سہیل وڑائچ کو بلاول بھٹو کی آواز سنائی کیوں نہیں دیتی؟


چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کہاں خاموش ہیں؟ بلاول بھٹو زرداری کی آواز سنائی نہیں دیتی، سننا نہیں چاہتے یا سننے کاحوصلہ نہیں رکھتے؟

قومی اسمبلی ہو یا پریس کانفرنس یا جلسہ عام، چیئرمین بلاول بھٹو کا بیانیہ اندھوں کو درست سمت دکھانے کے مترادف ہوتا ہے۔ سہیل وڑائچ تو الفاظ کی حرمت کا ادراک رکھتے ہیں۔ ان سے چیئرمین پیپلز پارٹی کو چپ رہنے کا طعنہ دینے کی توقع نہیں تھی۔ وہ چیئرمین پیپلزپارٹی کا مظفر آباد کا خطاب ہی غور سے سنتے اور اپنے روزنامے میں حرف بہ حرف شائع کرنے کی جرات تو کرتے۔

سہیل وڑائچ سینیئر ترین صحافی اور کالم نویس ہیں۔ وہ یقیناً جانتے ہوں گے کہ بلاول بھٹو اپنے خطاب میں کس سے مخاطب ہوتے ہیں، کس کو چوٹ لگاتے ہیں۔ دراصل چیئرمین پیپلز پارٹی پسے ہوئے، کچلے ہوئے اور استحصال زدہ عوام کی بات کرتے ہیں جب وہ طاقت کا سرچشمہ عوام کو کہتے ہیں استحصالی ٹولے کے ماتھے پر شکن آجاتی ہے۔

مظفر آباد میں اپنے خطاب میں چیئرمین بھٹو نے کہا تھا “ارب پتیوں کے لیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم آتی ہے مگر کسانوں، مزدوروں، چھوٹے تاجروں اور چھوٹے دکانداروں کے لیے کوئی ایمنسٹی نہیں آتی، ارب پتی بنکرز اور ارب پتی اسٹاک بروکرز کے لیے بیل آوٹ پیکج لایا جاتا ہے مگرطلبہ نوجوانوں اور بزرگوں کے لیے کوئی بیل آوٹ نہیں۔

صاف ظاہر ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اگر غیر مراعات یافتہ طبقات کی بات کریں گے تو ان کی آواز کس طرح سننے میں آئے گی؟ جب چیئرمین پیپلز پارٹی اقتصادی راہداری کے حوالے سے اس کے بانی صدر آصف علی زرداری کا وژن یاد دلاتے ہیں کہ چین پاکستان سے اربوں ڈالر کی اجناس خریدے گا مگر نالائق حکومت نے سی پیک کو بھی متنازع بنا دیا تو شخصی مفادات کے اسیروں کو غصہ آ جاتا ہے، اپنے خطاب میں بلاول بھٹو نے سوال کیا تھا کہ ہمارا ملک زرعی پیداوار میں خود کفیل ہو چکا تھا آج ہر بڑی فصل کی پیداوار میں کمی کیوں ہو رہی ہے؟ یہ سوال ان طفیلی جڑوں کو ناگوار گذرتا ہے جو کسانوں کی حوصلہ شکنی کر کے ملک کی زراعت کو تباہ کرتے ہیں۔

چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مظفر آباد میں خطاب میں جو بات کی وہ کسی اور میں کرنے کی جرات ہی نہیں۔ انہوں نے کہا تھا “اگر آپ واقعی ایک پاکستان چاہتے ہو تو آپ کو یہ سوچنا ہوگا کہ آپ بڑے بڑے اداروں جن کا کام کاروبار کرنا ہی نہیں، جو ہماری معیشت میں کسی بھی کاروباری کے مقابلے میں سب سے زیادہ طاقتور اور بڑے ہیں، ان کو کب تک ٹیکس نیٹ سے باہر رکھیں گے۔ سب کو مل کراس ملک کی ترقی میں حصہ ڈالنا ہوگا کوئی مقدس گائے نہیں۔”

سہیل وڑائچ صاحب، آپ چپ کا طعنہ دینے سے پہلے بلاول بھٹوزرداری کے بیانیہ کو سنتے اور شائع تو کرتے۔

معاف کیجٸے گا صاحب، چیئرمین بھٹو تو سوشل ڈیموکریسی کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں اگر ان کی آواز آپ کو سنائی نہیں دیتی تو ممکن ہے کہ آپ کی کچھ مجبوریاں ہوں مگر صاحب ، چیئرمین بھٹو کے راستے میں کوئی مجبوری رکاوٹ نہیں۔ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ انگاروں بھرے راستے میں ان کے ساتھ کوئی چلتا ہے یا نہیں، ان میں یہ ظرف ہے کہ کسی کو کم حوصلہ ہونے کاطعنہ دینا تو دور کی بات ہے، شکوہ بھی نہ کرنے کا جگر رکھتے ہیں۔ جب وزیرستان کے عوام کے منتخب نماٸندوں محسن داوڑ اور علی وزیر کو دہشت گرد کہا جا رہا تھا تو چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آواز بلند کی کہ عوام کے منتخب نماٸندے دہشت گرد نہیں۔ وہ ان کے دفاع میں کھل کر سامنے آئے تھے۔

اصل بات یہ ہے کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری استحصال کے مارے طبقوں کی آواز ہیں اس لیے ان کی آواز کسی مراعات یافتہ کو سنائی نہیں دیتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).