بی آر ٹی پشاور: پشاور ہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں ایف آئی اے کو انکوائری کرنے کی ہدایت، صوبائی حکومت کا سپریم کورٹ میں اپیل کرنے پر غور


بی آر ٹی منصوبہ

پشاور میں بی آر ٹی منصوبے پر کام 2017 میں شروع کیا گیا اور اسے چھ ماہ میں مکمل ہونا تھا

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت پشاور بی آر ٹی سے متعلق ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے پر غور کر رہی ہے۔

پشاور ہائی کورٹ نے چند روز پہلے بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کے بارے میں دائر پیٹیشن پر تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا جس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے کہا گیا ہے کہ وہ 45 روز میں اس منصوبے کی انکوائری مکمل کرے اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی عمل میں لائے۔

صوبائی حکومت کے ترجمان اجمل وزیر نے بی بی سی کو بتایا کہ صوبائی حکومت کے قانونی ماہر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لے رہے ہیں اور ’سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا اختیار استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘

اجمل وزیر نے کہا کہ اس منصوبے پر کام جاری ہے اور حکومت کی کوشش ہے کہ یہ جلد سے جلد مکمل ہو جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا تو اگر اس میں کچھ کمی ہوئی تو وہ احتساب کے اداروں کو خوش آمدید کہیں گے کہ وہ اس کا مکمل طور پر جائزہ لیں۔

یہ بھی پڑھیے

پی ٹی آئی کا پشاور بس منصوبہ تاخیر کا شکار کیوں؟

نیب کو پشاور بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات کا حکم

بی آر ٹی منصوبے میں مزید نقائص سامنے آ گئے؟

بس

پشاور بی آر ٹی دیگر میٹرو منصوبوں سے مختلف کیسے؟

صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ لاہور کی میٹرو بس سے مختلف ہے۔

بی آر ٹی پشاور کو سات فیڈر روٹس سے منسلک کیا گیا ہے۔ اس میں حیات آباد کے تین، کوہاٹ چونگی، ورسک روڈ، چارسدہ روڈ اور باڑہ روڈ کے ایک ایک روٹ شامل ہیں۔

اجمل وزیر کے مطابق مین روٹ کے لیے 60 بسیں مختص کی گئی ہیں جبکہ 128 بسیں آف کوریڈور ہیں جو ان سات فیڈر روٹس سے مسافروں کو مین روٹ تک لائیں گی۔

بی آر ٹی منصوبہ

پشاور بی آر ٹی کے مکمل نہ ہونے کی وجہ سے پشاور کے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے (فائل فوٹو)

فیصلے میں کیا کہا گیا ہے؟

چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے تفصیلی فیصلے میں بی آر ٹی منصوبے پر متعدد سوالات اٹھائے ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اتنی خطیر رقم صرف ایک شہر میں خرچ کر دی ہے اور باقی شہروں کے لوگوں کو اس سے محروم رکھا گیا ہے۔ بی آر ٹی منصوبے نے چھ ماہ میں مکمل ہونا تھا لیکن دو سال سے زیادہ گزرنے کے باوجود اب تک منصوبے کی تکمیل کی کوئی حتمی تاریخ نہیں بتائی گئی۔

جولائی 2018 کے فیصلے میں بھی کہا گیا تھا کہ ابتدائی طور پر یہ منصوبہ 49 اعشاریہ 3 بلین روپے میں مکمل ہونا تھا اور بعد میں یہ 67 اعشاریہ 9 بلین روپے تک پہنچ گیا ہے۔

عدالت کے اس فیصلے میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ ٹرانس پشاور کے چیف ایگزیکٹو کو عہدے سے کیوں ہٹایا گیا تھا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت نے منصوبہ بندی کے بغیر پراجیکٹ شروع کیا اور تعمیراتی کمپنی مقبول کولسنز کو یہ ٹھیکہ دیا گیا جو پنجاب میں پہلے سے بلیک لسٹ تھی۔

اس سے پہلے پشاور ہائی کورٹ نے جولائی 2018 میں ایک مقدمے کی سماعت کے بعد تفصیلی فیصلے میں قومی احتساب بیورو سے کہا تھا کہ اس منصوبے کی بارے میں مکمل تحقیقات کریں کیونکہ اس منصوبے میں کمزوریاں نظر آتی ہیں۔ اس فیصلے میں بھی مقبول کولسنز کا ذکر تھا کہ یہ بلیک لسٹڈ کمپنی ہے۔

تاہم صوبائی حکومت کے ترجمان اجمل خان وزیر نے کہا کہ پنجاب میں بلیک لسٹ کمپنی مقبول کولسنز کو ٹھیکے کی منظوری کے لیے ایشین ڈیویلپمنٹ بینک (اے ڈی بی) کے بین الاقوامی کنسلٹنٹس نے منطور دی تھی۔ اس کے علاوہ اس منصوبے کی نگرانی بھی اے ڈی بی اور صوبائی حکومت کے ادارے کرتے ہیں جبکہ ٹھیکیدار کو ادائیگی اے ڈی بی سے براہ راست ہوتی ہے اور یہ ادائیگی باقاعدہ چیکنگ کے بعد کی جاتی ہے۔

درخواست میں کیا تھا؟

یہ معاملہ پشاور ہائی کورٹ کے سامنے لانے والے ایک شہری عدنان آفریدی نے کہا تھا کہ بی آر ٹی منصوبے کا سٹیشن ان کے گھر کے بالکل سامنے تعمیر کیا گیا ہے جس سے ان کی نجی زندگی متاثر ہوئی ہے۔

انھوں نے درخواست میں کہا تھا کہ اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نکالا جائے۔ اس منصوبے کے حوالے سے دیگر افراد نے بھی عدالت میں درخواستیں دی تھیں۔

اس کے علاوہ ایک اور درخواست گزار عیسیٰ خان نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ تہکال کے علاقے میں انڈر پاسز اور پل دور دور بنائے گئے ہیں جس کی وجہ سے پیدل چلنے والے افراد کے لیے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

خیال رہے کہ بی آر ٹی منصوبہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی حکومت میں شروع کیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر حکومت کی طرف سے اس پراجیکٹ کو چھ ماہ میں مکمل کرنے کا دعویٰ کیا گیا لیکن ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود بھی یہ منصوبہ بدستور التوا کا شکار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp