سول بالادستی کا گم ہوتا بیانیہ


پھر یوں ہوا کہ نواز شریف ایک تغیّرآمیز لیکن خوفناک بیانئیے کے ساتھ جی ٹی روڈ پر نمودار ہوئے تو پورا ملک اور خصوصًا پنجاب ووٹ کو عزت دو اور سول بالادستی جیسے اجنبی نعروں سے گونجنے لگا،

گو کہ یہ نعرہ سیاسی منظرنامے میں ایک اجنبیت کے ساتھ داخل ہوا لیکن نواز شریف کی مقبولیت اور مظلومیت کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے سیاسی شعور اور بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں نے اسے مبالغہ آمیز شناسائی اور مقبولیت فراہم کردی اور یہی وجہ تھی کہ سیاسی دھارے کا رُخ اور مزاج یکسر تبدیل ہوتے گئے یعنی ایک طرف وہ تمام سیاسی جماعتیں اور سیاسی کارکن کھڑے تھے جو سول بالادستی اور جمہوریت کے شدید حامی تھے جبکہ دوسری جانب وہ لوگ نظر آئے جنہیں جمہوریت اور سول بالادستی کی بجائے عمران خان کے برسراقتدار آنے بلکہ اس سے بھی زیادہ نواز شریف کو منہدم کرنے تک دلچسپی تھی اور ظاہر ہے یہ طبقہ معروضی حالات کے پیش نظر اسٹیبلشمنٹ کا حامی ہی تھا۔

گویا پہلی بار سیاست واضح طور پر دو حصوں میں منقسم ہوگئی تھی۔

دو ہزار اٹھارہ میں سول بالادستی کا علمبردار نواز شریف اور اس کا خاندان شدید ترین آزمائشوں اور مشکلات کی زد میں آیا۔

اس دوران اقتدار سے بے دخلی، قید وبند، کلثوم نواز کی بے بس موت اور مریم نواز کی گرفتاری نے نواز شریف کی حمایت اور ہمدردی میں ایک توانا عوامی لہر اُٹھا دی اور دیکھنے میں آیا کہ سول بالادستی کا تصور دانشوروں اور لکھاریوں کی روایتی، بحث و تمحیص اور محفلوں سے نکل کو گلی کوچوں میں پھیلتا اور مقبول ترین موضوع بنتا گیا یہی وہ وقت تھا جب سول بالادستی کا بیانیہ اُٹھانے والے نواز شریف کے شدید مخالف عمران خان پر اقتدار کے دروازے کھلے لیکن کنٹینر کی جذباتی فضا نے توقعات اور اُمیدوں کا جو سربفلک پہاڑ کھڑا کیا تھا وہ نہ صرف ریزہ ریزہ ہو کر بکھرنا شروع ہوا بلکہ یہ پہاڑ بہت سے مسائل خصوصًا مہنگائی کا لاوہ اُگلنے لگا اور اسی آتش فشاں میں عمران خان کی مقبولیت بھی بری طرح بھسم ہو کر رہ گئی۔

جس کا فائدہ فطری طور پر نواز شریف کی طرز سیاست یعنی ووٹ کو عزت دو کے بیانئیے کو پہنچنے لگا اس دوران مشکل ترین حالات کے باوجود بھی نواز شریف پوری طرح یکسو اور سول بالادستی کے بیانیے پر ڈٹے نظر آئے جبکہ اس کے تمام سیاسی رفقاء (خواہ وہ جیلوں میں تھے یا جیلوں سے باھر) ہمیشہ دلیر اور ثابت قدم ہی دکھائی دیے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری بھی ہے۔ لیکن گزشتہ چند ہفتوں سے نواز شریف کی بگڑتی ہوئی صحت اور بعرض علاج لندن جانے نے اس بیانئیے کو شکوک و شبہات اور مصلحت کی طرف دھکیل دیا ہے جس بیانئیے کی تعمیر اور اُٹھان دلیری سے ہوئی تھی۔

شکوک و شبھات اور مصلحت کی گھمبیر فضا کو سب سے زیادہ اُبھار مریم نواز کی پراسرار خاموشی نے فراہم کیا کیونکہ یہ مریم نواز ہی تھیں جو بیانیے کے حوالے سے زیادہ متحرک اورفعال رہی تھی کیونکہ ایک ایسے وقت میں جب شہباز شریف کھلے عام مصلحت اور پسپائی کا علمبردار بنا ہوا تھا جبکہ ڈیل گروپ کا مقبول استعارہ بھی وجود میں آچکا تھا تو مریم نواز ہر قسم کی مصلحت سے بے نیاز اور خوف سے بے پرواہ ہو کر میدان میں نکل آئی تھی اور پورا پنجاب اس کے ساتھ کھڑا نظر آیا تھا۔ مریم کی ریلیوں اور جی ٹی روڈ پر اُٹھائے گئے بیانئیے میں بھی رتی بھر تبدیلی نہیں آئی تھی صرف مقرر تبدیل ہو چکا تھا۔

اس کے علاوہ مریم نواز اپنے پسندیدہ میدان کارزار یعنی سوشل میڈیا کے مورچے میں موجود بھی رہی اور ڈٹی بھی رہی نہ غنودگی طاری ہوئی تھی نہ پسپائی کا راستہ لیا تھا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ مریم بھی تیزی کے ساتھ اس سیاسی قدو قامت کی حامل ہونے لگی تھی جو خواتین سیاستدانوں میں صرف بے نظیر بھٹو کے حصے میں آیا تھا۔ لیکن موجودہ منظر نامے پر اچانک امڈتی پراسرار خاموشی سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں کہ آخر وہ کون سا خوف، مصلحت یا مجبوری ہے جس نے ایک مقبول بیانیے پر خاموشی کی دبیز تہہ چڑھا دی؟

اچانک ایسا کیا ہوا کہ مریم نواز کی گونجتی ہوئی صدا حرف و معنی کھو بیٹھے،

کیا مسلم لیگ کے اندر ڈیل گروپ حاوی ہوچکا ہے اور مریم نواز اس گروپ کے زیر اثر آگئی ہیں؟

کیا اپنے والد نواز شریف کی شدید بیماری، قید وبند اور مشکل حالات نے مریم نواز کے اعصاب توڑ دیے ہیں؟

اور

کیا سول بالادستی کا بیانیہ بھاری پتھر کی مانند چوم کر چھوڑ دیا گیا ہے؟

بہرحال گھمیر سوالات کا سلسلہ پیہم بڑھ رہا ہے اور صورتحال حد درجہ مبہم اور غیر واضح ہے کیونکہ حالات کی دھند لمحہ لمحہ گہری ہوتی جارہی ہے ساتھ ہی اُمید اور اندیشے بھی بڑھتے جا رہے ہیں پارٹی کارکن تاحال ڈٹے ہوئے ہیں لیکن نہ کوئی رہبر سفر نہ ہی کوئی سالار قافلہ!

کسی نے کہا کہ قیادت پیچھے ہٹ گئی ہے تو کوئی نکتہ اُٹھا لایا کہ فی الحال نواز شریف کی صحت کو اوّلیت دی جارہی ہے، کوئی مایوس دکھائی دیا تو کسی نے سکوت کو طوفاں خیز تحریک کا پیش خیمئہ قرار دیا۔ گویا زبانیں بھی بہت اور باتیں بھی بہت۔

لیکن معروضی صورتحال میں ہمیں ماننا ہی پڑے گا کہ سول بالادستی کا بیانیہ عارضی طور پر ہی سہی لیکن اپنی اھمیت اور افادیت فی الحال کھو بیٹھا ہے کیونکہ نواز شریف شدید بیمار ہیں اور مریم نواز نے جیل سے نکل کر کسی چوک اور چوراہے کی بجائے خاموشی کے ساتھ گھر کی راہ لی ہے اور ایسا گھمبیر سناٹا چھایا ہے کہ مریم نواز کا ہر وقت جلتا بجھتا ٹوئٹر اکاؤنٹ کسی بھولی بسری کہانی کا روپ دھار چکا ہے۔

سو ان سوالات میں اس بیانئیے کی گمشدگی ایک لازمی اور فطری عمل ہے جس مزاحمتی بیانئیے نے مدتوں سے رائج نظام کے نہ صرف درودیوار ہلا کر رکھ دیے تھے بلکہ عزیمت کی ایک تاریخ بھی رقم کی تھی اور وہ بھی ایسے وقت میں جب عمران خان کو اُمید سحر بنا کر پیش کیا جا رہا تھا اور ایک سادہ لوح خلقت اس پر اعتبار بھی کر بیٹھی تھی لیکن وقت آگے بڑھا تو تبدیلی کا علمبردار ایک شامِ الم ہی ثابت ہوا۔

گویا مزاحمتی بیانییے کے لئے سیاسی طور پر راستہ صاف ہے لیکن اسے تھامنے والا کون ہے؟

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).