بھٹو، مجیب اور اندرا گاندھی کی سیاست


بنگلہ دیش کے سابق فوجی آمر جنرل حسین محمد ارشاد چودہ جولائی دو ہزار انیس کو انتقال کر گئے ان کی عمر نواسی سال تھی۔ ان کی وفات نے انیس سو ستر اور اسی کے عشروں کی سیاست کی یاد تازہ کردی۔ وہ عشرے اس خطے میں خاصی سرگرمی کے تھے آئیے ان پر نظر ڈالتے ہیں اور جنوبی ایشیا کے ممالک کی حالیہ سیاست کے پس منظر کوسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

انیس سو ستر کے عشرے کا پہلا نصف اگست 1975 میں اختتام کو پہنچا جب شیخ مجیب الرحمان اور ان کے خاندان کے تقریباً تمام افراد کو بنگلہ دیشی فوج کے کچھ باغی اہلکاروں نے قتل کردیا تھا۔ اس خونی عشرے کا اختتام 1981 میں ہوا جب بنگلہ دیشی صدر جنرل ضیاءالرحمان کو بھی کچھ فوج کے اہلکاروں نے قتل کیا۔

ایک طرح سے 1970 اور 1980 کے عشرے اس خطے میں شدید خونریزی لے کر آئے اور اس دوران میں بڑے لوگ قتل ہوئے، خانہ جنگی ہوئی، آئینی تبدیلیاں ہوئیں، آمریتیں قائم ہوئیں جو سول اور فوجی دونوں طرح کی تھیں۔ سول حکمران آمر بننے کی کوشش کرتے رہے اور فوجی آمر سول رہنماؤں اور اپنے فوجی مخالفین کو بھی ٹھکانے لگاتے رہے۔

انیس سو ستر کے عشرے کا آغاز مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی اور پھر جنگ سے ہوا۔ پھر افغانستان میں سردار داؤد، نور محمد ترہ گی، حفیظ اللہ امین وغیرہ قتل ہوئے اور ایک طویل خانہ جنگی شروع ہوئی جو آج چالیس سال بعد بھی جاری ہے۔ ایران میں کئی صدور اور وزرائے اعظم تبدیل ہوئے یا مارے گئے۔ پھر انقلاب کے بعد ایران، عراق جنگ آٹھ سال چلتی رہی جس میں لاکھوں لوگ ہلاک و زخمی ہوئے۔

پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں مرکوز کرنے کی کوشش کی حزب مخالف کو کچلا اور اس کوشش میں پہلے اپنے اقتدار سے اور پھر اپنی جان سے بھی گئے۔ بھارت میں بھی تقریباً ایسا ہی کچھ اندرا گاندھی نے کیا۔

چوں کہ ہم نے اپنی گفت گو کا آغاز بنگلہ دیش سے کیا تھا اس لیے بات وہیں سے شروع کرتے ہیں۔ جب جنوری 1971 ءمیں مجیب الرحمان کو ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی جیل سے رہا کیا تو بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت کے قائم مقام صدر اور وزیر اعظم عوامی لیگ کے رہ نما بالترتیب نذر الاسلام اور تاج الدین تھے۔

بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد مجیب الرحمان نے اقتدار سنبھالا اور بہت سے مسائل کا سامنا کیا۔ مثلاً مہاجرین کی بحالی اور ملک کی جنگ میں تباہی کے بعد اس کی تعمیر نو۔

اگر آپ اس دور کے بارے میں صرف ایک کتاب پڑھنا چاہیں تو پڑھیے ”بنگلہ دیش: اے لیگیسی آف بلڈ  Bangla Desh: A Legacy of Blood یہ کتاب 1971 ءسے 1986 ء تک کے بنگلہ دیش کے حالات کا تجزیہ کرتی ہے۔ اس کے مصنف ایک صحافی اینتھنwni ماسکاریناس ہیں۔

مجیب کا اقتدار صرف ساڑھے تین سال چلا جس میں شروع کے تین سال یعنی جنوری 1972 سے جنوری 1975 تک وہ بنگلہ دیش کے وزیر اعظم رہے اور پھر انہوں نے صدر بننے کا فیصلہ کیا جس عہدے پر وہ بہ مشکل آٹھ ماہ رہ پائے۔ بحیثیت وزیر اعظم کے ان کے تین سال پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی وزارت عظمیٰ سے زیادہ مختلف نہیں تھے۔ دونوں نے اپنے ممالک کو نئے آئین دیے اور پھر اس آئین کو توڑا مروڑا تاکہ خود اپنے اقتدار کو مضبوط کیا جاسکے۔

دونوں نے فوج پر قابو پانے کی کوشش کی، حزب مخالف کو کچلا۔ عدلیہ کو لگام دینے کی کوشش کی اور ایک طرح کا سوشلزم نافذ کرنے کی کوشش کی۔ دونوں کو شروع میں کامیابی ہوئی اور بالآخر فوج بے چین ہو گئی، حزب مخالف نے پھر سراٹھایا اور عدلیہ اقتدار کے بدلتے مراکز کے ساتھ اپنی وفاداریاں بدلتی رہی۔

بھٹو اور مجیب میں ایک اور مماثلت یہ تھی کہ دونوں نے نئی سیکورٹی فورس بنائیں جو براہِ راست وزیر اعظم کے ماتحت تھیں۔ بھٹو نے فیڈرل سیکورٹی فورس (ایف ایس ایف) اور مجیب نے نیشنل سیکورٹی فورس (جاتیہ راکھی باہنی) بنائی۔ دونوں کو حزب مخالف کے خلاف استعمال کیا گیا اور دونوں نے وزیر اعظم کی مرضی یا اس کے بغیر ظلم و ستم کے بازار گرم کیے۔ یہ فورس جمہوریت کے نام پر دھبہ بن گئیں اور اس کے زوال میں اپنا کردارادا کیا۔ دونوں نے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں کیں۔

بنگلہ دیش اور پاکستان میں ایک نمایاں فرق دونوں ملکوں کی افواج میں تھا۔ بنگلہ دیش کی کوئی منظم فوج نہیں تھی اور اس میں بھانت بھانت کی مکتی باہنیاں اور پرانے فوجی افسر اور سپاہی شامل تھے جو پاکستان میں پھنس گئے تھے اور جنہیں دو سال بعد بنگلہ دیش بھیجا گیا تھا۔

جب کہ پاکستان میں بھارت سے شکست کے بعد بھی ایک تھوڑا ناقص کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تھا جسے بہت جلد ٹھیک کرلیا گیا تھا۔ دونوں ممالک کی افواج کے اس فرق نے آئندہ برسوں میں ان ممالک کی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ بنگلہ دیش کا نیا آئین دسمبر 1972 ءمیں نافذ کردیا گیا جس کے تحت ایک مو ثر وزیر اعظم اور رسمی صدر کا عہدہ رکھا گیا تھا۔

دونوں ممالک میں چودھریوں کو صدر بنایا گیا۔ بنگلہ دیش میں پچاس سالہ ابو سعید چودھری اور پاکستان میں ستر سالہ فضل الٰہی چوہدری صدر بنائے گئے۔

فرق یہ تھا کہ بنگلہ دیش میں یک ایوانی پارلیمان بنی جب کہ پاکستان کی پارلیمان دو ایوانوں پر مشتمل بنائی گئی۔ بھٹو نے ”اسلامی سوشلزم“ متعارف کرایا جبکہ مجیب نے چار اصول وضع کیے جو تھے، قوم پرستی، سیکولر ازم، سوشلزم اور جمہوریت۔ بھٹو بھی جمہوریت اور سوشلزم کے اصول رکھتے تھے مگرانہوں قوم پرستی اور سیکولر ازم کو نعروں کے طور پر استعمال نہیں کیا۔

