مستنصر حسین تارڑ، میرے قلمی دوست


ابا جی کے دور میں ہمارے گھر میں کتابوں، رسائل اور اخبارات کی تعداد برتنوں اور کپڑوں سے زیادہ تھی۔ یہ کتب، رسائل اور اخبارات گھر میں پڑھے بھی جاتے تھے۔ ابا جی اسکول میں اردو ادب کے استاد تھے، اس لیے گھر میں ادبی، سماجی اور سیاسی شخصیات کا ذکر رہتا تھا۔ ان دنوں مستنصر تارڑ صاحب کی کوئی کتاب گھر میں موجود نہیں تھی پھربھی ان کا نام سنا سنا تھا اور وہ ہمارے لیے کوئی اجنبی شخصیت نہیں تھے۔

ان کی تحریروں سے پہلا تعارف ”پیار کاپہلاشہر“ سے ہوا۔ ایک دوست نے تعریفوں کے پل باندھ کر یہ ناول پڑھنے کو دیا۔ پڑھنا شروع کیا تو بس پڑھتا ہی گیا اور ختم کر کے ہی دم لیا۔ مجھ سے پہلے ایک سے زیادہ لوگ اسے پڑھ چکے تھے۔ ایک پڑھنے والے نے اس کے آخری صفحہ پر نوٹ لکھا ہوا تھا۔ : ’اؤ تارڑ کے بچے مجھے بہت غصہ آیا تم پر یہ کتاب پڑھ کر‘ ۔ میرے جذبات بھی کم وبیش کچھ ایسے ہی تھے۔ اس وقت عمر بھی ایسی تھی کہ تارڑ صاحب کے ہی بقول ہر بطخ راج ہنس نظر آتی تھی، اس لیے اس کو پڑھ کر جذبات کی شدت کا گراف کچھ زیادہ ہی اوپر چلا گیا۔

ان جذبات کے اظہار کے لیے کتاب پر تو کچھ تحریر نہ کیا، البتہ ”پاسکل“ کی مظلومیت پر ’تارڑ کے بچے‘ کو ایک عدد خط تحریر کر دیا کہ آپ نے پاسکل کو پیرس کے ریلوے اسٹیشن پر چھوڑنے کی بجائے ساتھ سوار کیوں نہ کیا۔ تارڑ صاحب نے فوری جواب دیا تو میں کافی حیران ہوا۔ میرے ذہن میں تھا کہ یہ شاعر، ادیب کہاں جواب دیتے ہیں۔ ویسے میں جتنے بھی شاعر اور ادیبوں کو خطوط لکھے، سب نے ہمیشہ جوابات دیے۔ تارڑ صاحب نے میرے خط کے جواب میں لکھا کہ آپ پہلے شخص نہیں ہیں جس نے مجھے ایسا کوسنوں بھرا خط لکھا ہے۔ جس نے بھی یہ ناول پڑھا، مجھے حسبِ توفیق برا بھلا ضرور کہا ہے۔ شاید ناول پڑھنے والوں کو پاسکل سے کچھ زیادہ ہی ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ آپ لوگ مجھے اس چیز کا کریڈٹ کیوں نہیں دیتے کہ میں بظاہر اپنا ایک نا پسندیدہ عمل آپ کے سامنے لے آیا ہوں، اس کو چھپایا نہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود ”پیار کا پہلا شہر“ اس قدر مقبول ہے کہ ایک راوی کے بقول (دروغ بر گردنِ راوی) تارڑ صاحب کا کہنا ہے کہ میرے گھر کے کچن کا خرچہ یہ ناول ہی نکال جاتا ہے۔ اس کے بعد ان کی اور کتب بھی پڑھیں اور ان کے ساتھ مزید خط و کتابت بھی کی۔ جب بھی ان کا خط لکھا ان کا جواب ضرور آیا۔

ملتان میں وہ جب بھی تشریف لاتے ہیں اکثر برادرم شاکر حسین شاکر ہی ان کے میزبان ہوتے ہیں۔ کافی عرصہ پہلے میں نے ان کی ڈیوٹی لگائی کہ اب کی بار جب وہ ملتان تشریف لائیں تو ان سے ملاقات ضرور کروائی جائے تا کہ اپنے قلمی دوست سے بالمشافہ ملاقات بھی کی جائے۔ شاکر صاحب نے اپنی ڈیوٹی پوری کی، ان کی آمد کی ہمیں اطلاع دی۔ ان کے ساتھ ایک شام بھی منائی جانی تھی، چنانچہ ہم نے وہاں پڑھنے کے لیے ایک مضمون بھی تیار کیا۔

افسوس عین موقع پر کسی مجبوری کے باعث ملتان نہ جا سکا۔ ملاقات کی خواہش بھی ادھوری رہ گئی اور ان کے لیے لکھا جانے والا مضمون بھی پڑھنے سے رہ گیا۔ میں ان دنوں ’نوائے وقت‘ ملتان میں ہفتہ وار کالم لکھا کرتا تھا، مذکورہ مضمون کالم کی صورت میں شائع کروایا اور اس کی کاپی تارڑ صاحب کو لاہور بھیج کر عدم شمولیت کا کچھ نہ کچھ ازالہ کرنے کی کوشش کی۔ تارڑ صاحب نے حسبِ معمول جواب دیا اور یہ کہہ کر میری بھرپور حوصلہ افزائی کی اگر آپ اس دن یہ مضمون تقریب میں پڑھتے تو وہاں پڑھے جانے بہترین مضامین میں سے ایک ہوتا۔ اس دوران عید آئی تو انہوں نے ایک خوبصورت عید کارڈ بھی بھیجا اور میری خواہش پر ایک تصویر مع آٹو گراف کے بھی روانہ کی۔

اس کے بعد ان کی مختلف کتابیں تو نظر سے گزرتی رہیں، لیکن افسوس کہ عرصہ ہوا خط وکتابت کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا، پھر بھی میں ان کو اپنا قلمی دوست کہتا ہوں، دیکھتے ہیں اپنے اس قلمی دوست سے ملاقات کب ہوتی ہے، آج کل ان کا ایک ”مشکل“ ناول ’بہاو‘ پڑھ رہا ہوں جس کے بارے میں محترمہ بانو قدسیہ نے فرمایا تھا کہ اس ناول کے بعد ان کو کچھ اور لکھنے کی ضرورت نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).