سعودی عرب عنقریب گلوبل سپورٹس کا مرکز ہوگا


اس مہینے 7 دسمبر 2019 کوسعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے باہرقدیم ترین شہر دیریا کے مقام پر کسٹم بلٹ با کسنگ ایرینا میں ابرطانوی شہری اینتھونی جا شوعاAnthony Joshua، اور میکسیکو کے اینڈی روئیز Andy Ruiz کے درمیان ہیوی ویٹ باکسنگ میچ ہؤا جس کو کلیش آف ڈونزClash of Dunes کا نام دیا گیا تھا۔ اینتھونی جا شوعا جو 2012 کا اولمپکس گولڈ میڈلسٹ ہے اس نے یہ میچ پوائنٹس پر جیت لیا۔ اوپن ائر سٹیڈیم میں 20,000 شائیقین بیٹھ سکتے۔ سامنے کی قطار میں بیٹھنے کی ایک سیٹ کی قیمت $ 13,000 تھی۔

اس میچ کی خاص بات یہ ہے کہ اس عالمی باکسنگ میچ کا میزبان کینیڈین سپورٹس کاسٹر عدنان ورک تھا جس کے والدین 48 سال قبل پنجاب سے کینیڈا ہجرت کرکے آئے تھے۔ عدنان امر یکہ میں DAZN ٹیلی ویژن میں سپورٹس اینکر ہے۔ جا شوا کو اس میچ کی فیس 60 ملین پاؤنڈ ملے گی۔ سعودی عرب نے اس میچ کو لانے کے لئے پچاس ملین ڈالر فیس ادا کی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں یہ پہلا میچ تھا جس سے ٹورازم میں زبردست ترقی ہوگی اور رفتہ رفتہ آئیل پر انحصار کم ہو نا شروع ہو جائے گا۔

اس عالمی میچ کے بعدجنوری 2020 میں سالانہ موٹر ریسنگ کا مقابلہ ہوگا جس کا نام Paris۔ Dakar rallyہے۔ فروری 2020 میں سعودی کپ میں ہارس ریسنگ کا مقابلہ ہونے جا رہا ہے جس کاتاریخ میں سب بڑا انعام $ 20 ملین ڈالر ہے۔ اس کے بعد مارچ 2020 میں عورتوں کایورپین گولف ٹورنامنٹ ہوگا۔ ایسے مقابلہ جات میں فارمولا ای موٹر ریسنگ، یورپین گولف، سپینش سپر کپ فٹ بال بھی متوقع ہیں۔ جدہ میں جنوری میں سپینش سوپر کپ ٹورنامنٹ منعقد ہوگا جس میں سپین کی چا ر ٹیمیں حصہ لیں گی بشمول بارسی لونا اور ریال میڈرڈ کے۔ امید کی جاتی ہے کہ اس ٹورنامنٹ سے اگلے تین سالوں میں 35 ملین یورو آمدہوگی۔

سعودی عرب نے عالمی کھیلوں کی طرف توجہ 2016 میں شروع کی تھی جب پرنس محمد بن سلمان نے اکنامک ڈیو یلمپنٹ پروگرام Vision 2030 کی داغ بیل رکھی تھی۔ گلوبل سپورٹس کو ملک میں لانا بھی ویژن 2030 منصوبے کا حصہ ہے۔ اس ضمن میں گراؤنڈ ورک کر نے کے لئے امریکہ میں سعودی سفیر پرنسیس ریما بند ر السعود نے ایک امریکی لابی انگ فرم کے ذریعہ نیشنل باسکٹ بال ایسو سی ایشن، میجر لیگ ساکر، ورلڈ سرف لیگ، اور فارمولا ون ریسنگ سے رابطہ قائم کیا تا ایسی عالمی کھیلوں کو سعودی عرب میں لا یا جا سکے۔

اس کے بعد دولت کے انبار اس ضمن میں لگنے لگے۔ سعودی عرب کی جنرل سپورٹس اتھارٹی نے اعلان کیا کہ وہ مقامی ایتھلیٹس اور ٹیموں کی تیاری اور عالمی کھیلوں کے مقابلوں کو سعودی عرب لانے کے لئے 650 ڈالر مختص کر دیے گئے ہیں۔ ریاض میں منعقد ہونے والی اکتوبر 2019 میں ایک انوسٹ منٹ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پرنس عبد العزیز بن ترکی الفیصل، چئیر مین جنرل سپورٹس اتھارٹی نے کہا کہ گلوبل سپورٹس کو ملک میں لانے سے کس طرح اقتصادی ترقی ممکن ہوگی اور ہزاروں جابز بھی پیدا ہوں گے۔ ملک میں تبدیلی لا نے کے لئے سپورٹس کا بڑا حصہ اور اس کو مزید ترقی دینا ہے۔ پرنس ترکی الفیصل کا کہنا ہے کہ ہماری آبادی سترہ سال سے چالیس سال کے درمیان ہے۔ یہ لوگ سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ یہی کچھ ہمارے ملک میں ہو۔