بھٹو اور مجیب میں ایک اور فرق یہ تھا کہ بھٹو نے 1970 ءکے انتخابات کے نتائج پر ہی اسمبلی بنائی جبکہ مجیب نے نئے انتخابات کا ڈول ڈالا جو 1972 ءکے آئین کے تحت ہوئے۔ بنگلہ دیش میں مارچ 1973 کو انتخابات کرائے گئے جبکہ پاکستانی آئین منظوری کے مراحل سے گزررہا تھا۔

بنگلہ دیش میں عوامی لیگ نے نئے انتخابات میں بھی بھاری اکثریت حاصل کرلی کیونکہ اس کے مقابلے میں کوئی بڑی مضبوط سیاسی جماعت موجود نہیں تھی جب کہ پاکستان میں بھٹو کو شروع سے ہی ایک متحرک حزب مخالف کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پھر بھٹو کو ریاستی امور کا تجربہ، مجیب سے عمر میں چھوٹے ہونے کے باوجود کہیں زیادہ تھا کیوں کہ وہ ماضی میں حکومتوں کا حصہ رہ چکے تھے۔ بنگلہ دیش میں مجیب اور اس کی کابینہ کے اکثر ارکان کو ایسا کوئی تجربہ نہیں تھا اور ان کا انحصار زیادہ تر افسر شاہی اور عوامی لیگ کے مختلف دھڑوں پرتھا۔

بھٹو اور مجیب دونوں نے اقتدار سنبھالتے ہی آئین بنایا مگر پھر اس میں ترامیم شروع کردیں۔ مجیب نے یہ کام پہلے شروع کیا اور 1973 میں ہی پہلی اور دوسری ترامیم منظور کرالیں۔ پہلی ترمیم کے ذریعے کسی بھی ایسے شخص پر مقدمہ چلا کر سزا دی جاسکتی تھی جو قتل عام یا انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب ہوا ہو۔ اس ترمیم کے ذریعے بعض بنیادی حقوق معطل کیے جاسکتے تھے۔

دوسری ترمیم بنگلہ دیش کے آئین میں ستمبر 1973 ءمیں کی گئی جس کے تحت ہنگامی حالات میں شہریوں کے حقوق سلب کیے جاسکتے تھے۔

پاکستان میں پہلی آئینی ترمیم اپریل 1974 میں ہوئی جس کا بظاہر مقصد آئین سے مشرقی پاکستان کا ذکر ختم کرنا تھا مگر اس کے ساتھ ہی شق نمبر 17 میں تبدیلی کرکے اجتماع کی آزادی پر قدغن لگائی گئی۔ پھر وفاقی حکومت کے نئے اختیار کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو ملکی سا لمیت کے خلاف قرار دیا جاسکتا تھا۔

بھٹو اور مجیب دونوں نے اپنے معیشتوں کو ریاستی ملکیت میں لے لیا اور بینک، صنعتی شعبے اسی طرح قبضے میں لے لیے جیسے بھارت میں اندرا گاندھی کرچکی تھی۔ ان تینوں ملکوں میں معاشی حالات خراب ہوئے اور بدعنوانیاں بڑھ گئیں۔

یہ کرپشن عوامی لیگ کے رہ نماؤں اور ارکان میں زیادہ تھا جس سے بنگلہ دیش کے 1974 کے قحط کے اثرات میں تباہ کن اضافہ ہوا۔ 1974 کے آخر تک مجیب اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ معاشی بدحالی اور سول نا فرمانی کو قابو کرنے کے لیے شدید اقدامات کی ضرورت ہے۔

پھر بنگلہ دیش میں چوتھی آئینی ترمیم لائی گئی جس کو جنوری 1975 میں منظور کیا گیا۔ اس کے تحت پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لایا گیا۔ مجیب بھٹو سے بھی ایک قدم آگے بڑھ گئے اور انہوں نے بنگلہ دیش پر ایک جماعتی نظام مسلط کردیا۔

