حیدرآباد کیس: کیا انڈیا کا عدالتی نظام ریپ کے مقدمات سے نمٹنے میں ناکام ہے؟


Protest banner

جنوبی انڈیا میں ایک نوجوان لڑکی کے ریپ اور قتل کے واقعے کے چار ملزمان کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت نے ایک بار پھر انڈیا میں ملک کے عدالتی نظام اور اس سے منسلک مشکلات پر بحث شروع ہوگئی ہے۔

سنہ 2017 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں روزانہ ریپ کے اوسطاً 90 واقعات کی شکایتیں درج ہوتی ہیں۔

اگرچہ حالیہ برسوں میں ریپ کے واقعات کی رپورٹنگ میں اضافہ ہوا ہے لیکن ریپ کے شکار افراد اپنے حملہ آوروں کو نسبتاً کم ہی سزا ہوتے ہوئے دیکھ پاتے ہیں۔

ہم نے اعداد و شمار پر غور کیا ہے اور یہاں انڈیا کا موازنہ دوسرے ممالک کے ساتھ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

‘بابا اپنے سادھوؤں کو نامرد بناتے تھے’

انڈیا میں نیا قانون: بچیوں کے ساتھ ریپ کی سزا موت

انڈیا: کیا سزائے موت ریپ کے واقعات روک سکتی ہے؟

عدالتی نظام میں کیا ہو رہا ہے؟

انڈیا کے دارالحکومت دلی میں 2012 میں ایک طالبہ کے ساتھ اجتماعی ریپ اور ان کے قتل کے واقعے کے بعد انڈیا میں خواتین کے خلاف ریپ اور جنسی تشدد کے معاملات کو زیادہ توجہ ملی تھی۔

اس واقعے کے بعد سے ریپ کے واقعات کی شکایت درج کرانے کے حوالے سے سرکاری اعداد و شمار نمایاں اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔ یہ تعداد سنہ 2012 میں 25000 سے بڑھ کر سنہ 2016 میں 38000 تک پہنچ گئی۔Rape cases reported in India. .  .

تازہ ترین اعداد و شمار سنہ 2017 کے ہیں جن کے مطابق 32559 ریپ کے واقعات کی شکایات پولیس تھانوں میں درج کرائی گئیں۔

لیکن ایسا لگتا ہے کہ انڈیا کی عدالتیں اس اضافے سے نمٹنے کے لیے مشکل میں ہیں کیونکہ 2017 کے آخر تک 127،800 سے زیادہ مقدمات زیرِ التوا تھے۔

سنہ 2017 میں صرف 18300 مقدمات کے فیصلے ہوئے۔

اگر سنہ 2012 سے مقابلہ کریں تو سنہ 2012 میں 20660 مقدمات کے فیصلے ہوئے اور 113000 مقدمات ابھی باقی تھے۔

ان مقدمات میں سزا کی شرح کیا ہے؟

جہاں تک ان معاملات میں سزا دیے جانے کا تعلق ہے تو سنہ 2002 سے 2011 کے درمیان 26 فیصد مقدمات میں عدالتوں نے ملزمان کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزا کا فیصلہ سنایا۔

جبکہ سنہ 2012 کے بعد سے سزا دیے جانے کی شرح میں قدرے اضافہ ہوا لیکن پھر سنہ 2016 میں یہ شرح کم ہو کر تقریباً 25 فیصد سے کچھ زیادہ رہ گئی۔

سنہ 2017 میں، سزا دینے کی شرح میں 32 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا۔

انڈیا کی عدالتوں سے انصاف حاصل کرنے میں جتنا وقت لگتا ہے اور جس طرح بعض اوقات متاثرین اور اہم گواہوں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے، اس کے باعث ملزمان کو سزا دلوانا مشکل ہو سکتا ہے۔

خاص کر اگر ملزمان کوئی نامی گرامی اور ہائی پروفائل شخص ہے یا جس کے سیاسی رابطے ہیں۔

مثال کے طور پر خود ساختہ روحانی گرو آسا رام باپو کا معاملہ لے لیں جنھیں سنہ 2018 میں جنسی تشدد اور ریپ کے معاملے میں سزا ہوئی۔ آسا رام باپو کے خلاف لائے گئے کم از کم نو گواہان پر حملے کیے گئے تھے۔

گذشتہ سال حکومت نے ریپ کے پرانے مقدمات کو نمٹانے کے لیے ایک ہزار اضافی فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم کرنے کی بات کی تھی۔

بین الاقوامی سطح پر انڈیا کی صورتحال کیا ہے؟

اںڈیا میں ریپ کے مقدمات میں سزا دینے کی شرح بعض ترقی پزیر ممالک کے مقابلے میں زیادہ نظر آتی ہے۔

Only about one in four rape cases in India end in conviction

سنہ 2017 کی ایک تحقیق کے مطابق جنوبی افریقہ میں عدالت تک پہنچنے والے ریپ کے مقدمات میں صرف آٹھ فیصد ملزمان کو ہی سزا سنائی گئی۔ جبکہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ کی سنہ 2018 کی ایک تحقیق کے مطابق بنگلہ دیش میں یہ شرح بہت ہی کم رہی۔

بعض ممالک میں جہاں ‎سزا دیے جانے کی شرح زیادہ ہے وہاں یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ کم مقدمات عدالتوں تک پہنچ پاتے ہیں اسی وجہ سے ریپ کے مقدمات میں مجموعی طور پر نسبتا کم ہی سزائیں ہوتی ہیں۔

برطانیہ کے کچھ حصوں میں بھی پولیس کو اطلاع دیے جانے والے ریپ کے واقعات اور عدالتی کارروائی ہونے والے مقدمات کی تعداد کے درمیان فرق بڑھ رہا ہے۔

دہلی

دہلی میں ریپ کا شکار خاتون کے لیے ہونے والا مظاہرہ

رواں سال انگلینڈ اور ویلز میں عدالت تک پہنچنے والے ریپ کے مقدمات کا تناسب ایک دہائی میں کم ترین سطح پر تھا جس کا سبب استغاثہ کی خواہش سے ہے کہ وہ سزا دیے جانے کی شرح کو 60 فیصد سے زیادہ رکھنا چاہتے ہیں۔

عالمی سطح پر صنفی مساوات کے لیے کیے گئے سروے میں زیادہ سکور کرنے کے باوجود، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے سویڈن اور دیگر نورڈک ممالک کو ریپ اور جنسی تشدد کے مقدمات میں سزاؤں کی نسبتاً کم شرح کے باعث تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

لیکن ریپ کی قانونی تعریف، پولیس کے ریکارڈ کرنے کے طریقۂ کار اور مقدمات چلانے کے نظام کے حوالے سے دنیا بھر کے ممالک ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

جنسی تشدد پر رد عمل کے معاملے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ تہذیبی و ثقافتی رویہ بھی متاثرہ افراد اور ان کے خاندان کو متاثر کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp