طلبہ یونین کی بحالی کے لئے سیاسی عزم درکار ہے


پاکستان کے تعلیمی اداروں میں آج سے تقریباًپینتیس سال پہلے ضیاء الحق نے مارشل لاء آرڈرزکے ذریعے طلبہ یونین پر پابندی عائد کی تھی۔ اس کے بعد طلبہ نے یونین کی بحالی کے لئے طویل جدوجہد کی تھی اور 1989 میں بے نظیر بھٹو نے حکومت میں آتے ہی یونین سے پابندی ہٹائی تھی اور کچھ تعلیمی اداروں میں یونین کے انتخابات بھی منعقد ہوئے تھے لیکن طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم کی وجہ سے آنے والے برسوں میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہ ہوسکا اور 1992 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک عبوری حکم سے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین، سیاست پر پابندی عائد کی اور طلبہ یونین کو تعلیمی اداروں کے گورننگ سٹرکچر سے علیحدہ کردیا، ساتھ ہی ساتھ تعلیمی اداروں میں داخلہ کے وقت طالب علموں کو سیاست سے باز رکھنے کے لئے ان کو حلف نامہ بھی جمع کرانے کا پابند بنا دیا گیا۔

اس فیصلہ کو اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل محمداویس قاسم نے چیلنج کیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلہ میں تعلیمی اداروں میں یونین اور غیر نصابی سرگرمیوں کی اجازت دے دی۔ لیکن آج تک یونین تعلیمی اداروں میں بحال نہ ہوسکی۔ آج کی نشست اسلامی جمعیت طلبہ کے مرکزی شوری کے رکن اور یونیورسٹی کیمپس پشاور کے ناظم اول شیر خان کے ساتھ رکھی گئی ہے۔ اول شیر خان متحدہ طلبہ محاذ کے جنرل سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں اور جامعہ پشاور میں 2017 میں سترہ روزہ تاریخی دھرنے میں فیسوں میں کمی اور طلبہ یونین کی باضابطہ بحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

سوال:طلبہ یونین کی بحالی کے لئے کچھ طلبہ نکلے تھے، اس حوالے سے اسلامی جمعیت طلبہ کا کیا موقف ہے؟

اول شیر خان:اسلامی جمعیت طلبہ کا طلبہ یونین کے حوالے سے ایک اصولی موقف رہا ہے کہ طلبہ یونین بحال ہوں۔ 1984 سے لے کر آج تک اسلامی جمعیت طلبہ نے ہر فورم پر چاہے وہ سپریم کورٹ آف پاکستان ہوں، چاہے وہ پاکستان کے آئینی ادارے ہوں جس میں قومی اسمبلی، سینٹ اور صوبائی اسمبلیاں شامل ہیں پر یونین کی بحالی کے لئے آواز اٹھائی ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کی جدوجہد کے نتیجے ہی میں 1993 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے تعلیمی اداروں میں یونین سازی کی اجازت دی ہے۔

2008 میں جب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے طلبہ یونین کی بحالی کا اعلان کیا تو بدقسمتی سے یونین بحالی کے لئے تشکیل کردہ کمیٹی کے چیئرمین کو پنجاب کے وائس چانسلر مجاہد کامران کو بنادیا گیا۔ مجاہد کامران نے اپنی طرح جیسے لوگوں، جو طلبہ یونین، طلبہ سیاست اور اس گرومنگ کے خلاف تھے جو طلبہ کی اس فورم کے ذریعے تعلیمی اداروں میں ہوتی تھی کے مخالف تھے۔ نتیجتاً انھوں نے حکومت کو یہ سفارشات پیش کیں کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی کوئی ضرورت نہیں۔

تعلیمی اداروں میں جو غیر سیاسی انجمینیں، سوسائیٹیز پروان چڑھی ہے ان کو مضبوط کیا جائے اور اسی ہی ایجنڈے کے مطابق حکومت نے کام کیا اس کے بعد میاں نواز شریف کی حکومت نے بھی یہی کام کیا۔ یونین کی بحالی کے لئے طلبہ کے حالیہ موومنٹ کی ہم تائید کرتے ہیں۔ اور اس حوالے سے اگلے ہفتے اسلامی جمعیت طلبہ آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرے گی جس میں تمام طلبہ تنظیمیں شرکت کرے گی۔ ہم نے طلبہ یکجہتی مارچ والوں کو بھی دعوت دی ہے۔ ہم تمام طلبہ تنظیموں کو ایک فورم پر بٹھائیں گے، ہم تمام تنظیموں کا اس بات پر موقف لیں گے اوراس ایشو پر تمام سٹیک ہولڈرزکو یکسو کریں گے۔ طلبہ یونین تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے، یہ وقت کی ضرورت ہے اور اس کی باضابطہ بحالی و انتخابات کے انعقاد کے ساتھ پاکستان کو محفوظ مستقبل جڑا ہواہے۔

سوال:اس بات کا بڑے زوروشور سے پروپیگنڈاکیا جاتا ہے کہ طلبہ یونین تعلیمی اداروں میں تشدد کا باعث بنتے ہیں۔ آپ بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟

اول شیر خان: ایک مثال لیتے ہیں کہ پاکستان میں ا الیکشن دوران تشدد ہوتا ہے، پاکستان میں اس طرح چناؤ کے دوسرے مرحلے ہوتے ہیں۔ اس کے اندر تشدد ہوتا ہے۔ لیکن آپ نہ کبھی الیکشن پر پابندی ہوئی ہے اور نہ الیکشن کو تشدد کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ لہذا طلبہ یونین کو تعلیمی اداروں میں تشدد کا ذمہ دار نہیں گردانا نہیں جاسکتا اور نہ ہی میں تشدد کی بنیاد پر آپ یونین پر پابندی عائد کرسکتے ہیں۔ طلبہ یونین کے ساتھ تشدد کو نتھی کرکے اس کو بدنام کیا گیا ہے۔

اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک انڈیپنڈنٹ تھینک ٹھینک ہے سراپا کی تحقیق اس حوالے موجود ہے۔ جس کے مطابق 1947 سے 1984 تک جتنے تشدد، خون ریزی کے واقعات تعلیمی اداروں کے اندر ہوئے ہیں اس سے دس گنا زیادہ واقعات یونین پر پابندی کے دور یعنی 1984 سے لے کر 2019 تک ہوئے ہیں۔ اگر اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تویہ بات سامنے آتے ہے کہ تعلیمی اداروں اور طلبہ سیاست میں ر تشدد کا عنصر طلبہ یونین پر پابندی کے بعد آیا ہے۔

یونین پر پابندی کے بعد تعلیمی اداروں میں قبضہ کلچر بڑھا ہے، لوگوں نے ون یونٹ بنانے کی کوشش کی، تعلیمی اداروں کو اپنی ذاتی جاگیر بنانے کی کوشش کی۔ میں یہ سمجھتاہوں اور اسلامی جمعیت طلبہ کا یہ دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ تعلیمی اداروں کے اندر طلبہ یونین جلداز جلد باضابطہ بحال کرکے اس کے انتخابات کا اعلان کیا جائے۔ طلبہ کو اپنی قیادت کے چناؤ کا حق دیا جائے تو تشدد کا یہ عنصر ختم ہوجائے گا َ۔ ساتھ ہی ساتھ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ طلبہ یونین کے لئے ایک آئینی فریم ورک کی ضرورت ہے جس کی رو سے پہلے طلبہ کی تربیت کا اگر موثر انتظام کرکے انتخابات کا انعقاد کیا جائے تو اس کے بہت مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

سوال:اگر حکومت انتخابا ت منعقد کرتی ہے تو اس حوالے سے اسلامی جمعیت طلبہ کے پاس کوئی ضابطہ اخلاق اور پروگرام ہے؟

اول شیر خان:طلبہ یونین انتخابات کے حوالے سے اسلامی جمعیت طلبہ کے پاس ضابطہ اخلاق بھی ہے اور سفارشات بھی۔ سراپا جو اسلامی جمعیت طلبہ کا ایک خودمختار تھنک ٹینک ہے نے پوری تحقیق کے بعد ایک لائحہ عمل تشکیل دے کر پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر تھنک ٹینکس جیسے پلڈاٹ نے بھی اس حوالے سے کافی کام کیا ہے۔ سینیٹ آف پاکستان کی فل ہاؤس کمیٹی کی ایک ریزولوشن اس حوالے سے موجود ہے۔ ضابطہ اخلاق کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

صرف پولیٹیکل ویل کی کمی ہے۔ اگر حکومت انتخابات کا اعلان کریں اور تاریخ دیں تو اس کے لئے ضابطہ اخلاق، آئینی فریم ورک کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ کوئی سیاسی جماعت اس حوالے سے رسک نہیں لینا چاہتی کہ طلبہ یونین کی بحالی سے تعلیمی اداروں کا کیا حال ہوگا۔ اس کے برعکس یونین دور کے ساتھ اگر موجودہ دور کے تعلیمی اداروں کے معیار کا موازنہ کیا جائے تو ایک واضح فرق نظر آتا ہے۔ آج کا تعلیمی معیار بہت گر چکا ہے اورتعلیمی معیار کی گرنے کی بڑی وجہ طلبہ یونین کی عدم موجودگی ہے، یونین کی عدم موجودگی کی وجہ سے طلبہ میں تخلیقی صلاحیتیں دم توڑ گئی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).