مجیب نے جاتیا سنگ سدھ یعنی قومی اسمبلی اور عدلیہ کے اختیارات بھی کم کردیے جس سے سپریم کورٹ کی آزادی بھی سلب ہوگئی اور اب عدلیہ بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے محدود اختیارات کی حامل تھی۔

مجیب نے پہلی قومی اسمبلی کی مدت میں بھی اضافہ کردیا۔ اسی طرح کا اضافہ بھارت میں اندرا گاندھی نے بھی کیا تھا مگر وہ صدارتی نظام کی طرف نہیں گئی تھیں۔ اندرا گاندھی نے بھارت میں جون 1975 میں ہنگامی حالات کا نفاذ کیا اور شہری حقوق سلب کرلیے تھے۔ تمام حزب مخالف کو گرفتار کرلیا تھا، اخبارات پرسنسر لگا دیا تھا اور ہر طرح کے احتجاج پر پابندی لگادی تھی۔

بنگلہ دیش میں جنوری 1975 میں چوتھی آئینی ترمیم کے بعد پاکستان میں بھٹو نے فروری 1975 میں قومی اسمبلی سے بل منظور کرایا جس کے تحت دہشت گردوں پر مقدمات خصوصی عدالتوں میں چلنے تھے۔ پھر سب سے بڑی حزب مخالف جماعت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی لگادی گئی جس کے قائد خان عبدالولی خان تھے۔

اس کے کچھ ہی دن بعد تیسری آئینی ترمیم منظور کی گئی جس کے تحت زیر حراست افراد کے حقوق سلب کیے گئے اور قید کرنے والوں کے اختیارات بڑھائے گئے۔ حفاظتی حراست کے خلاف حقوق کم کیے گئے اور اس کا دورانیہ ایک ماہ سے بڑھا کر تین ماہ کردیا گیا۔ جس کے دوران کسی نظر ثانی بورڈ کے سامنے پیشی بھی ضروری نہیں تھی۔

اب پاکستان میں کسی بھی شخص کو غیر معینہ مدت تک حبس بے جا میں رکھا جاسکتا تھا اگر وہ ملکی سالمیت کے خلاف کام کرتا ہو یا دفاع پاکستان کو نقصان پہنچاتا ہو، گویا 1975 میں بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان میں تقریباً ایک جیسی حرکتیں ہورہی تھیں۔

بنگلہ دیش میں پانچویں آئینی ترمیم کے بعد مجیب نے عدلیہ اور مقننہ دونوں کو مفلوج کرکے ایک جماعتی نظام مسلط کیا تو اس جماعت کا نام بنگلہ دیش کرشک سرامک عوامی لیگ رکھا گیا جسے مختصراً بکسال کہا جانے لگا۔

اس جماعت میں تمام ارکان اسمبلی کی شمولیت ضروری قرار دی گئی اور خود مجیب اب ایک ہیرو سے زیادہ ولن بن چکے تھے۔ خود انہوں نے ماضی میں جنرل ایوب خان کے صدارتی نظام کے خلاف جدوجہد کی تھی مگر اب خود اپنے آئین کو توڑ مروڑ کر اسے جنرل ایوب کے 1962 کے صدارتی آئین سے بھی زیادہ آمرانہ بنا چکے تھے۔

بھارت میں جون 1975 میں اندرا گاندھی نے آئین کی دفعہ 352 کو استعمال کرتے ہوئے خود کو غیر معمولی اختیارات دے دیے۔ اب وہ بھی بھٹو اور مجیب کی طرح لوگوں کے حقوق سلب کررہی تھیں۔ حزب مخالف کے ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور بغیر کسی مقدمے کے حراست میں رکھا گیا۔

اسی دوران بھٹو حکومت نے کوڈ آف کریمنل پروسیجر CODE OF CRIMINAL PROCEDURE میں ترمیم کرکے عدالتوں سے یہ اختیار چھین لیا کہ وہ ضمانت قبل ازگرفتاری دے سکیں۔ اگر ملزم پر مقدمہ درج نہ ہو تو پاکستان میں اس طرح کی ضمانت سیاسی کارکنوں کے لیے ضروری تھی۔

اس سے قبل عدالتیں کسی بھی ایسے شخص کو ضمانت قبل از گرفتاری دے سکتی تھیں جس کو خدشہ ہوکہ اس کے خلاف مقدمہ قائم کیا جاسکتا ہے یا اسے عدالت پہنچنے سے قبل گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ اس ساری صورت حال میں سوال اٹھتا ہے کہ تینوں ممالک کی فوج اور عدلیہ کیا کررہی تھیں۔

بنگلہ دیش میں ایک چالیس سالہ جنرل کے ایم شفیع اللہ فوج کے سربراہ تھے جو فوج کی بے چینی کو نظر انداز کررہے تھے اور خود کو سیاست سے الگ رکھے ہوئے تھے لیکن پھر بھی وہ آنے والی بغاوت کو نہ روک سکے۔

بھارت میں فوج کے سربراہ پچپن سالہ ٹی این رائنا تھے جن کو اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ وہ ہنگامی حالات میں سول انتظامیہ کی مدد کریں مگر انہوں نے فوج کو سیاست سے دور رکھا تھا۔

پاکسان میں ساٹھ سالہ جنرل ٹکا خان فوج کے سربراہ تھے بلوچستان میں فوجی کارروائیوں میں بھٹو کی بھرپور مدد کررہے تھے۔ اس طرح بنگلہ دیش میں تو فوج بے چین ہوکر دھڑوں میں بٹ رہی تھی مگر بھارت اور پاکستان میں فوجی ڈھانچہ زیادہ مستحکم تھا گوکہ سیاست پر ان کی سوج بالکل الگ تھی۔

جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں ساٹھ سالہ جسٹس ابو صائم چیف جسٹس تھے جو سیاست سے دور تھے مگر مجیب کے قتل کے تین مہینے بعد فوج کا ساتھ دیتے ہوئے صدر کا عہدہ قبول کرلیا تھا۔ بھارت میں تریسٹھ سالہ جسٹس اے این رے چیف جسٹس تھے جن کا تقرر اندرا گاندھی نے انتہائی متنازعہ طور پر کیا تھا کیونکہ انہیں نوازا گیا تھا۔ جسٹس اے این رے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے حوالے کے ایک مقدمے میں حکومت کی حمایت کرچکے تھے۔ ان کے تقرر سے تین سینئر ججوں کی حق تلفی ہوئی تھی اور اس تقرر کو بھارتی سپریم کورٹ پر حملہ تصور کیا گیا تھا۔ ظاہر اس پر جسٹس رے نے اندرا گاندھی سے وفاداری نبھائی۔

پاکستان میں جسٹس حمود الرحمان چیف جسٹس تھے۔ جو 1969 سے عدلیہ عظمیٰ کے سربراہ چلے آرہے تھے۔ جب نیپ کا مقدمہ سپریم کورٹ میں پیش ہوا تو جسٹس حمود الرحمان نے ولی خان کے دو ججوں پر اعتراض مسترد کردیے۔ یہ جج بھٹو صاحب کے قریب ترین سمجھے جاتے تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ جسٹس حمود الرحمان جو خود مشرقی پاکستان کے تھے سیاسی رہنماؤں کو غدار قرار دیے جانے کے نتائج کے عینی شاہد تھے وہ بھی بھٹو صاحب کی آئینی توڑ پھوڑ میں ان کے ساتھ رہے۔

بنگلہ دیش میں ایک اہم عنصر یہ تھا کہ وہاں کی فوج میں تین گروہوں سے مختلف سلوک کا الزام تھا۔ یعنی ایک دھڑا سابق مکتی باہنی کے جنگ جوؤں پر مشتمل تھا جنہیں فوج میں شامل کرلیا گیا تھا۔ دوسرے وہ سابق باغی فوجی تھے جنہوں نے ریاست پاکستان سے بغاوت کرکے جنگِ آزادی میں حصہ لیا اور تیسرے وہ فوجی جو پاکستان میں دو سال پھنسے رہنے کے بعد رہا ہوکر بنگلہ دیش پہنچے تھے۔ اس آخری دھڑے کو عزت سے نہیں دیکھا جاتا تھا کیوں کہ انہیں طفیلی سمجھا جاتا تھا جو جنگِ آزادی لڑے بغیر آزادی کے مزے لے رہے تھے۔

