زندگی آگ بھی ہے، پانی بھی


یہاں اتنی کہانیاں ہیں۔  میری بھی سن لیجیے۔

میں سمن ہوں۔  سمجھ لیں کہ میں یورپ کے کسی ملک میں رہتی ہوں۔  ابو برسوں پہلے روزگار کی تلاش میں یہاں آئے۔  چند سال بعد ہمیں بھی بلا لیا۔ دو بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی۔

ہم نے کھلے ماحول میں پروش پائی۔ والدین کی پوری سپورٹ ہمیں ملی۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ فٹ بال بھی کھیلی اسکیٹینگ بھی کی، سایئکل بھی چلائی، بایئک بھی چلائی۔

بڑی بہن نے گریجویٹ کے بعد ایک بوتیک میں جاب کر لیا۔ اور لندن میں بسنے والے ایک ماموں نے اپنے بیٹے کا رشتہ بھیجا اور جلد ہی ان کی رخصتی ہو گئی۔ میں کمپیوٹر پروگرامنگ کر رہی تھی۔ ابھی پڑھائی جاری تھی کہ ابو کے ایک ملنے والے ہمارے گھر آئے اور میرے لئے  اپنے کسی جاننے والوں کے بیٹے کی بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ بہت اچھے ہیں۔  انہیں اپنے بیٹے کے لیے پڑھی لکھی سمجھدار لڑکی چاہیے۔  لڑکا بھی مناسب ہے۔  آمدنی اچھی ہے۔  وغیرہ وغیرہ۔ ابو نے پہلے تو انکار کیا کہ بیٹی ابھی پڑھ رہی ہے لیکن ان صاحب کا اصرار بڑھتا ہی گیا کہ آپ مل تو لیں ان لوگوں سے پسند نہ آئیں تو بات ختم۔ سب ماؤں کی طرح میری امی کو بھی میری شادی کرنے کی جلدی تھی انہوں نے ابو کو راضی کر لیا کہ مل لینے میں کیا حرج ہے۔  وہ لوگ ایک دوسرے شہر میں رہتے تھے۔

شام ڈھلنے والی تھی جب وہ آئے۔  ابو نے دروازے پر انہیں خوش آمدید کہا۔ لیونگ روم میں امی بھائی اور میں نے ان کا استقبال کیا۔ انکل آنٹی بہت شفقت سے ملے۔  ان کے پیچھے ان کا بیٹا ولید ہاتھ میں پھولوں کا بڑا سا گلدستہ اٹھائے کچھ جھجھکتا ہوا سا کھڑا تھا۔

امی میرے ساتھ ہی بیٹھی تھیں۔  ان کے برابر آنٹی تھیں۔  جو امی سے کہہ رہی تھیں۔

 ” ہمیں بیٹے کے لئے  پڑھی لکھی، روشن خیال اور سمجھدار لڑکی چاہیے۔  اور ہمیں کچھ درکار نہیں“

ولید نے بتایا کہ وہ گاڑیوں کے ایک شو روم میں کام کرتا ہے اور گاڑیوں کا شوق بھی رکھتا ہے۔

امی ابو کو بھی وہ لوگ اچھے لگے۔  اور اس کے بعد کافی کچھ کافی تیزی سے ہوا۔ ولید کے گھر والوں نے امی ابو کو کھانے پر بلایا۔ دونوں وہاں سے بہت خوش خوش واپس آئے۔

ابو نے کہا۔  ”شاید ولید تمہیں فون کرے۔  چاہو تو بات کر لینا۔ کوئی بھی بات آگے چلانے سے پہلے تم اپنی مرضی بتانا“

ولید نے دو دن بعد ہی فون کر لیا۔ میرا حال چال پوچھنے کے بعد اس نے تجویز پیش کی۔

 ” کسی دن ڈنر ساتھ کریں؟ “

میں نے کہا کہ میں ان کے ساتھ کافی پی سکتی ہوں۔  بات لنچ پر طے ہو گئی۔

وہ اچھی باتیں کرتا تھا۔ اس کے لہجے میں ٹھہراؤ تھا۔ وہ بہت غور سے میری بات سنتا۔ زیادہ تر لوگ اپنی ہی بات سناتے ہیں اور دوسروں کے جملے بھی پورے نہیں ہونے دیتے۔  میرا کوئی جملہ اس نے درمیان سے نہیں اچکا۔ سوال کرنے کے بعد پوری توجہ سے میری بات سنی۔ میرے کچھ پوچھنے پر تسلی اور اطمینان سے جواب دیا۔ وہ خوش شکل، خوش گفتار، خوش اخلاق، خوش لباس سب ہی کچھ تھا۔ میرے دل نے تو ہاں کردی لیکن میں دماغ کو بھی سوچنے کا موقع دینا چاہتی تھی۔ اس کی باتیں اچھی لگیں۔  اس کے بعد بھی ہماری چند ملاقاتیں ہوئیں۔

 ” مجھے بالکل تم جیسی ہی لڑکی کی خواہش تھی۔ تعلیم یافتہ، اچھی سوچ رکھنے والی اور سمجھدار۔ “ یہ سمجھداری کی بات بڑے تواتر سے دہرائی جا رہی ہے۔  لگتا ہے میں واقعی بہت سمجھدار ہوں۔

 ” دیکھو میں یا میرے گھر والے تم پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں لگائیں گے۔  سمن تم اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہو۔ چاہو تو پڑھائی کرو، چاہے جاب کرو، یا گھرداری کرو۔ دوستوں سے ملو۔ جو چاہو پہنو، جیسے چاہو خود کو سنوارو۔ مجھے کبھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا“ میرے دل اور دماغ دونوں نے ہاں کر دی۔

جلد ہی ان کی طرف سے باقاعدہ رشتہ آ گیا۔ منگنی ہو گئی۔ میں اپنی قسمت پر نازاں تھی۔ یقین نہیں آتا تھا کہ مجھے ولید جیسا ساتھی مل گیا۔ میری دوستوں کا کہنا تھا کہ میرے ہاتھ جیک پاٹ لگ گیا ہے۔  ماں باپ، بھائی بہن سب ہی خوش تھے۔

فائنل امتحان ختم ہوتے ہی شادی کی تاریخ رکھ دی گئی۔ ولید کی طرف سے مختصر بارات آئی۔ ڈنمارک سے اس کے چچا اپنی فیمیلی کے ساتھ اور جرمنی سے اس کا خالہ زاد اپنی جرمن بیوی کے ساتھ باقی لوگ دوست تھے، ملنے والے اور چند کولیگز۔ ولید کی ایک بہن دوسرے شہر میں میڈیکل کالج میں تھی وہ بھی کچھ دنوں کی چھٹی پر آئی۔ شادی کی تقریب کے بعد بارات تو واپس چلی گئی میں اور ولید دس دن کے لئے  ہنی مون کے لئے  ترکی چلے گئے۔  وہ بہترین دن تھے۔  مجھے اپنی ہی قسمت پر خود ہی رشک آ رہا تھا۔ ولید کا پیار، توجہ اور خلوص میرے دل میں گھر کر چکا تھا۔

میں پہلی بار اپنے سسرال جا رہی تھی۔ شادی پر آئے مہمان جا چکے تھے۔  آنٹی انکل نے خوشی سے میرا خیرمقدم کیا۔ مجھے میرا کمرا دکھایا۔ وہ بھی خواب جیسا حسین تھا دو دن بعد ولید کی بہن بھی واپس چلی گئی۔

اگلے دن ولید کے ایک دوست کے گھر ایک دعوت میں جانے کے لئے  تیار ہوئی تو دیکھا میرے میک اپ بکس میں ایک نئے شیڈ کی لپ اسٹک ہے۔  یہ میری تو نہیں پھر کس کی ہے؟ ولید کی بہن کی ہو سکتی ہے شاید جاتے ہوئے یہاں بھول گئی لپ اسٹک اچھی کوالٹی کی تھی رنگ بھی مجھے اچھا لگا میں نے رکھ لی۔

ولید کی چھٹیاں ختم ہویں اور میں نے ابھی اپنے بارے میں سوچنا شروع نہیں کیا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔  ولید نے کہا جو دل چاہتا ہے کرو۔ میں جاب کرنا چاہتی تھی لیکن سوچا پہلے زندگی کے ساتھی، نئے گھر والے، نیا ماحول اور نئے شہر سے پوری طرح آشنا تو ہو جاوں۔  آنٹی بہت پیار سے بات کرتی تھیں۔  ولید کی طرح لہجہ ان کا بھی ٹھہرا ہوا سا تھا۔ مجھے ان سے بات کرنے میں کبھی کوئی مشکل نہیں آئی۔ کچن میں کام کرتے ہوئے ایک دن انہوں نے پوچھا۔

 ” سمن تم ٹھیک ہو نا؟ خوش ہو نا“؟

 ” جی۔ میں ٹھیک ہوں اور بہت خوش ہوں“

 ” میں بھی بہت خوش ہوں کہ تمہاری جیسی سمجھدار لڑکی ولید کی زندگی میں آئی“ مجھے سمجھداری کا ایک اور سرٹیفیکٹ مل گیا۔

شادی کے دو مہینے بعد ہی ولید نے ایک دن اچانک کہا ”میرا خیال ہے ہمیں اب اپنا گھر لے لینا چاہیے۔ “

 ” اپنا گھر؟ لیکن کیوں“

مجھے حیرت تو ہوئی اس بات پر لیکن کون سی لڑکی ہو گی جسے اپنا گھر کی خواہش نہ ہوگی۔

 ” اپنا گھر اپنا ہوتا ہے۔  اپنی مرضی سے جیتے ہیں۔  یہاں سوال ہوتے ہیں کہاں جا رہے ہو؟ کیوں جا رہے ہو؟ کب آو گے؟ دیر کیوں ہو گئی؟ فون کیوں بند تھا؟ “

اگلے دن اتوار تھا ناشتہ کی میز پر ولید نے اعلان کر دیا کہ وہ الگ گھر لینا چاہ رہا ہے۔

میں نے ڈرتے ڈرتے آنٹی کی طرف دیکھا۔ وہاں ایک اطمینان نظر آیا۔ مجھے بھی تسلی ہو گئی کسی نے برا نہیں مانا اور یہ الزام میرے سر نہیں ہوا کہ بہو نے آتے ہی بیٹے کو الگ کردیا۔ انکل نے تو گرمجوشی سے اس پر بات کی۔ اور ڈاون پیمنٹ کے لئے  کچھ رقم کی بھی پیشکش کی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3