مستونگ کے 68 سالہ نابینا اخبار فروش محمد عیسیٰ: ’جب فون پر اخبار مفت ہے تو کوئی اخبار کیوں خریدے گا؟‘


ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں لوگ اخبار کا انتظار کرتے تھے اور اسے حاصل کرنے کے لیے قطاریں لگتی تھیں، لیکن اب وہ وقت آگیا ہے کہ اخبار لوگوں کا انتظار کرتا ہے۔

یہ کہنا ہے 68 سالہ محمد عیسیٰ کا جنھوں نے اخبارات کے عروج و زوال کو اپنی آنکھوں سے تو نہیں دیکھا لیکن اسے محسوس ضرور کیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انھوں نے سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مصداق اخبارات کی عروج سے زوال تک کی کہانی ایک مختصر جملے میں بیان کی۔

شاید آپ سوچ رہے ہوں کہ 68 سال کے ہونے کے باوجود انھوں نے اخبار کا عروج و زوال کیوں نہیں دیکھا۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بصارت سے محروم ہیں، لیکن اسے محسوس اس لیے کیا کیونکہ وہ 30 سال سے زائد کے عرصے سے اخبار کے ہاکر ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان کی نابینا خواتین کرکٹ کے میدان کے لیے تیار

‘تم نابینا ہو، تم کچھ بھی نہیں کر سکتے’

وہ لڑکا جسے نابینا بھکاریوں کو راستہ دکھانے کے لیے اغوا کیا گیا

محمد عیسیٰ کون ہیں؟

محمد عیسیٰ کا تعلق کوئٹہ سے 50 کلومیٹر دور مستونگ سے ہے۔

عام تاثر ہے کہ عمر کے بارے میں پوچھنے پر خواتین ہچکچاتی ہیں لیکن جب یہی سوال محمد عیسیٰ سے پوچھا گیا تو انھوں مزاحیہ انداز میں برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک مشکل سوال ہے۔

اگرچہ انھیں ان کی تاریخ پیدائش معلوم نہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کے شناختی کارڈ پر 1951 درج ہے۔

وہ بصارت سے محروم ہیں لیکن وہ پیدائشی طور نابینا نہیں تھے بلکہ بچپن میں کسی بیماری کی وجہ سے ان کی دونوں آنکھوں کی بینائی چلی گئی۔

انھوں نے شادی کی لیکن ایک بیٹے کی پیدائش کے بعد ان کی بیوی فوت ہوگئی۔

ان کے والد بوڑھے تھے اور ان کے بڑے بھائی بھی فوت ہو گئے تھے۔ چنانچہ روزگار کا کوئی ذریعہ نہ ہونے اور بھائی کی وفات کے بعد بڑے بیٹے ہونے کی وجہ سے والد، بیٹے اور چار بہن بھائیوں کی کفالت کا بوجھ محمد عیسیٰ کے کندھوں پر آگیا۔

ان کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ نابینا ہونے کے باعث کوئی کام نہیں کرسکتے تھے، اس لیے وہ مستونگ بازار جاتے تھے جہاں لوگ ان کی مدد کیا کرتے تھے۔

محمد عیسیٰ، نابینا اخبار فروش، پاکستان، بلوچستان، کوئٹہ

بصارت سے محروم محمد عیسیٰ 30سال سے زائد کے عرصے سے اخبار کے ہاکر ہیں

محمد عیسیٰ اخبار کے ہاکر کیسے بنے؟

محمد عیسیٰ نے بتایا کہ سابق آمر ضیاء الحق کے دور میں حکومت کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ جو بھی بھیک مانگے گا اسے گرفتار کیا جائے گا۔

چونکہ بازار میں لوگ ان کی مدد کرتے تھے، اس لیے وہ پریشان ہوگئے کہ انھیں بھی اس بنیاد پر گرفتار نہ کر لیا جائے۔

ایک دن وہ بس اڈے پر اس پریشانی میں بیٹھے تھے کہ اب ان کے بوڑھے والد اور چار چھوٹے بہن بھائیوں کا کیا ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ اسی پریشانی کے درمیان ایک دن ایک شخص ان کو اڈے سے گاڑی میں بٹھا کر کوئٹہ میں فاطمہ جناح روڈ پر رحمان نیوز ایجنسی لے آیا اور ایجنسی کے مالک عنایت اللہ کے پاس میرے لیے پیسے بطور ضمانت رکھے اور ان کو کہا کہ ان کو ان پیسوں کے بدلے میں اخبار دو۔

یوں انھوں نے 1988 کے اوائل سے اخبار فروخت کرنے شروع کیے۔

سنہ 1988 سے لے کر اب تک محمد عیسیٰ کی زندگی کا یہ معمول ہے کہ وہ صبح سویرے اپنے گھر سے نکلتے ہیں اور شام کو واپس جاتے ہیں۔

چونکہ ان کا گھر مستونگ شہر سے باہر ہے اس لیے ان کے گاﺅں کا ایک شخص اپنی گاڑی میں انھیں اڈے تک چھوڑتا ہے جس کے بعد وہ ہر روز شہر کے مرکز میں اس مقام تک ایک طویل فاصلہ طے کرتے ہیں جہاں سے انھیں اخبار ملتے ہیں۔

رہنمائی کے لیے ان کی چھڑی کے سڑک پر لگنے کی وجہ سے جو آواز پیدا ہوتی ہے، 30 سال سے زائد کے عرصے سے اس کی گونج ان سڑکوں پر صبح سنائی دینے والی سب سے پہلے آواز ہوتی ہے۔

محمد عیسیٰ، نابینا اخبار فروش، پاکستان، بلوچستان، کوئٹہ

محمد عیسیٰ اخبار فروشی کر کے اپنے بہن بھائیوں اور اپنے بیٹے کو تعلیم دلوا چکے ہیں

پاکستان میں اخبارات کا عروج و زوال

جب 1988 میں محمد عیسیٰ نے اخبارات فروخت کرنے شروع کیے تو اُس وقت پاکستان میں اخبارات معلومات کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس وقت وہ روزانہ 300 سے 400 اخبارات فروخت کرتے تھے جس سے ان کی اچھی خاصی آمدنی ہوتی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ چند سال سے اخبارات کی فروخت میں بہت زیادہ کمی آئی ہے اور اب وہ بمشکل نو اخبار روزانہ ہی فروخت کر پاتے ہیں۔

مگر اخبارات کی فروخت میں انتہائی کمی کے باوجود وہ کئی کئی گھنٹے پیدل چل کر صدائیں لگاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب ’سارا دن پھرو اوراخبار کو ایسے ہاتھ میں پکڑو تب بھی کوئی یہ نہیں پوچھتا ہے کہ یہ کیا ہے۔ اتنا پوچھیں بھی کہ یہ کیا ہے تو ہمارے دل کو تسلی ہوگی۔ ہم اس کے ساتھ کوئی ہنسی مذاق کرے گا اور شکر کرے گا کہ کوئی اخبار کا پوچھ رہا ہے۔‘

محمد عیسیٰ اس بات سے واقف ہیں کہ اخبارات کے زوال کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ ہے۔

چہرے پر مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ انھوں نے استفسار کیا کہ ’جب کسی کو اپنے موبائل فون پر اخبار مفت میں ملے گا تو اس کو کیا ضرورت ہے کہ بیس تیس روپے کا نقصان کر کے اخبار خریدے؟‘

انجمن اتحاد اخبار فروشاں بلوچستان کے سیکریٹری اطلاعات نصیب اللہ کاکڑ بتاتے ہیں کہ پہلے کوئٹہ سے شائع ہونے والے اخبارات کی سرکولیشن 35 ہزار سے زیادہ تھی جبکہ سندھ، پنجاب اور اسلام آباد سے شائع ہوکر آنے والے اخبارات کو ملاکر ان کی تعداد 40 ہزار سے زیادہ ہوتی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ سرکولیشن تقریباً نصف ہوجانے کی وجہ سے کوئٹہ میں 500 ہاکروں میں سے اب بس 250 کے قریب رہ گئے ہیں۔

محمد عیسیٰ، نابینا اخبار فروش، پاکستان، بلوچستان، کوئٹہ

چند سالوں سے اخبارات کی فروخت میں بہت زیادہ کمی آنے کے باعث اب وہ بمشکل نو اخبار روزانہ ہی فروخت کر پاتے ہیں

محمد عیسیٰ کو شکایت کیا ہے؟

وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے بہن بھائیوں اور بیٹے کو پڑھایا کہ وہ پڑھ لکھ کر کوئی سرکاری ملازمت حاصل کریں گے لیکن ایک بہن کو سرکاری نوکری ملی جن کی شادی ہوگئی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ایک بھائی کو عارضی ملازمت ملی جبکہ دوسرا بھائی اور بیٹا بے روزگار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بیٹے اس عمر میں والدین کا سہارا بنتے ہیں مگر ان کے بیٹے کے لیے کئی محمکوں میں ملازمتوں کے لیے درخواستیں دیں لیکن ان کو نوکری نہیں ملی۔

’جو پیسے والے ہیں ان کے بیٹے ملازمت پر لگ جاتے ہیں مگر جن کے پاس پیسہ نہیں ہوتا ان کے بچوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔‘

’خود کو طاقت ور سمجھتا ہوں‘

بینائی سے محرومی اور عمر رسیدہ ہونے کے باوجود اب بھی اپنے گھر کی کفالت کی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’لوگ معذوری کو کمزوری سمجھتے ہیں لیکن میں اللہ کی مہربانی سے اپنے آپ کو طاقت ور سمجھتا ہوں۔ میں نے اپنا کاروبار اپنی مدد آپ کے تحت شروع کیا۔ اسی اخبار کے آمدن سے میں نے اپنے دو بھائیوں اور بہنوں کو پرائیوٹ سکولوں میں پڑھایا۔‘

’اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے، اور اچھے انداز سے اپنے خاندان کی کفالت پر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کروں وہ اتنا کم ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp