مجھے نہیں معلوم اس دن کتنے لوگوں نے مجھے ریپ کیا: 19 سالہ برطانوی لڑکی سے 12 اسرائیلی مردوں کی اجتماعی زیادتی


سیاحت کے لیے قبرص جانے والی  19 سالہ برطانوی لڑکی کو 12 اسرائیلی مردوں نے ہوٹل کے کمرے میں گھس کر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ میل آن لائن کے مطابق لڑکی اپنے ساتھ ہونے والی اس بربریت پر پولیس کے پاس گئی لیکن پولیس نے تفتیش کے بعد اس لڑکی کو ہی جھوٹا قرار دے دیا اور اسرائیلی مردوں پر جھوٹا الزام لگانے کے الزام میں لڑکی ہی کے خلاف مقدمہ درج کر لیا اور اسے قبرص کے شہر فیماگسٹا کی عدالت میں پیش کر دیا ۔

رپورٹ کے مطابق اجتماعی زیادتی کی شکار لڑکی گزشتہ روز ملزم بن کر پہلی بارعدالت میں پیش ہوئی جہاں اس نے بتایا کہ وہ ’عیا نیپا ہوٹل‘ کے کمرے میں موجود تھی کہ 12مرد اندر گھس آئے اور اسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ لڑکی نے روتے ہوئے بتایا کہ ”میں زندگی میں کبھی اتنی خوفزدہ نہیں ہوئی تھی جتنی اس رات ہوئی۔ میں مسلسل چیخنے چلانے کی کوشش کرتی رہی لیکن ان لوگوں نے ہاتھ سے میرا منہ بند کیے رکھا۔ اس بربریت کے دوران میں دو بار بے ہوش ہوئی۔ “

لڑکی نے بتایا کہ ”قبرص آنے کے بعد میری 21 سالہ اسرائیلی نوجوان سام کے ساتھ دوستی ہو گئی اور رات کو میں نے اسے اپنے ہوٹل روم میں بلا لیا۔ ہم کمرے میں جنسی تعلق قائم کرنے لگے تو اس کے 11 دوست اندر گھس آئے۔ میں نے چیخ کر کہا کہ میں ایسا نہیں کروں گی، تم باہر نکل جاﺅ۔ اس پر سام نے انہیں باہر جانے کو کہا۔ وہ چند سیکنڈز کے لیے باہر گئے۔ اس دوران سام نے مجھے پوری طرح جکڑ لیا اور پھر اس کے دوست دوبارہ اندر آ گئے۔ اس کے بعد مجھے نہیں معلوم کہ ان میں سے کتنوں نے مجھے زیادتی کا نشانہ بنایا۔“

رپورٹ کے مطابق دوران سماعت جج نے لڑکی کو ’ناقابل اعتماد گواہ‘ قرار دے دیا اور اسے کہا کہ وہ ثبوت پیش کرے کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہی۔ عدالت میں لڑکی کے وکلاء نے بتایا کہ پولیس نے زبردستی لڑکی کو اپنی درخواست واپس لینے پر مجبور کیا اور جب اس نے درخواست واپس لے لی تو جھوٹ بولنے اور پولیس کو گمراہ کرنے کے الزامات کے تحت اسی کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ رپورٹ کے مطابق ملزمان کا موقف ہے کہ انہوں نے لڑکی کی رضامندی کے ساتھ اس سے جنسی تعلق قائم کیا۔

https://www.telegraph.co.uk/news/2019/12/03/british-teenager-describes-cyprus-court-gang-raped-assault/


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).