غلطی بانجھ نہیں ہوتی، بچے جنتی ہے


زوجہ شاہ حاملہ تھی۔ سارے حمل کے دوران عجیب و غریب مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بچہ شایدزیادہ صحت مند تھا۔ جب بھی حرکت کرتا ایک ٹیس سی اٹھ کرریڑھ کی ہڈی کے راستے سر تک چلی جاتی۔ وہ پریشان اورخوفزدہ بھی تھی۔ وہ کوئی کمزور عورت تھی اور نہ ہی یہ اس کا پہلا حمل تھا۔ اس کے بچے تو حمل سے کود کرآتے اوروہ اسی دن مملکت کے کاموں میں شامل ہو جاتی۔ اب بھی اس نے تین دن سے جاری وضع حمل کی تکالیف کا خاموش طاقت اورزبردست قوت برداشت سے مقابلہ کیا تھا۔ درد کی اذیت ا س کے چہرے کی مسکراہٹ کو گہنا سکی اور نہ ہی اس مشکل وقت میں دل کا خوف اس پر غالب آسکا۔

بہت پہلے کی بات ہے۔

رات کا پچھلا پہر ہے، سناٹا ہی سناٹا ہے۔ دریائے تھیمزکے کنارے بسنے والے شہر، نئے ٹرائے، ”ٹروجا نووا“ میں اندھیرا ہی اندھیرا ہے آج چاند بھی نہیں نکلا۔ ہلکی ہلکی بونداباندی کی دوران زخمی زخمی ہوا بھاری قدموں کے ساتھ پھنکارتی ہوئی مکانوں کے دروازوں کوچھوتی گزرتی جا رہی ہے۔ اپریل کے آخری دن ہیں۔ برف کب کی پگھل گئی ہے۔ آتشدانوں کے شعلے سر دہوتے ہوئے راکھ بنتے جا رہے ہیں۔ چمنیوں سے بھجتے ہوئے دھوئیں کی باریک تھر تھراتی لہریں آسمان کی طرف ابھرتی جا رہی ہیں۔ کمروں میں رچی پر سکون تمازت میں شہر کے باسی گہری نیندسوئے ہوئے ہیں۔

پودوں کی ہری ہری باڑ کے اس پار دریائے تھیمز کی ہمکتی لہروں کے اندر سے روشن گول چھوٹے چھوٹے دیے رونما ہوتے ہیں اور قطار اندر قطارچلتے ہوئے شہر میں داخل ہو جاتے ہیں۔ بغیر آہٹ اور سنسناہٹ کے وہ چلتے ہوئے پورے شہر میں پھیل جاتے ہیں۔ گلیوں، بازاروں، گھروں کے صحنوں، رسوئی خانوں اور دکانوں میں موجود کسی بھی کھانے والی چیز کو وہ روندتے چلے جاتے ہیں۔

صبح لوگ جب اپنے دن کا آغاز کرتے ہیں توپورا شہر سائیں سائیں کر رہا ہوتا ہے۔ لگتا ہی نہیں کہ بہار کا آغاز ہو چکا ہے۔ تمام پھل دارپودے جو پھولوں سے لدے ہوئے تھے، ٹنڈ منڈ نظر آتے ہیں۔ عشق پپیچاں کی بیلیں، جو کی فصلیں اورریٹھے کے درختوں کی نچلی شاخیں بھی اجڑ چکی ہیں۔ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔

کچھ دنوں کے بعدایک اور ایسی ہی ویران، اندھیری گھاتک رات میں دوبارہ تیزی سے جگہ بدلتے چمکدارگول دیے دریا سے برآمد ہوتے ہیں۔ اور اس دن رہی سہی ہریالی بھی ملیا میٹ کر جاتے ہیں۔

بہت سے گھروں کے دروازے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس پر امن شہر میں ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ اب پہرہ داروں کو چوکنا کر دیا گیا۔

پھر حملہ ہوتا ہے۔ پہرے داروں نے دریا کی طرف سے ان کو آتے دیکھ لیا۔ سرخی مائل اونچے اونچے قدکے چو پائے شہر میں داخل ہوئے تو پہرہ داروں نے ان کو روکنے کی کوشش کی لیکن ان کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ یہ سوروں کا انتہائی منظم حملہ تھا۔ جو زخمی ہو جاتا وہ واپس بھاگ جاتا اور اس کی جگہ لینے دوسرے آجاتے۔ کچھ سپاہی بھی زخمی ہوئے۔ جب سارے شہر میں شور مچ گیا تو وہ سب دریا کی طرف واپس چلے گئے کچھ دور تک اس کی کنارے کنارے بھاگتے ہوئے دریا میں چھلانگ لگا دی اور غائب ہو گئے۔

 پھر یہ اکثر ہوتا چلا گیا۔ شہر میں سور گھس آتے اگر مزاحمت زیادہ ہوتی تو اردگرد کی فصلوں میں تباہی مچا کر واپس لوٹ جاتے۔