اگست 1975 میں درمیانے درجے کے چند فوجی افسران نے اپنے طاقت ور صدر مجیب الرحمان کے گھر پر حملہ کرکے ان کو تین بیٹوں اور ان کے خاندانوں سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مجیب کی صرف دو بیٹیاں ملک سے باہر تھیں جو بچ گئیں اور جن میں سے ایک حسینہ واجد ہیں جو اس وقت بنگلہ دیش کی طویل ترین عرصے تک حکومت کرنے والی وزیر اعظم ہیں۔

بغاوت کے بعد مجیب کے ایک پرانے ساتھی مشتاق خوندکر نے قیادت سنبھالی اور فوری طور پر مجیب کی پالیسیاں بدل دیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ضرور اس بغاوت کی منصوبہ بندی میں شامل رہے ہوں گے۔

چند افسران کی بغاوت اور فوج کے سربراہ جنرل شفیع اللہ کی ناکامی سے بنگلہ دیش کی فوج میں اندرونی تضادات واضح ہوئے بظاہر تو فوج کے نائب سربراہ میجر جنرل ضیاءالرحمان بھی اس بغاوت سے لاعلم تھے مگر جیسے بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ وہ خود بھی اس سازش کا حصہ رہے ہوں گے کیوں کہ نئے صدر مشتاق نے جنرل شفیع کو ہٹا کر جنرل ضیاء کو فوج کا سربراہ بنا دیا۔

صدر مشتاق کے دور میں چار بڑے قومی رہنما بھی قتل کیے گئے جن میں سابق قائم مقام صدر نذر الاسلام، دو سابق وزیر اعظم تاج الدین اور منصور علی کے علاوہ عوامی لیگ کے سابق صدر قمر الزمان بھی شامل تھے۔

کیا پوری بنگلہ دیشی فوج مجیب کے خلاف اور مشتاق اور ضیا کے ساتھ تھی۔ ایسا نہیں تھا۔ چیف آف جنرل اسٹاف بریگیڈ ئیر خالد مشرف خوش نہیں تھے۔ جب صدر مشتاق نے بغاوت کے صرف ایک ماہ بعد مجیب کے تمام قاتلوں کو معافی دے دی تو مشرف نے مجیب کے حامی فوجیوں کے ساتھ مل کر منصوبہ بنایا اور نومبر 1975 میں ایک اور بغاوت ہوئی۔

فوج کے سربراہ ضیا الرحمان کو گرفتار کرکے مشرف نے خود کو ترقی دے کر میجر جنرل بنالیا اور فوج کا نئے سربراہ ہونے کا دعویٰ کیا۔ انہوں نے مشتاق کو ہٹا کر چیف جسٹس ابو صائم کو صدر بنایا مگر صرف تین دن بعد سات نومبر کو مجیب مخالف فوجی حاوی ہوگئے مشرف قتل کر دیے گئے اور ضیاءالرحمان ایک بار پھر فوجی سربراہ بن گئے۔

ضیاءالرحمان نے ابو صائم کو صدر برقرار رکھا اور اس طرح مجیب کے حامی خالد مشرف اور مجیب مخالف مشتاق خوندکر کی کہانی ختم ہوئی۔ اس سارے قتل و خون کا سب سے بڑا فائدہ جنرل ضیا الرحمان کو ہوا۔ اس طرح کچھ عرصے بعد پاکستان میں بھٹو فارغ ہوئے اور جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا اور ساتھ ہی بھارت میں بھی اندرا گاندھی اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).