ہاتھیوں کو ڈرانا بند کرو


روایت ہے کہ ایک ریل گاڑی میں ایک نہایت ہی دانشور دکھائی دینے والا نوجوان کاغذ پر اپنا کاروبار شروع کرنے کا عظیم الشان منصوبہ تشکیل دے رہا تھا۔ ساتھ ہی کھڑکی کے ساتھ بیٹھے ایک نہایت دانشور دکھائی دینے والے بزرگ بھی کاغذی صنعت کا استعمال کر رہے تھے۔ مگر وہ کاغذ پر کچھ لکھنے کی بجائے ایک صفحہ پھاڑتے، اس کے ننھے ننھے پرزے کرتے، اور پھر ان پرزوں کو کھڑکی سے باہر اچھال دیتے۔ نوجوان نے شیخ سعدی کی گلستان بوستان پڑھ رکھی تھی اور بلاوجہ ہی ہر بزرگ کو دانا سمجھ کر حکمت سیکھنے تل پڑتا تھا۔

نوجوان کچھ دیر تک نہایت انہماک سے بزرگ کو پرزے باہر اچھالتے دیکھتا رہا۔ پھر بولا ”اے مرد دانا، کاغذ کے پرزے باہر اچھالنے میں کیا حکمت ہے؟ “

بزرگ نے نوجوان کو غور سے دیکھا اور کہنے لگے ”جنگل ویرانے میں بچھی ریل کی پٹڑی پر چلتی گاڑی کے سامنے بھیڑ بکری آ جائے تو کچلی جاتی ہے، گائے بھینس آ جائے تو ریل کو پتہ بھی نہیں چلتا اور اس کا قیمہ بن جاتا ہے، لیکن اگر سامنے قوی الجثہ ہاتھی آ جائے تو ریل گاڑی تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔ میں اسی تباہی کے خوف سے کاغذ کے پرزے بنا کر باہر پھینک رہا ہوں تاکہ ہاتھی ڈر کر ریل کے قریب بھی نہ پھٹکیں“۔

نوجوان نے اپنا چشمہ صاف کیا، اپنی مُنڈی کھڑکی سے باہر نکالی اور کچھ دیر تک نہایت غور سے باہر دیکھنے کے بعد گویا ہوا ”اے مردِ دانا، باہر تو دور دور تک کوئی ہاتھی دکھائی نہیں پڑتا“۔
تس پہ بزرگ مسکرائے، مٹھی بھر پرزے باہر اچھالے اور گویا ہوئے ”دیکھا کتنا کارگر نسخہ ہے۔ کسی ہاتھی کی جرات تک نہیں ہو رہی کہ ریل گاڑی کے قریب بھی پھٹکے“۔
نوجوان نے اپنا منصوبہ پھاڑا اور خود بھی ریل گاڑی کو ہاتھیوں سے بچانے میں مصروف ہو گیا۔ آخر کو جان ہے تو جہان ہے۔

تو صاحبو، ماجرا کچھ یوں ہے کہ اگر قوم کے دانا بزرگ نوجوانوں کو ارد گرد پائے جانے والے مرئی اور غیر مرئی ہاتھیوں سے اس حد تک خوفزدہ کر دیں کہ وہ اپنا کام دھندا ترک کر کے ریل گاڑی کو ہاتھیوں سے بچانے پر لگا جائیں تو قوم ترقی کرنے کی بجائے واہموں کا شکار ہو کر تنزل کا شکار ہو جاتی ہے۔ ہر کالا بادل اسے مہیب ہاتھی دکھائی دیتا ہے اور ہر گرج اسے ہاتھیوں کے حملے کی پکار سنائی دیتی ہے۔

یہی ماجرا ایک ایسی سیکیورٹی سٹیٹ کا ہوتا ہے جو وہ اپنے شہریوں کو باشعور اور منطقی سوچ والا بنانے کی بجائے بغیر دماغ کا روبوٹ بناتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ گنے چنے سرکاری منصوبوں میں تو وہ قوم آگے نکل سکتی ہے اور ہزاروں کلومیٹر دور تک مار کرنے والے میزائل یا ایٹم بم بنا سکتی ہے لیکن معاشی طور پر غربت و افلاس کا شکار بن جاتی ہے اور دنیا بھر سے منت سماجت یا دھونس سے پیسے مانگتی ہے۔

شمالی کوریا کی یہی کہانی ہے۔ جبکہ اسی قوم اور نسل کا جنوبی کوریا اس وقت معاشی طور پر نہایت خوشحال ہے۔ ایک ہی نسل اور ملک سے تعلق رکھنے والے ان دو ٹکڑوں کا یہ حال کیوں ہے؟ آئے ذرا تاریخ کے سمندر میں ایک ڈبکی لگاتے ہیں۔

