کراچی کا جغرافیہ


\"arifسید عارف مصطفےٰ

روشنیوں کا شہر کہتے ہی پہلے جو شہر ذہن میں آتا تھا اسے کراچی کہا جاتا تھا…. لیکن اب کراچی کا نام سنتے ہی ذہن کی پہلے سے جلتی بتیاں بھی بجھنے لگتی ہیں۔ پھر اب تو پاکستان میں کئی شہراور بھی ایسے ہیں کہ جہاں بہت ڈھیر سی بتیاں جلنے لگی ہیں اور یوں ان بتیوں کو دیکھنے کے لیئے کم ہی لوگ کراچی کا رخ کرتے ہیں، ہاں البتہ بےشمار ایمبولینسوں کی گھومتی بتیوں کو شریک مقابلہ کرلیا جائے تو یہ اب بھی سب سے آگے ہے۔ جیسا کہ عرض کیا کہ اب کراچی کا نام آتے ہی ذہن میں کچھ بھی نہیں آتا بس اک سناٹا سا گونجتا اور اندھیرا سا چھاجاتا ہے لیکن اسکی وجہ لوڈ شیڈنگ کم اور بلڈ شیڈ نگ زیادہ بلکہ بہت زیادہ ہے – اس شہر میں اب کام کرنے کے لیئے آنے والوں کی تعداد روز بروز گھٹ رہی ہے اور کام دکھانے والوں کا شمار روز بروز بڑھتا جارہا ہے اور اسی وجہ سے یہاں سے جانے والے تابوتوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ لیکن پھر بھی ہر سال چند سرپھرے سر سے کفن باندھ کر یہاں کود ہی پڑتے ہیں، اور ان میں سے کئی کے سر سے بندھا کفن ہی ان کے کام بھی آجاتا ہے۔ لیکن اگر آپ ان میں سے ہیں جومحض سیر سپاٹے کے لیئے اس عروس البلاد آن پہنچے ہیں تو مناسب ہے کہ میں بطور گائیڈ آپکے ساتھ ہولوں تاکہ اگر آپ مارے جائیں تو کوئی تو ہو جو فوری طور پہ آپکے لواحقین کو ’مستند‘ اور فوری اطلاع فراہم کرسکے۔ رہی میرے تحفظ کی بات تو خطرہ تو میرے لیئے بھی ہے لیکن روز روز کے خطرات نے اسے میرے لیئے معمول کی بات بنادیا ہے اور اگر کسی روز اخبار کسی ‘ٹارگٹ کلنگ’ کی خبروں سے خالی ہو تو لگتا ہے کہ اخبار نہیں کوئی علمی مقالہ پڑھ رہا ہوں۔
کراچی کے سلسلے میں پہلے تو یہ جان رکھیئے کہ اس شہر میں گھومنے پھرنے کے آداب اور قرینے کل عالم سے مختلف ہیں اور انہیں سمجھنا بے حد ضروری ہے،، مثلاً تو یہ کہ اور مہذب شہروں کی طرح یہاں فٹ پاتھ پہ چلنے پہ اصرار مت کیجئیے گا کیونکہ فٹ پاتھ نظر ہی نہیں آئے گا ظاہر سی بات ہے کہ اب یہ تو ہونے سے رہا کہ محض آپ کو فٹ پاتھ دکھانے کے لیئے دکاندار کئی گھنٹے لگاکر اپنی دکان کا زیادہ تر سامان وہاں سے اٹھا لے ، کہیں کچھ فٹ پا تھ پڑا مل بھی گیا تو وہاں اتنے فقیر پڑے ملیں گے کہ اگر سب کو دینے میں لگ گئے تو آخر میں خود بھی وہیں بیٹھنے کے قابل ہوجائیں گے گویا اوّل تو چلنے کی جگہ ہی نہیں ملے گی لیکن مل بھی گئی تو کئی پتھاروں کو پامال کر جائیںگے اور نتیجتاً کسی پتھارے دار کے ہاتھوں خود بھی روندے جائیں گے۔ دوسرے یہ بھی پلے باندھ لیجیئے کہ چلتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے کے بجائے نگاہ نیچی رکھ کر چلیئے یوں کسی کھلے گٹرمیں غرقابی سے بھی بچیں گےاور اہل تقویٰ میں الگ گنے جائیں گے۔ اکر کسی سے کوئی پتا پوچھنا ہو تو برابر کا امکان ہے کہ اپنا پتا بھی کھوبیٹھیں …. ویسے یہاں کے زیادہ تر باسیوں سے پتا پوچھنے میں کامیابی بھی معمولی بات نہیں، اگر عین شان پلازہ کے نیچے کسی بندے سے شان پلازہ کی بابت پوچھیں گے تو پورا امکان یہ ہے کہ وہ پورے اعتماد سے آپ کو گلی کے آخری سرے پہ دور کھڑے کسی باخبر آدمی کی طرف بھیج دیگا کہ اس سے پوچھ لیں۔ اور خاصا امکان ہے کہ وہ باخبر بھی شان پلازہ کا نام سنتے ہی بہت حیران سا دکھائی دے گا کہ آخر یہ بلڈنگ کب بنی۔
یہ بات جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ کراچی پلازوں کا شہر ہے اور یہاں خلوص اور مروت بھی کنکریٹ کے تلے دبے رہتے ہیں،، کسی سے بے وجہ یونہی ملنے چلے جائیں تو وہ خوش ہونے کی خود سے کوئی کوشش نہیں کرے گا، بس اندھا دھند سٹپٹا جائے گا کیونکہ یہی ایک کام کرنے میں اس شہر کے لوگوں کو بڑی مہارت حاصل ہے۔ یہاں مہمان کی آمد پر کئی میزبان گھر سے باہر جانے لگتے ہیں – مہمان کے آنے پہ بتیسی دکھانے پھر نئی کراکری دکھانے کو آداب مہمانداری کا لازمی حصہ گردانا جاتا ہے- بار بار دستی گھڑی دیکھنا بھی انہی آداب کا حصہ ہے۔ مہمان پھر بھی نہ سمجھے تو شہر میں اچانک حالات کی خرابی کی کسی افواہ کا ذکر بہت مجرب خیال کیا جاتا ہے لیکن ایسے موقع پہ چہرے پہ تھوڑی سی ہوائیاں نمودار کرنا اور لہجے میں مہمان کی واپسی کے حوالے سے سلامتی سے متعلق تشویش کا مناسب مقدار میں اظہار کرنا ، ان تشویشی رسومات کا ناگزیر حصہ ہے اور فوری طورپہ مطلوبہ عملی نتائج مرتب کرتا ہے۔
اگر آپ کھانے کا ذوق رکھتے ہیں تو کراچی آپ ہی کے لیئے ہے کیونکہ کھانے کے لیئے یہاں دھکے اور غم کے علاوہ بھی کافی کچھ ہے۔ جہاں تک ڈکار انگیز کھانے کی بات ہے تو یہاں وہ بھی وافر طور پہ ہر وقت میسر رہتا ہے۔ پہ ایک وقت کے کھانے کے لیئے کہیں 50 روپے بھی زیادہ ہیں تو کہیں 5 ہزار روپے بھی کم ہیں۔ یہ الگ بات کہ 50 روپے میں آپ عوامی صحتمند کھانا کھائیں گے جبکہ 5000 میں ابلا ہوا روکھا پھیکا سا وی آئی پی سا ‘زیر علاج’ طعام نگلیں گے۔ یہاں کے خاص کھانے متعدد ہیں لیکن کراچی کی خاص ڈش نہاری ہے،ہر دوسرے ہوٹل پہ لکھا ملتا ہے ”دلی کی خاص نہاری“لیکن انہیں کھا کر جی چاہتا ہے کہ ”دلی کی عام نہاری“ کو ڈھونڈا جائے۔ کہیں یہ پانی میں نہارہی ہوتی ہے تو کہیں مرچوں میں، اس کا لیس عموما ہوٹل کی سوکھی روٹیوں سے تیار کیا جاتا ہے یوں یہ واحد ڈش ہے کہ جس میں روٹی اور سالن ایک ہی پلیٹ میں یکجان دستیاب ہوتے ہیں۔ اس کو کھاتے ہوئے ناک اور منہ سے بہت شوں شوں ہوتا ہے اس لیئے پلیٹ ناک کی سیدھ میں نہیں رکھنی چاہیئے ورنہ نہاری ختم ہوتے بہت دیر لگتی ہے۔ کراچی کے ہوٹلوں کی ایک خاص بات یہاں کی گریبی ہے، یہ مزید اضافی سالن کی اس مقدار کو کہتے ہیں جو روٹی ختم کرنے کے لیئے مفت میں عندالطلب ملتی ہے اور رش والے ہوٹلوں میں باربارملتی ہے ، بس…. ہربارنئے بیرے سے التماس کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا اگر تین چار دوست ایک ساتھ ایسے مصروف ہوٹل میں جائیں تو ایک پلٹ سالن منگوانا ہی کافی رہتی ہے باقی بھوجن تو نصف درجن گریبیاں ہی سہارلیتی ہیں۔ نہاری ویسے تو اپنے نام کی طرح صبح کھانے کی ڈش ہے لیکن چونکہ بڑے شہروں میں اب ’صبح‘شام سے ذرا پہلے ہی اترتی ہے، چنانچہ نہاری وقت کی قید سے کب کی آزاد ہوچلی۔ اگر اب کوئی صبح نہاری کھانے کسی ہوٹل میں جائے گا تو کسی خاکروب کے ساتھ فرش پہ بیٹھ کر اس کا رات کا سالن شیئر کرتا پایا جائے گا۔
کراچی کی دوسری مشہور ڈش یہاں کا حلیم ہے…. اس کی خاص بات اس کا ریشہ ہے۔ گویا طبعاً بزرگانہ سی ڈش ہے دوکانوں پہ ملنے والی حلیم کا ریشہ اکثر روئی کی ریشہ دوانی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جس کسی کے گھر میں اگر چند پرانے گدے اور لحاف ہیں تو وہ بخوبی اس کاروبار کی ابتدا کرسکتا ہے۔ کراچی میں اسے گلی محلے میں مل جل کرپکانے اورلڑ لڑ کر بانٹنے کی روایت بہت مستحکم ہے۔ عموماً لڑائی چند ’مخصوص‘ گھروں پہ ہوتی ہے کہ وہاں حلیم دینے کون جائے گا! حلیم عموماً چندے سے پکایا جاتا ہے جو کبھی پورا پڑتے نہیں دیکھا جاتا، کونکہ جادوئی فارمولے کے تحت جو جتنا کم چندہ دیتا ہے بوقت تقسیم وہی گھرکا سب سے بڑا یعنی نہانے کا پتیلا مانجھ کر اٹھائے حاضر ہوجاتا ہے۔ حلیم کی عمدہ پکائی کا انحصار اس کی گھٹائی پہ ہے جو عموماً اسکے گھوٹنے والے آلے”گھٹننا“کی مدد سے کی جاتی ہے اور یہ کام کرنے والے زیادہ تر وہ لڑکے بالے ہوتے ہیں جو اس گھٹننے کے ہی سائز کے ہوتے ہیں اور اسے گھوٹتے ہوئے لٹک لٹک جاتے ہیں۔ گھر میں ہل کر خود پانی بھی نہ پینے والے لاڈلے اینٹوں سے بنے چولہوں میں آگ سلگانے کے لیئے جب بے تحاشا پھونکیں مارتے اور آنکھیں لال کرتے ہیں تو اقبال یاد آتے ہیں….ذرانم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ حلیم پکانے کے لیئے درکارسامان میں دالیں، گندم گوشت اورگھی تیل کے علاوہ تاش کی گڈی، لوڈو، میوزک پلیئر اور پان ، گٹکے کی کئی درجن پڑیاں شامل ہیں۔ خواہ دال ، گندم گوشت یا گھی تیل کم رہ جائے لیکن دیگر اجزا میں کمی نہ ہونے کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ چونکہ حلیم کی تیاری کے دوران بہت لڑائیاں ہوتی ہیں اس لیئے حلیم پک جانے کے بعد اگر اس میں گوشت وافر معلوم ہو تو احتیاطاً اسے گھوٹنے والے لڑکوں کوپھر سے گن لیا جاتا ہے۔
کراچی اک جہان حیرت ہے۔ بہت لمبا چوڑا شہر ہے اب تک اس کی حدود کا یقینی ومستند تعین صرف اسی سبب نہیں ہوسکا ہے کیونکہ جیسے ہی اسکی پیمایش مکمل ہوکر نقشہ چھپنے کو جاتا ہے یہ شہر اس سے کئی میل اور آگے کو سرک جاتا ہے۔ اس قدر طویل ہے کہ ایک سرے سے چلنے والا دوسرے سرے تک پہنچنے سے پہلے کئی بار اپنی منزل بھول بھول جاتا ہے اور بسا اوقات اہل خانہ سے فون کرکے مدد لیتا ہے، بعضے تو یہ تک کہتے سنے گئے ہیں کہ اس کے ایک کنارے اور دوسرے کنارے والوں کے سحروافطار کے اوقات یکساں ہونا بہت مشکوک معاملہ ہے اور احتیاطاً 2-3 منٹ کی تاخیر کرلی جائے تو یہ احتیاط عین قرین تقویٰ ہوگی۔ کراچی کے اکثرعلاقے اس جہان حیرت کی صحیح نمائندگی کرتے ہیں، لالو کھیت میں نہ لالوہیں اور نہ کوئی کھیت، ڈاکخانہ اسٹاپ پہ ڈاکخانہ لاپتا ہے۔ نیوکراچی کا مشہور سندھی ہوٹل مرحوم ہوئے عرصہ گزرا اور ناظم آباد پیٹرو پمپ کے 55-60 سال پرانے اسٹاپ پہ پیٹرولپمپ ندارد ہوئے زمانہ بیتا۔ اہل رنچھوڑ لائن جب با افراط کنگلے تھے تب وہاں اک لکھ پتی ہوٹل ہواکرتا تھا، اب وہاں کنگلے کم اور لکھ پتی زیادہ ہیں، لیکن لکھ پتی ہوٹل غائب ہے، اس کا نام اب بس اسٹاپ کی صورت ہی زندہ ہے۔۔ لہٰذا اتنے وافر مغالطوں کی موجودگی میں بھی اگر آپ غربا کو نیاز بانٹنے غریب آباد جارہے ہیں یا شرفا سے ملاقات کے لیئے شریف آباد کا رخ کیا ہے تو بہتر ہے کہ اپنے ارادے پہ نظر ثانی فرمالیں۔
کبھی کراچی میں اک بازار حسن بھی ہوا کرتا تھا لیکن اب اسکی بوسیدہ بالکنیوں میں دھری جھریوں سے اٹی بوڑھی فاختائیں دیکھ کر سویا ہوا تقویٰ جاگ اٹھتا ہے۔۔ یہاں کا جوڑیا بازار غلے کی خریداری کا سب سے بڑا مرکز ہے کہ جہاں آج بھی انسان اور جانور باربرداری کے لئے برابر سے استعمال کئے جاتے ہیں ایسی مساوات کہیں اوردیکھنے کو نہیں ملتی۔ اس کے تنگ اور پر پیچ راستوں میں سے گزرتے ہوئے کسی سامان بردار گدھے کو دیکھیں تو آپ اسے اپنے سے زیادہ ہوشیار پائیں گے، ایک چور بازار بھی ہے، لیکن یہاں اس کے نام کی وجہ چوری کی اشیا کی فروخت کم اور خریدار کے جیب سے مال کی چوری کرنا زیادہ ہے، یہاں کے اکثر دکاندار بھی بازار کے نام کی مانند جیّد مشکوک معلوم ہوتے ہیں۔
کراچی کی پاکستان میں زیادہ اہمیت اس کے سمندر کی وجہ سے ہے ورنہ تعلیم و تہذیب سے تو کبھی کی جان چھوٹ چکی، اس فیاض سمندر نے بڑے معاشقوں کا بوجھ اٹھا رکھاہے ، یہاں پہ آنے والے اکثر پریمی بار بار یہاں آتے ہیں اور اکثرجوڑوں میں دونوں میں سے ایک پرانے والا نہیں ہوتا۔ لڑکے لڑکی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے افق کے پار جانے کا پیماں باندھتے ہیں لیکن تھوڑے ہی عرصے میں یہاں دو الگ اونٹوں پہ بیٹھے اجنبی سے بنے پاس سے گزر جاتے ہیں۔ شادی شدہ جوڑوں کے لیئے نکاح نامہ ساتھ رکھنا اور بنا شادی شدہ جوڑوں کے لئے بٹوہ ساتھ رکھنا یہاں کے سمندری قوانین کا حصہ ہے، ادھر پولیس آنے جانے والوں کے منہ باقاعدگی سونگھتی رہتی ہے، منہ سے جس مشروب کی بو آئے اسی کی قیمت کا تاوان بھرنا لازم ہے۔ جو لوگ صرف پانی پی کر اپنا منہ سنگھانے آ جاتے ہیں پولیس انہیں پانی پانی کر دیتی ہے۔ عالمی ماہرین یہاں کے سمندری ساحلوں میں بڑھتی آلودگی پہ اکثر بہت تشویش کا اظہار کرتے نظرآتے ہیں، لیکن اس آلودگی کی وجہ محض سی ویو اور ہاکس بے پہ ہونے والی آلودہ سرگرمیاں ہی نہیں ہیں بلکہ شہر کے بہت سے لوگ بھی ماہانہ و سالانہ صرف یہیں آکر نہانے پہ بضد رہتے ہیں۔
جہاں تک بات کراچی کی اہمیت کی ہے یہ پہلے معاشی حب کہلاتا تھا اب بد معاشی کا حب ہے ، جو اس حققت کے آگے سر نا جھکائے اسکی منزل حب ڈیم ہے، یہاں بدمعاشی کرنےوالے عام طور پہ 30-40 کلو سے زیادہ کے نہیں ہوتے اورپستول کو ایک ہاتھ سے تھام کرچلانے میں انکی کلائی اتر اتر جاتی ہے، بات اگر کلاشکوف کی ہو تو کم ازکم دو لڑکے درکار ہوتے ہیں، یہ دوسرا لڑکا مدد گار ہوتا ہے اور کلاشنکوف چلانے والے کی کلائی اور پتلون تھامنے میں مدد کرتا ہے۔ ایسے لوگ جب کہیں بھتہ مانگنے جاتے ہیں تو پستول نا دکھانے پہ بھی انکی صحت دیکھ کر خدا ترس لوگ پہلے سے ہی الگ کرکے رکھی ہوئی کچھ خیرات زکوٰة اور صدقات ان کے سپرد کردیتے ہیں۔ تاہم اب خدا خوفی کی جگہ اسلحہ خوفی نے لے لی ہے لہٰذا پستول کی نمائش کے نتائج نہایت تسلی بخش نکلتے ہیں۔ ورنہ جس طرح کے موٹے تازے تھل تھلاتے تاجروں سے یہ بھتہ مانگا جاتا ہے اگر اسلحہ نہ ہو تو وہ ایسے نصف درجن کو لٹا کر ان پہ بیٹھ رہیں تو انکی سبھی پسلیاں سٹک لیں۔ کوئی اور صنعت تو اس شہر خراباں میں عرصے سے ترقی کا منہ نہ دیکھ سکی بس موبائل اور بوری کی صنعت دن دونی رات چوگنی ترقی کررہی ہے۔ واپس زندہ گھر پہنچ جانا ہی اب اس شہر کی سب سے بڑی عیاشی ہے –


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments