی اور کہانیاں سنانے سے یہ ایشوختم ہونیوالا نہیں ہے بلکہ اگلی بار اس سے بھی زیادہ خطرناک طریقے سے حکومت، اداروں اور لاہوریوں کو گھیرنے کے لئے موجود ہوگا۔

کوئی اس بات کو تسلیم کرے یا نہ کرے، لاہور کے ساتھ ظلم ہی نہیں بلکہ بے پناہ ظلم ”آبادی“ کی شکل میں کیاگیا ہے، پنجاب کے چاروں اطراف سے لوگ لاہور کا رخ کررہے ہیں لیکن خاص طوپر جنوبی پنجاب اور پھر تھل کے سات اضلاع سے بڑی تعداد میں لوگ ہجرت کرکے لاہور آرہے ہیں، اب سوال یہاں پر یہ ہے کہ پنجاب کے پسماندہ اضلاع کے لوگ لاہور کیوں آرہے ہیں، جی اس کا جواب ہے، جوکہ راقم الحروف پیش کردیتا ہے. لوگ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور اس لیے آرہے ہیں کہ ان کو اپنے علاقوں اور اضلاع میں جینے تک کی بنیادی سہولیتں نہیں مل رہی ہیں۔

قیام پاکستان کو بہتر سال ہونے کے باوجود ابھی تک وہ تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولتوں کے لئے مارے مارے پھر رہے لیکن کو ئی شریف، بدمعاش اور ڈاکو، چور ان کو بنیادی سہولتیں دینے پر تیار نہیں ہے۔ پنجاب کے پسماندہ علاقوں کو حکمران اگلے سال اور اگلی حکومت کا وقت دے کر پتلی گلی سے اپنے اقتدار کو مکمل کرکے جارہے ہیں۔ یوں اس کی پہلی اور آخری وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے حکمران کی ضد کی پالیسی ہے اورلاہور کے علاوہ پنجاب کے پسماندہ اضلاع کے عوام کو ٹرک کی بتی اور نعروں کے پیچھے لگا کر رکھا ہوا ہے۔

اس صورتحال میں پنجاب کے پسماندہ اضلاع کے لوگ زندگی کی بنیادی سہولتوں کے حصول کی خاطر اپنے علاقوں میں سب کچھ چھوڑ کر لاہور آرہے ہیں۔ ادھر لاہور جوکہ حسن کی دیوی شہر تھا، وہ دھڑا دھڑا بڑھتی آبادی اور آلودگی کے وزن کو اٹھانے سے قاصر ہوچکا ہے، زندگی کولاہور میں بڑے پیمانے پر خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ شکر ہے، اس صورتحال کا وزیراعظم عمران خان نے بھی احساس کیا ہے۔ خاص طور پر سابق وزیراعظم اور سزایافتہ نوازلیگی لیڈر نواز شریف پر تابڑ توڑ سیاسی حملے کرنے کی بجائے لاہور کی سموگ اور دیگر اہم ایشوز پر بات کی ہے وگرنہ اس سے پہلے تو وزیراعظم عمران خان نواز شریف کی لندن روانگی کے بعد کچھ ایسے ہی ذہنی طور الجھ گئے تھے کہ جہاں بھی ان کے سامنے تقریب میں مائیک آتا تھا کہ وہ خطاب کریں وہ قومی ایشوز کو چھوڑ کر نواز شریف کس طرح جہاز پر چڑھ رہا تھا اور کیسے جہاز دیکھ کر اس کی طیبعت ٹھیک ہوگئی تھی اور کیسے اس کو ڈاکٹروں کی میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اس کو پندرہ بیماریاں اور دل، گردے، کڈنی، شوگر، کیسٹرول اور پتہ نہیں کیا کیا بتایا گیا تھا لیکن جب انہوں نے وزیراعظم ہاؤس میں نوازلیگی لیڈر نواز شریف کو ٹی وی چینلوں پر جہاز پرچڑھتے دیکھا تو ان کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہاتھاکہ وہ نواز شریف کو دیکھ رہے ہیں جس کے بارے میں ان کو بتایا گیا تھا کہ مریض کسی وقت مربھی سکتا ہے۔

یقینا ان کے لئے نواز شریف کا یوں پورے نظام وقانون کی موجودگی میں جانا حیرت کا سبب فطری بھی تھا لیکن یہ سب کچھ صرف عدالتوں میں نہیں ہوا تھا۔ اس کے محرک وزیراعظم عمران خان کے ”پیارے“ بھی تھے، وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ کیوں اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں، اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں، یوں وزیراعظم خان کو اتنا بھی حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے تھا جتنا انہوں نے نواز شریف کی لندن روانگی کے بعد ہار دیا تھا۔ مان لیا وہ اب طاقتور حلقوں کے پیارے ہیں لیکن نواز شریف بھی کبھی لاڈلے تھے اور شاید خان سے زیادہ دل لگی تھی۔ اتنی محبتیں تو ناراضگی میں بھی رہ جاتی ہیں کہ علاج کے لئے تو جانے دیاجائے۔

چلو اچھا ہوا وزیراعظم خان کو کسی نے سجھایا یا پھر چیف جسٹس کھوسہ کے جواب سے ہی موصوف کی تسلی ہوگئی اور حکومت کو درپیش چیلنجز کی طرف آگئے۔ ہمارے خیال میں وزیراعظم عمران خان لاہور میں لاہوریوں کی زندگیوں کو دریپش خطرات کی طرف دیر سے آئے ہیں لیکن پھر بھی کہا جاسکتاہے کہ دیر آئے درست آئے لیکن ان کے لاہور کے اقدامات کے اعلانات سے میری تسلی نہیں ہوئی اور نہ ہی لاہوریوں کی ہوئی ہے جیسے لاہور کی معروف صحافی ورداسلیم نے اس حوالے سے ردعمل میں کہا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سموگ کے خاتمہ کے لئے پٹرول، ڈیزل پر پبلک ٹرانسپورٹ چلانے پر پابندی ہوگی، آئندہ جو بھی نئی پبلک ٹرانسپورٹ ہائی برڈ ہوگی، سی این جی اوز بجلی کے ذریعے چلائی جائے گی، لاہور میں 60 ہزار کنال پر جنگلات لگائے جائیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ اقدامات لاہور کی زندگی کو سانس دینے کے لئے فی طورپر کچھ ریلیف دے دیں لیکن مستقل حل کے لئے لاہور کو اور ریلیف دینا ہوگا۔ جیسے میں نے عرض کیا تھا کہ تھل سات اضلاع خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ، جھنگ اور چینوٹ کے لوگ بڑی تعداد میں لاہور آکر اس لیے آباد ہورہے ہیں کہ تھل کے ان سات اضلاع میں لاہور کے مقابلے میں زندگی جنگل جیسی ہے۔

مثال کے طورپر تھل کے سات اضلاع میں اسوقت تک مطلب جب قیام پاکستان کو بہتر سال ہونیوالے ہیں ایک بھی میڈیکل کالج نہیں ہے،  ڈینیٹل کالج نہیں ہے،  پنجاب یونیورسٹی جیسی یونیورسٹی جیسا ادارہ نہیں ہے، پورے تھل میں وویمن یونیورسٹی نہیں ہے، انجئنیرنگ نیورسٹی نہیں ہے، تھل کے سات اضلاع میں  ائرپورٹ تک نہیں ہے، انڈسٹریل اسٹیٹ نہیں ہے۔ زرعی یونیورسٹی نہیں ہے،  ٹیچنگ ہسپتال نہیں ہے،ڈویثرنل ہیڈکوارٹر نہیں ہے،ہائی کورٹ کا بنچ نہیں ہے، پورے تھل میں ایک ٹیکنالوجی کالج نہیں ہے، وویمن ٹیکنیکل کالج نہیں ہے،  موٹروے نہیں ہے، بلکہ ایم ایم روڈ قاتل روڈ کی شکل اخیتار کرچکاہے، پورے تھل میں کرکٹ اور ہاکی اسٹیڈیم بھی نہیں ہے۔

تھل کے سات اضلاع میں ملتان اور بہاولپور کی طرح کوئی ریڈیوپاکستان اور پاکستان ٹیلی ویثرن کا سنیٹر نہیں ہے۔ تھل میں روزگار ناپید ہے۔ تھل میں نظام حکومت بری طرح عام آدی کو دیوار کے ساتھ لگا رہا ہے۔ اس صورتحال کے شکار تھل کے سات اضلاع کے لوگوں کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتاہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولتوں کے لئے جنگل جیسے علاقہ تھل سے نکال کر لاہور لے جائیں جہاں ریاست اور حکومت سب کچھ یوں دینے پر بضد تھی اور ہے۔ مثال کے طوپر لاہور ضلع میں اسوقت تک 26 میڈیکل کالجز ہیں اور اسی طرح 26 ٹٰخیچنگ ہسپتال ہیں، اور کیا لکھوں انجئینرنگ یونیورسٹی سے لے کر وہ سب کچھ جوکہ ایک ترقی یافتہ علاقے میں ہونا چاہیے۔

مطلب پنجاب کے سارے وسائل لاہور پر خرچ کیے جارہے ہیں۔ بات لمبی ہوجائے گی لیکن مختصر کرتاہوں، مزید لاہور کے بارے میں اگلے کسی کالم میں لکھوں گا۔ لاہور اور پھر تھل کی صورتحال سے آپ کو آگاہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لاہور کو اگر آبادی، آلودگی اور سموگ سمیت دیگر خطرات سے بچانا ہے تو اس کا ایک راستہ ہے، وہ یہ ہے کہ تھل کے سات اضلاع خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ، جھنگ اور چینوٹ میں جتنا جلدی ممکن ہے، تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولتیں دی جائیں۔

یہاں فوری طورپر میڈیکل کالجز، زرعی و انجئیرنگ یونیورسٹٰیاں اور جن دیگر اداروں کا اوپر ذکر کیا ہے، ان کا قیام فوری کیاجائے۔ وگرنہ جتنے بڑے پیمانے پر یہاں سے ہجرت کرکے لوگ لاہور جارہے ہیں وزیراعظم عمران خان جو بھی عارضی اقدامات کریں گے، وہ بڑھتی آبادی کھا جائے گی۔ اور لاہور کی زندگی اسی طرح موت کے قریب ہوتی جائے گی۔ اور عرض یہ بھی کرنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان، اور ان کے وسیم اکرم پلس اپنے پیاروں سے مشاورت کے بعد لاہور کو فوری طور صوبہ بنانے کا اعلان کریں، یہ لاہور اور لاہوریوں پر احسان ہوگا، اسوقت لاہور کے ایشوز پنجاب کے دیگر علاقوں سے بڑھ گئے ہیں، زندگی رک گئی ہے، لاہور جتنا آگے چلا گیا ہے اس کو اس کے لیول کے مطابق توجہ بھی درکار ہے جوکہ صرف لاہور کو صوبائی حیثٰت دینے سے مل سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).