جزیرہ نما کوریا پر سنہ 1910 سے لے کر 1945 تک جاپانیوں کا قبضہ رہا۔ جنگ عظیم دوم جب اختتام کو پہنچنے لگی تو جزیرہ نما کوریا کے شمالی حصے کو سوویت افواج نے ”آزاد“ کروا کر ادھر اپنا قبضہ کر لیا اور جنوبی حصے پر یہ خدمت امریکی فوج نے سرانجام دی۔ اعلان کیا گیا کہ انتخابات منعقد ہوں گے اور دونوں حصوں کا انضمام ہو جائے گا۔ سنہ 1950 میں شمالی کوریا کے لیڈر کم ال سنگ نے سوویت یونین کی شہ پر تن تنہا ملک کو متحد کرنے کی نیت سے جنوبی کوریا پر حملہ کر دیا۔ سنہ 1953 تک خونریز جنگ چھڑی رہی۔ پھر دونوں حصوں کے بیچوں بیچ ایک لائن آف کنٹرول بنا دی گئی۔

شمال میں سیکیورٹی سٹیٹ بن گئی اور جنوب میں اس زمانے کے رواج کے مطابق جمہوریت اور فوجی ڈکٹیٹر شپ کی کھچڑی پکتی رہی۔ 1962 میں جنرل پارک چنگ ہی نے اقتدار پر قبضہ کیا اور پھر 1988 تک جرنیل ”جمہوری طریقوں“ سے صدر بنتے رہے۔ اس کے بعد جمہوری دور شروع ہوا۔

ورلڈ بینک، ٹریڈنگ اکنامکس اور سی آئی اے ورلڈ فیکٹ بک سے لئے گئے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 1988 میں جنوبی کوریا کی جی ڈی پی ایک کھرب 92 ارب ڈالر تھی۔ سنہ 2018 میں یہ 16 کھرب 19 ارب ڈالر ہو گئی۔ سنہ 1990 میں پر کیپیٹا انکم 8260 ڈالر تھی جو 2017 میں 38260 ڈالر تک پہنچ گئی۔

شمالی کوریا کے اعداد و شمار کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکتی کیونکہ حکومت اپنی مرضی کا ڈیٹا فراہم کرتی ہے۔ بہرحال اس ڈیٹا کے مطابق سنہ 2017 میں اس کی جی ڈی پی جنوبی کوریا کے 1530 ارب ڈالر کے مقابلے میں محض 17 ارب ڈالر تھی۔ شمالی کوریا کی پر کیپیٹا انکم 1700 ڈالر تھی۔ 2018 میں جنوبی کوریا کی آبادی پانچ کروڑ 16 لاکھ تھی اور شمالی کوریا کی ڈھائی کروڑ۔

کیا وجہ ہے کہ 1945 میں ایک ہی ملک اور ایک ہی نسل کا شہری اب موجودہ زمانے میں ایک طرف صرف سال کے صرف 17 سو ڈالر کما رہا ہے اور دوسری طرف 38 ہزار ڈالر؟ شمالی اور جنوبی کوریا کا یہی فرق سیکیورٹی سٹیٹ اور باشعور شہریوں کی ریاست کا فرق ہے۔

شمالی کوریا نے اپنے شہریوں کی تعلیم و تربیت میں اس بات کو ترجیح دی ہے کہ وہ ریل گاڑی کو الٹانے والے ہاتھیوں سے ہر دم محتاط رہیں اور کاغذ کے پرزے اڑا اڑا کر انہیں ڈراتے رہیں۔ جنوبی کوریا نے اپنے شہریوں کو ہاتھیوں کی فکر سے آزاد کر کے صنعتی منصوبے بنانے اور جدید علوم کی تحصیل کی طرف راغب کیا ہے۔

اب جنوبی کوریا کو پیسوں کی ضرورت ہو تو وہ سیمسنگ کا موبائل یا ہنڈائی کی کار بنا کر دنیا کو بیچ ڈالتا ہے۔ شمالی کوریا کو پیسوں کی محتاجی ہو تو وہ جاپان کے سمندروں میں اپنا دور مار میزائل پھینک کر یا ایٹمی دھماکہ کر کے دنیا کو کہہ دیتا ہے کہ آؤ مجھے فوراً کچھ دے دلا دو ورنہ میں ڈوبنے لگا ہوں اور ساتھ تمہیں بھی لے ڈوبوں گا۔

ہم کیا بننا پسند کریں گے، شمالی کوریا یا جنوبی کوریا؟ ہم نے ہاتھیوں کو ہی ڈراتے رہنا ہے یا کوئی کام دھندا کر کے پیسے کمانے پر توجہ دینی ہے؟ دنیا پیسے کو پوجتی ہے، پیسہ پاس ہو تو جزیرہ نما عرب میں بھی مندر بن جاتے ہیں اور دنیا بات بھی توجہ سے سنتی ہے اور اسی پیسے سے جدید ہتھیار بھی مل جاتے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar