شہریت ترمیمی بل: کیا انڈیا میں مسلمان تارکین وطن کے لیے کوئی جگہ نہیں؟


انڈیا

انڈیا کی پارلیمنٹ میں پیر کے روز شہریت کا ترمیمی بل (سی اے بی) پیش کیے جانے کی توقع ہے، جس میں ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے غیر ملکی تارکین وطن کو شہریت دینے کی تجویز دی گئی ہے لیکن مسلمانوں کو اس سے باہر رکھا گیا ہے۔

اس مجوزہ بل میں سنہ 1955 کے شہریت کے قانون میں ترمیم کی جا رہی ہے جس کے تحت بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے آنے والے ہندو، بودھ، جین، سکھ، مسیحی اور پارسی غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دینے کی تجویز ہے لیکن اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔

مرکزی کابینہ کے ذریعے منظور کیے گئے اس بل میں کہا گیا ہے کہ ان مذہبی برادریوں کے تارکین کو اس بنیاد پر شہریت دی جائے گی کہ انھیں اپنے سابقہ ملک میں ’مذہبی مظالم اور تفریق ‘ کا سامنا کرنا پڑا یا انھیں مذہبی جبر کا خدشہ لاحق تھا۔

اس بل سے ارونا چل پردیش، ناگا لینڈ اور میزورم کو مستثنیٰ رکھا گیا ہے جبکہ آسام، تریپورہ اور میگھالیہ کی شمال مشرقی ریاستوں کے قبائلی علاقوں پر بھی اس کا اطلاق نہیں ہو گا۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں مسلمان این آرسی سے خوفزدہ کیوں ہیں؟

مسلمانوں سے مذہبی تفریق کا قانون پاس ہو سکے گا؟

شہریت کا قانون : انڈیا کے ہندو ہی ہندوؤں کے مخالف کیوں؟

گذشتہ عشروں میں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے لاکھوں ہندو ، بودھ اور سکھ تارکین وطن انڈیا آئے اور عشروں سے شہریت کے بغیر یہاں رہ رہے ہیں۔ اس بل کا مقصد ان غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دینا ہے لیکن اس کا فوری سبب آسام میں حالیہ شہریت کے اندراج یعنی این آر سی کا عمل ہے۔

آسام میں پوری آبادی کی شہریت کے دستاویزات کی جانچ کے بعد انیس لاکھ ساٹھ ہزار باشندوں کو شہریت کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔ ان میں غالباً اکثریت بنگالی بولنے والے باشندوں کی ہے۔

اس مرحلے پر ان افراد کو غیر قانونی تارکین وطن نہیں قرار دیا گیا ہے لیکن انھیں اب غیر ملکی ٹرائیبیونلز میں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ غیر ملکی نہیں ہیں۔

اگرچہ این آر سی میں یہ عام نہیں کیا گیا ہے کہ انیس لاکھ ساٹھ ہزار باشندوں میں سے کتنے ہندو ہیں اور کتنے مسلمان لیکن پارلیمنٹ میں مختلف ارکان کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں بارہ لاکھ سے زیادہ ہندو ہیں۔

انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کئی بار یہ کہہ چکے ہیں غیر قانونی ہندو تارکین وطن کو ڈرنے کی ضرورت نہیں، حکومت انھیں پناہ گزیں تصور کرتی ہے اور انھیں شہریت دی جائے گی۔

انڈیا

دلی میں جمعے کے روز ہونے والے احتجاج میں شریک ایک نوجوان

حقوق انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بنگالی بولنے والے جن مسلمانوں کو شہریت کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا ہے ان میں ایک بڑی تعداد ایسے باشندوں کی ہے جو آسام کے شہری ہیں لیکن انھیں نام کی غلطیوں یا دستاویزات میں خامیوں کے سبب شہریت سے باہر کیا گیا ہے۔

دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مودی حکومت جن لاکھوں ہندو غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دینے کے لیے شہریت کا ترمیمی بل لا رہی ہے، آسام اور شمال مشرقی ریاستوں میں خود بی جے پی اس کی مخالفت کر رہی ہے۔

ابتدا میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس بل کی یہ کہہ کر مخالفت کی تھی کہ انڈیا ایک جمہوری ملک ہے اور آئین کی رو سے مذہب کی بنیاد پر کسی سے تفریق نہیں برتی جا سکتی۔ ان کی تجویز تھی کہ اس بل میں شہریت کے لیے مذہبی بنیاد کو ہٹا دیا جائے یا اس میں مسلمانوں کو بھی شامل کر لیا جائے لیکن حکومت نے ان کی تجویز کو مسترد کر دیا۔

حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس بل کے بارے میں اب مبہم رویہ اختیار کر رکھا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ بل کسی دشواری کے بغیر پارلیمنٹ میں منظور کر لیا جائے گا۔

انڈیا

اگر ایسا ہوا تو یہ جمہوری انڈیا میں مذہب کی بنیاد پر تفریق کا پہلا قانون ہو گا۔

حقوق انسانی کی تنظیموں اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس بل کے ذریعے مودی حکومت نہ صرف یہ کہ ہندو غیرقانونی تارکین وطن کو شہریت دینا چاہتی ہے بلکہ اس کا مقصد ملک اور دنیا کو یہ پیغام بھی دینا ہے کہ انڈیا اکثریتی ہندوؤں کا ملک ہے اور یہاں کی جمہوریت ہندو اکثریتی جمہوریت ہے۔

مودی اور امت شاہ نے آئندہ پارلیمانی انتخابات کی تیاریاں ابھی سے شروع کر دی ہیں۔

حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اب پورے ملک میں این آر سی کا نفاذ کیا جائے گا۔ امت شاہ نے کہا ہے کہ سنہ 2024 تک ایک بھی غیر ملکی مسلم تارکین وطن کو ملک میں رہنے نہیں دیا جائے گا۔

واضح رہے کہ اس طرح کی نفرت کی سیاسی مہموں سے بی جے پی ماضی میں بھی انتخابی فائدہ اٹھا چکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp