بے مکانی کے طمانچے اور سیاسی پرائم ٹائم


لاہور جیسے شہر میں سفر کرتے ہوئے ایک بات خاص طور پر نوٹ کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ گرمی ہو یا سردی آپ کو میٹرو بس سروس کے روٹ کے نیچے کئی افراد شور و غل سے بے نیاز سوئے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان میں نشئی بھی ہو سکتے ہیں۔ بھٹکے ہوئے ہوئے بھی، مسافر بھی اور بے گھر افراد بھی موجود ہیں۔ آپ کو ان میں ہر عمر کے مرد و زن کے علاؤہ بچوّں کی بھی ایک بڑی تعداد نظر آئے گی۔ کہیں گھر کی بھوک سے ستائے ہوئے تو کہیں باپ کی مار پیٹ سے نالاں۔ کبھی یہ فٹ پاتھ اور کے آباد کار ڈراموں اور فلموں کے کردار ہوا کرتے تھے۔ جو راتوں کے مسائل اور آلام کو دن کے اجالے میں اپنی مزاحیہ حرکتوں سے بھر دیا کرتے تھے۔

کچھ برس قبل ”دی پریسیوٹ آف ہیپی نیس“ نامی ایک فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا، حقیقی زندگی کی کہانی سے متاثر ہوکر بنائی جانے والی یہ فلم حالیہ برسوں کی چند متاثر کن فلموں میں سے ایک ہے۔ ول اسمتھ نے ایسے تنہا شخص کا کردار ادا کیا ہے جو اپنے بیٹے کی پرورش کرتے ہوئے طبی آلات فروخت کرتا ہے۔ مگر مالی حالت اتنی خستہ ہوتی ہے کہ وہ دونوں بس اسٹیشن کے باتھ رومز اور بے گھر افراد کے شیلٹر میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

زندگی کے اس مشکل سفر میں وہ کبھی ہار نہیں مانتا اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے پرعزم کھڑا رہتا ہے، اس شخص کی زندگی کی مشکلات کو عبور کرنے کی یہ کہانی کسی کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔ مگر ایسی کہانیاں صرف پردہ اسکرین کے لیے بنتی ہیں۔ حقیقی زندگی میں بہت ہی کم افراد فلموں، تھیٹر اور ڈراموں سے متاثر ہوتے ہیں، خاص طور پر غربت کے مارے معاشروں میں فلم صرف تفریحی کا ذریعہ ہے۔

دوسری جانب ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 22 کروڑ آبادی میں سے 1 کروڑ افراد گھر کی سہولت سے محروم ہیں اور ہر سال 7 لاکھ افراد بے گھر افراد کی لسٹ میں شامل ہو رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 3 لاکھ 50 ہزار رہائشی یونٹ تعمیر کیے جاتے ہیں جو مجوزہ ضروریات کے لئے ناکافی ہیں۔ جبکہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں کرپشن اور منی لانڈرنگ سے کمائے گئے سرمایہ کی آمدن سے پاکستان میں گھروں کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوچکی ہیں۔

کمرشل بینکوں نے گھروں کی تعمیر کے لئے 75 ارب روپے سے زائدکے قرضے جاری کیے ہیں لیکن یہ قرضے غریبوں کی بجائے امیر طبقہ نے حاصل کر رکھے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں 11 لاکھ افراد گھروں سے محروم ہیں اور کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گھروں کی محدود سہولتوں کی وجہ حکومت کی ناقص پالیسیاں ہیں۔

روٹی، کپڑا اور مکان، انسانی کی بنیادی ضرورت ہے، جس کے لیے وہ اپنی زمین پر رہتے ہوئے کوشش کرتا ہے، تاہم حالات بہتر بنانے کے لیے وہ پھر ہجرت کا دکھ اٹھاتا ہے۔ رزق کی تلاش میں نکلتا ہے اور یہ لازم نہیں کہ بڑے شہروں کا رخ کرنے والے تمام افراد کوچھت بھی ملے، ٹھکانہ تو بنانا ہی ہے تو فٹ پاتھ ہی کیوں نہ، جہاں نہ بجلی، گیس پانی کا بل بھرنا ہے اور نہ ہی فرعون جیسے مالک مکانوں کے عذاب بھگتنا ہیں ایک بستر، دو جوڑے اورفٹ پاتھ کی دنیا اور کسی کے پاس تو یہ بھی نہیں ہے۔ گرمی، سردی، دھوپ ہو وہیں تھک کر سو جاتا ہے۔ نہ ٹریفک کے شور کی پرواہ اور نہ ہی کسی کے آنے جانے کی۔ بارش ہو جائے تو کسی سائے میں جا بیٹھے۔ ان کے دکھ بولتے ہیں، بس سننے والے کان نہیں، چہر ے پڑھنے والی آنکھیں نہیں۔

جب کوئی بچہ کم عمری میں ہی اپنوں کی شفقت سے محروم ہو جائے، اور کہیں بڑھاپا بوجھ بن جائے تو پھر کہاں کا گھر، کیسا تحفظ اور کیسی دعائیں تب بڑے شہروں کی اندھیری گلیاں اور راتوں کو سنسنان فٹ پاتھ ہی ان بے گھروں کا مقدر بن جاتے ہیں۔ سماجی شعور سے ناپید معاشروں میں بے گھری ایک ایسا دکھ ہے جیسے احاطہ تحریر میں لانا بہت جان لیوا عمل ہے۔ غربت نا ختم ہونے والے عذابوں کا وہ پیراہن ہے جسے اتارنے کے لیے جرائم کی تاریک اور عریاں وادی میں اترنے والوں کا مقدر بھی دربدری اور فٹ پاتھ کی زندگی ہے۔

گھروں سے بے گھر ہونے والے اور آوارگی کی زندگی گزارنے والے فٹ پاتھوں پر رہنے والے بچے بھی آج کی جدیدیت کے منہ پر ایک ایسا طمانچہ ہیں جس کی گونج ہر ملک کی معاشرتی زندگی میں سنائی تو دیتی ہے مگر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ یہ فٹ پاتھوں کے باسی، یہ بے گھر بچے، یہ عمر کے آخری حصے کے بوڑھے مسافر یاآسمان سے تو نہیں اُترتے بلکہ اپنوں کی جدائی، بے حسّی یا بے غیرتی ان کو اندھیری گلیوں اور سنسان راتوں کے فٹ پاتھوں کا مکین بناتی ہے۔ بہت کم دیکھا گیا ہے ان بچوں کو گھر بناتے ہوئے یا بڑے ہوتے ہوئے۔ بہت سی مجبوریوں کے تحت ایک بڑی مخلوق کے حصے میں بے گھری آتی ہے۔

عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں دس کروڑ سے زائد لوگ رات کو سڑک کنارے اور پارکوں میں کھلے آسمان تلے سوتے ہیں۔ ایک ارب سے زائد لوگوں کو گھر کی مناسب سہولت ہی میسر نہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد بھارتیوں کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت میں سات کروڑ اسی لاکھ افراد بے گھر ہیں۔ پاکستان میں بے گھر افراد کی تعداد تیس لاکھ تک پہنچ گئی ہے جن کی اکثریت بڑے شہروں میں پائی جاتی ہے۔ لاہور اور کراچی میں پانچ پانچ لاکھ افراد کو گھر کی سہولت میسر نہیں۔ ملک میں ڈھائی کروڑ سے زائد افراد کچی آبادیوں میں رہتے ہیں۔

ترقی پذیر ممالک کے سیاسی اور سماجی نظام بھی اپنی زمین کے ان چلتے پھرتے مسائل کو حل کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ ہم جیسے سبھی ممالک کا سب سے بڑا المیہ بھوک اور غربت سے زیادہ بھوکے اور لیٹرے سیاست دان اور حکمران اور ان کی اندھی عقیدت میں گرفتارعوام ہیں جو ان کے غلط کو غلط ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے دانشور بھی سماجی مسائل کو فوقیت نہیں دیتے۔ ان کی روزی روٹی طاقت ور کے آستاں سے بندھی ہے۔ ہمارے تمام چینلز کے پرائم ٹائم کو دیکھ لیں، ٹاپ اسٹوریز میں سیاست کے رولے اورشوبز کے ماتم ہی ملیں گے۔ ان کے نزدیک یہ وقت عوامی مسائل پر نہیں بکتا اس کے لیے سیاسی مخالفین کی محفل سجانا پڑتی ہے۔ ان کو آپس میں الجھا کر پروگرام کوجو ریٹنگ ملتی ہے وہ سماج کے عریاں دکھ سنا کرنہیں مل سکتی۔

تاریخ کے چکر میں وہ موڑ نہیں آتا

جب شاد مکیں ہوں گے آباد نگر ہو گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).