اس وقت ملک میں گال قوم کے بادشاہ لِیل کی حکومت تھی۔ لِیل جو کہ کنگ ہوڈیبراز کا بیٹا تھا۔ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق یونا نی دیوی وینس اور ٹرائے کے شاہی خاندان سے تھا۔ ٹرائے کی تباہی کے بعد یہ تھیمزکے کنارے آبسے تھے۔

ھوڈیبراز کے دو بیٹے تھے۔ بڑا بیٹا شہزادے بلادد شادی شدہ تھا اور اس کا ایک بیٹا بھی تھا۔ باپ نے بلادد کو فلسفہ اور لبرل آرٹس کی تعلیم حاصل کرنے ایتھنز بھیج دیا۔ وہ وہاں گیارہ سال تک رہا اور ادھر ہی اس نے دوسری شادی بھی کر لی۔

بلادد کی پہلی بیوی رینڈ اس کے بھائی لِیل کو پسند کرتی تھی۔ ایتھنزمیں بلادد کو کوڑھ کا مرض لاحق ہو گیا۔ اس نے اپنے مرض کو سب سے چھپا کر رکھا۔ جب وہ واپس آیا تو کنگ ہوڈیبراز نے اسے امور مملکت سونپنے کے لئے دربار لگایا۔ رینڈ کو پتا تھا کہ اگربلادد بادشاہ بن گیا تو وہ اپنی ملکہ اسے نہیں، یونانی بیوی کو بنائے گا۔

دربار میں امراء کی اکثریت بلادد کو بادشاہ بنانا چاہتی تھی۔ وہ کنگ ہوڈیبراز کو پسند تھا اور عوام بھی اسے ہی بادشاہ دیکھنا چاہتے تھے۔

یہ دیکھتے ہوئے رینڈ دربار میں کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی، ”بلا شبہ شہزادہ بلاد د ایک عظیم اور عزت دار شہزادہ ہے لیکن وہ شہنشاہ بننے کے قابل نہیں۔ ادھر آؤ میرے پیارے خاوند اور اگر ہمت ہے تو میری اس بات کی مخالفت کرو۔

کیا یہ قدیم زمانے سے قانون نہیں ہے؟ ”

اس نے تمام اجتماع کو مخاطب کرتے ہوئے تمسخرانہ لیجے میں چلانا شروع کیا۔

”کیا دیوتاؤں نے ہمارے بھلے کے لئے یہ حتمی اصول نہیں بتا یا کہ جو آدمی بیمار ہو وہ مملکت پر حکومت کرنے کا اہل نہیں ہوتا۔ “

اس کے رخسار غصے سے تمتما رہے تھے اور آنکھوں سے شعلے لپک رہے تھے۔

”تم دیوتاؤں کا قول بھول گئے ہو کہ اگر بادشاہ بیمار ہوگا تو مملکت بھی بیمار پڑ جائے گی۔ “

یہ کہہ کر اس نے اور لِیل نے بلادد کی پوشاک کو کھینچ کر پھاڑ دیا۔

”دیکھو! اس کا پورا جسم گلا سڑا، پیپ زدہ اور بدبو دارہے۔ “

اس نے فاتحانہ لہجے میں لِیل کی طرف دیکھتے ہوئے آنکھوں ہی آنکھوں میں کہا، ”اگرمیں اس کے ساتھ ہوتے ہوئے اعلیٰ ملکہ نہیں بن سکتی تو میں اس کے بغیر اس عہدے پر براجماں ہو سکتی ہوں۔ “

وہ چلائی

”یہ کوڑھ زدہ ہے۔ “

لوگ خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹ گئے۔

لِیل کو بادشاہت دے دی گئی اوربلادد کو بن باس۔

رینڈ نفرت اور حقارت سے چلائی،

”بھاگ جاؤ، اپنی غیر ملکی داشتہ کے پاس۔ “

اس نے شاہی سور لئے اور جنگلوں کی طرف چلا گیا۔

اب شہر میں جو اکثر سوروں کا حملہ ہوتا تھا سب لوگوں کا خیال تھا کہ یہ بلادد کے ہی تھے۔

دربار بلایا گیا۔ اس انوکھے مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی باتیں شروع ہو گئیں۔ ایک سوال سب سے اہم تھا کہ سور آتے کہاں سے ہیں اور غائب کہاں ہو جاتے ہیں؟ کسی کے پاس جواب نہیں تھا۔

ملکہ رینڈ کا خیال تھا کہ ان کے پیچھے دریا میں چھلانگ لگا دی جائے۔ لیکن کیسے؟

دربار میں موجودشاہی جادوگر بولا، ”میں آدمی کو سور بنا سکتا ہوں۔ وہ سوروں کے درمیان انسان نہیں مکمل سور بن کر رہے گا۔ لیکن اس میں کچھ خطرات ہیں۔ سب بڑا خطرہ یہ ہے کہ شاید میں اسے واپس انسان نہ بنا سکوں۔ اور اس طرح وہ سور واپس ہمارے پاس آکر ہمیں کچھ بتا نہیں سکے گا۔ “

