خانہ خدا اور میں


سفر مدینہ کے بعد میری یہ تحریر اس سفر کی روداد ہے جو ہر مسلمان کا خواب ہوتا ہے۔

سفر مکہ، عمرہ کی ادائیگی کے لئے اللہ کے گھر کی حاضری۔

مسجد نبوی میں نماز جمعہ کے بعد ہمیں مکہ کے لئے روانہ ہونا تھا۔ مسجد سے ہوٹل پہنچ کر ہم نے آ گے سفر کی تیاری کی۔ میرا بیٹا صائم احرام پہن کر آ یا تو بہت پیارا لگ رہا تھا احرام کی ان سلی چادروں کو سنبھالنے اور جسم کو ڈھانپنے کی کوشش میں وہ خاصا پریشان ہورہا تھا۔ قریباً 3 بجے ہم نے سفر کا آ غا ز کیا مسجد ذوالحلیفہ میں دو رکعت نوافل ادا کر کے عمرہ کی نیت کی۔ تھوڑا آ گے پہنچے تو ایک جگہ رکنا پڑا ڈرائیور ہمارے ویزا کی کاپیاں اور اپنا اقامہ لے کر چیکنگ کروانے کے لیا گیا ہم سب گھبراگئے کہ نہ جانے کیوں روکا کتنی دیر لگے گی لیکن خیر یہ مرحلہ بھی طے ہو گیا۔

سفر دوبارہ شروع ہوا بھائی کی فرمائش پر گاڑی میں یوسف میمن کی نعت کی آ واز گونجنے لگی۔ عجیب سا ماحول اور کیفیت تھی آ گے جانے کا شوق اور پیچھے جانے کی خواہش۔ میری بند آ نکھوں سے آ نسو بہ رہے تھے اپنی کیفیت سے میں خود بے خبر تھی۔ ڈرائیور نے بتایا کہ نماز کے وقت حرم کے اطراف کے راستے بند کر دیے جاتے ہیں کیونکہ روڈز پر بھی صفیں لگ جاتی ہیں پس ہوٹل پہنچنے، پارکنگ اور چیک ان کے مراحل سے گزر کر کمرے میں داخل ہونے تک رات کے دس بج چکے تھے۔

سب تھک گئے تھے اس لئے سامان رکھ کر تھوڑا فریش ہوکر پھر حرم جانے کا ارادہ تھا۔ میں نے چھوٹی بہن اور بھائی سے کہا کہ پہلے وہ جاکر الیکٹرک چئیر کا معلوم کر لیں اس لئے کہ مجھے آ نے سے پہلے یہی بتایا گیا تھا کہ وہئیل چئیر کو صحن کعبہ میں اجازت نہیں ملتی اوپر سے ہی طواف کرنا ہوگا اور اس کے لئے چیئرز وہاں موجود ہوگی تھوڑی دیر میں وہ دونوں ناکام لوٹ آئے کہ زبان کی وجہ سے اس بارے میں معلومات نہ ہوسکی کہنے لگے یار آ پ چلو دیکھتے ہے پھر کیا کرنا ہے۔

ہم ہوٹل سے باہر آ ئے رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے لیکن مسجد کے اطراف کی گہما گہمی سے چاند رات کا سماں دکھائی دے رہا تھا۔ مسجد میں دعا پڑھ کر داخل ہوئے آ نے سے پہلے کی وہ تمام باتیں کہ نظر جھکا کر ادب سے جانا ہے جیسے ہی پہلی نظر کعبہ پر پڑے دعا مانگنا وہ دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ صائم میری وہیل چئیر چلا رہا تھا میرا سر جھکا ہوا تھا۔ تھوڑا آ گے جا کر اس نے میری چئیر ایک باؤنڈری کے ساتھ لگا دی۔

اور میرا سر سیدھا کیا میری نظروں کے سامنے کعبتہ اللہ اپنی تمام خوب صورتی اور عظمت کے ساتھ موجود تھا میری زبان پر وہ تمام دعائیں آ گئیں جو مجھے ازبر تھیں پاکستان میں میں نے کبھی صائم کو اتنے انہماک سے دعا مانگتے نہیں دیکھا تھا دعا کے بعد صحن کعبہ میں جانے کے لئے مختلف جگہوں پر سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں میری خوش قسمتی کہ شاید رش کم ہونے کی وجہ سے گارڈز نے مجھے نیچے جانے سے نہیں روکا۔ ایک خوب صورت احساس تھا کہ آ ج میں بھی وہاں ہوں جس کی لوگ برسوں تمنا کرتے ہیں اور آ ج ایک طویل انتظار کے بعد مجھے یہ سعادت نصیب ہوئی۔

دوسرا مرحلہ طواف کا تھا جو حجر اسود سے شروع کر نا تھا ہم سب نے فیصلہ کیا کہ طواف کے اختتام پر سب ان سبز لائٹس کے پاس ملیں گے جو صحن میں حجر اسود کی سیدھ میں لگائی گئی ہیں طواف کے ہر چکر پر صائم حجر اسود کے سامنے میرا ہاتھ اٹھا کر بوسہ کرواتا اپنی احرام کی چادر کو سنبھالے میرا سر اپنے اوبر ٹکائے ہوئے تھکن کے باوجود وہ بہت ہمت اور شوق سے چئیر کو چلا رہا تھا کیا بات ہے اس گھر اور مقام کی کہ ہمارے بچے جو گھر پر ہوتے ہیں تو اکثر نماز، روزہ اور تلاوت کے لئے ان کا رویہ لا ابالی دکھتا ہے اتنے ذوق و شوق سے سب کرتے ہیں کہ اپنے رب کی عظمت و قدرت اور اسلام دین فطرت ہر یقین اور پختہ ہو جاتا ہے۔

طواف کے بعد نوافل ادا کیے، آ ب زمزم پیا اور سعی کے لیے جلے۔ رات کے تین بجنے والے تھے مقام سعی پر خاصی ٹھنڈک تھی ہر چکر مکمل کرنے کے بعد رک کر دعا کرنی تھی صائم کے چہرے سے تھکن ظاہر تھی اور آ ج اس ماحول میں مجھے اپنے بیٹے کی تھکن دیکھ کر یہ خیال آ رہا تھا کہ وہ کیا عالم ہوگا جب بی بی ہاجرہ صحرا کی گرمی اور ویرانی میں کھلے آسمان تلے اپنے بیارے بیٹے کو چھوڑ کر پانی کی تلاش میں ان پہاڑیوں کے درمیان چکر لگا رہی تھیں پھر اللّٰہ کی رحمت کو جوش آ نا ہی تھا۔

اس رکن کی ادائیگی کے بعد یہ دعا کہ اللہ اس کوشش کو قبول فرمائیں اور سب کو یہ سعادت نصیب ہو۔ اگلے دن دوپہر میں جدہ میں مقیم کزن کا ہوٹل آ نے کا پیغام موجود تھا وہ میزبانی کے تمام لوازمات کے ساتھ آ کر ملیں رات کو جب دوبارہ حرم جارہے تو صائم نے ایک سوال کیا کہ جب میں دوبارہ یہاں آ ؤں گا تو کیا وہ پھر میری پہلی نظر ہوگی۔ کتنا معصوم سوال اود نہ جانے کون سی معصوم خواہش۔ ہم۔ سب نے نفلی طواف ادا کیا صائم مجھے ایک طرف چھوڑ کر حجر اسود کو بوسہ دینے کے لئے اس بھیڑ میں داخل ہو گیا

یہ ایک مشکل مرحلہ تھا کچھ دیر بعد وہ خوشی سے بھرپور تمتماتے چہرے کے ساتھ واپس آ یا اور سب کو پیار کیا۔ حجر اسود کو بوسہ دینا۔ حطیم میں نوافل پڑھنا، رکن یمانی، ملتزم اور غلاف کعبہ کو چھونا وہ اعمال جو عقیدت اور محبت سے کرنے کی کوشش ہر ایک کی خواہش۔ دو دن بعد واپسی کا سفر تھا اور اب میری خواہش اس دعا میں بدل چکی تھی کہ اللّٰہ میرے بیٹے کو اس قابل بنائے اتنی صحت عطا ہو کہ میں پورے اہتمام و آ داب کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کروں آ مین۔

صائمہ خان، کراچی
Latest posts by صائمہ خان، کراچی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).