ملکہ اس مہم کی قیادت خود کرنا چاہتی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اگر سور واپس انسان نہ بن سکے تو اسے بلادد کے بارے میں کیسے پتا چلے گا۔ وہ اسے دیکھنا چاہتی تھی۔ چاہے وہ خود تباہ ہو جائے۔ لِیل نے اسے سمجھایاکہ اگر جادوگر اسے واپس نہ لا سکا تو وہ ہمیشہ سور ہی رہے گی۔ انہیں اس غلطی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ امرا نے بھی منع کیا۔ ایک بولا، ”ملکہ عالیہ! بادشاہ جذباتی فیصلے نہیں کرتے۔ یہ مناسب نہیں ہوتا کہ کسی کی عداوت انہیں اندھا کر دے۔ ان کی ایک غلط چال پوری قوم کو تباہ کر سکتی ہے۔ حکمرانوں کی غلطی بانجھ نہیں ہوتی۔ وہ بچے جنتی ہے۔ “ لیکن ملکہ کی بلادد سے نفرت اسے مجبور کر رہی تھی۔ وہ کوڑھ زدہ بلادد کو سوروں کے درمیان دیکھ کر خوشی ہونا چاہتی تھی۔

پھر ایک رات جب سوروں نے شہر پر حملہ کیا تو وہ اپنے رضاکار سوروں کے ساتھ ان میں شامل ہو گئی۔

کچھ دنوں کے بعد اگلے حملے میں وہ ان کے ساتھ واپس ا ٓگئی۔

جادوگر کا جا دو کامیاب رہا اور تمام سور انسان کی جون میں واپس آگئے۔

وہ بہت دکھی تھی۔ اس نے دیکھا کہ بلادد ٹھیک ہوچکا تھا۔ بلادد نے گرم پانی کا ایک ایسا چشمہ دریافت کیا تھا جس میں اس کے کوڑھ زدہ سور جن کو بلادد سے یہ چھوت کی بیماری لگ گئی تھی، نہا کر آئے تو ٹھیک ہو گئے۔ بلادد بھی اسی پانی میں نہایا اور صحت مند ہو گیا۔ رینڈ نے بتایا، ”اس نے سوروں کی ایک فوج بنا لی ہے۔ بہت سے لوگ بھی اس کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں۔ وہ خبطی بہت بڑا جادوگر بن چکا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ مردہ افراد کی روحیں اس کے زیر اثر کام کرتی ہیں۔ وہ ان ارواح کی مدد سے نرسل کا ڈھانچہ اور چمڑے کے پر اپنے جسم کے ساتھ جوڑ کر پہاڑیوں سے چھلانگ لگا کر اڑنے کی کوشش بھی کر چکا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ سل دیوی نے اسے یہ طاقت دی ہے۔

ا ب وہ ٹروجا نووا پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ”

اس کے بعد کنگ لِیل اور ملکہ نے جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ کانسی کے دور کے پرانے ہتھیار وں کی جگہ نئی دریافت شدہ دھات، لوہے کے ہتھیار بنانا شروع کر دیے۔ شہر پناہوں کو اونچا اور مضبوط کیا گیا۔ حملہ آور سوروں کو شہر سے باہر ہی مار کر بھگا دیا جاتا۔

کئی مہینے گزر گئے۔ پھر ایک دن بلادد کی فوج نے شہر کا محاصرہ کرلیا۔ کئی ماہ تک جنگ جاری رہی۔ شروع شروع میں اکثر لڑائیوں کی قیادت بہادر ملکہ رینڈ نے خود کی۔ اس کی فوجوں کو شکست دینا بلادد کے بس کی بات نہیں تھی۔ وہ جب بھی سامنے آتی بلادد کی افواج کو زبردست نقصان پہنچتا۔ اب لِیل کی حکمت عملی یہ تھی کہ جنگ کو طول دیا جائے کیونکہ ملکہ حاملہ تھی اور بچے کی پیدائش کے دن قریب آچکے تھے۔

بہادر ملکہ کو وضع حمل کی درد نے بے حال کر دیا تھا۔ وہ پریشان اور خوفزدہ بھی بہت تھی۔ اس کا وہم دن بدن بڑھتا جا رہا تھا۔ تین دن کی تکلیف کے بعد بچہ پیدا ہوا۔ تو تمام دائیاں ایک ایک کر کے کمرے سے باہر چلی گئیں۔ پریشان کنگ لِیل اندر داخل ہو ا تو ملکہ نے اسے دیکھ کر منہ دوسری طرف کرلیا۔ گلابی رنگت کا چوپایہ اس کی چھاتی کو منہ میں دبائے دودھ پی رہا تھا۔

اگلے دن عوام نے بغاوت کردی اور بلادد کی فوج کے لئے شہر کے دروازے کھول دیے گئے۔

(اس افسانے میں کنگ ہوڈبراز کے دربار میں ہونے والا مکالمہ Moyra Caldecott کے ناول The Winged Man سے لیا گیا ہے۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).