اس ضمن سعودی عرب میں باکسنگ کو خاص مقام مل ر ہا ہے جس کی بڑی وجہ پیٹرو ڈالرز ہیں۔ دراصل بات یہ ہے کہ سعودی عرب اپنی اکانومی کو ڈائی فرسے فائی، ملک کے اندر سپنڈنگ اور اپنے گلوبل امیج کو مثبت کر نا چاہتا ہے جو کہ جمال کاشوجی کے قتل کے بعد بری طرح منفی رنگ میں متاثر ہوا ہے۔ ملک کے اندر شہریوں کو بلا کسی جواز کے حراست میں لے لیا جاتا ہے اور انسانی حقوق کی بات کرنے والوں کو جیلوں میں سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ کو ئی شخص حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہیں کر سکتا۔ گلوبل امیج کو مثبت کر نے کے لئے مغربی ممالک کی کھیلوں ؛ یعنی ویسٹرن سپورٹس اور انٹر ٹین منٹ کو ملک میں رواج دیا جا رہا ہے۔

اس چیز کو لوگ منی لانڈرنگ کی طرح سپورٹس واشنگ Sportswashing کا نام دے رہے ہیں۔ سعودی عرب اور انٹر نیشنل برانڈز جیسے ورلڈ ریسلنگ انٹر ٹینمنٹWWE کے درمیان تعلق ابھی تک symbiotic ہے جس میں ہو سکتا ہے ایک تو فائدہ ہو مگر دوسرے کو نہیں۔ WWEجیسی کمپنیاں نت نئی مارکیٹس کی تلاش میں ہیں جب کہ سعودی عرب جیسے ممالک آئیل پر اکانومی کے انحصار کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں مغربی ممالک کی کمپنیوں اور فلمی ستاروں پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ سعودی عرب کی پبلک ریلشنز کی مہم میں مدد کر رہے ہیں۔

سعودی عرب کی کل آبادی 22 ملین میں سے دو تہائی کی عمر تیس سال سے کم کی ہے۔ اس امر کے پیش نظر پرنس محمد بن سلمان کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ملک کے اندر فارن انوسٹ منٹ لائیں تا ملک کی فنا نشل پو ٹینشل میں قابل قدر اضافہ ہو۔ محمد بن سلمان 2017 میں کراؤن پرنس بنائے گئے تھے جب سے ان کی کوشش رہی ہے کہ دنیا کو باور کرائیں کہ ان کا ملک معاشرتی طور پر تبدیل ہو رہا ہے۔ پچھلے ڈیڑ ہ سال میں اس ضمن میں جو اقدامات کیے گئے ہیں ان میں مووی تھیٹرز کا کھلنا ہے، عورتوں کو ڈرائیونگ کی اجاز ت مل گئی ہے، عورتوں اور مردوں کو ملنے جلنے میں آسانی، خواتین کوریستوران میں الگ دروازے سے داخل ہونا ضروری نہیں ہوگا اور وہ اپنے مردوں کے ساتھ بیٹھ سکیں گی، عورتوں کو سفر کے لئے مرد کی اجازت ضروری نہیں، عورتوں کو کھیلوں کے سٹیڈیم میں جانے کی اجازت ہے۔ اس سال اکتوبر کے مہینے میں ریاض فیشن ویک منا یا گیا جس میں ہپ ہاپ میوزک پر نوجوانوں کو ڈانس کرتے دیکھا گیا تھا۔

سعودی عرب اس وقت مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑی اکانومی اور خلیج کے ممالک میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ سعودی عرب اس ضمن میں قطر اور متحدہ عرب امارات کے نقش قدم پر چل رہا ہے جنہوں نے انٹرنیشنل سپورٹس کے میدان میں بلین در بلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ یوں یہ ایک ٹرینڈ بن گیا ہے کہ خلیج کے ممالک کی بادشاہتیں پیٹرو ڈالر بے دریغ خرچ کر کے سپر سٹارز اور گلوبل سپورٹس کے مقابلے اپنے یہاں منعقد کر وا رہے ہیں۔ اس ضمن میں فٹ بال (جس کو امریکہ میں ساکر کہاجاتا ہے ) کے مقابلے قابل ذکر ہیں کیونکہ 2022 کا وارلڈ کپ قطر میں منعقد ہوگا۔

ورلڈ کپ کا انفرا سٹرکچر بنانے کے لئے قطر $ 200 بلین ڈالر خرچ کر نے جا رہا ہے۔ ابو ظہبی فارمولا ون ٹریک بنانے کے لئے یاس YASجزیرے پر $ 40 ملین ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ ابو ظہبی نے مانچسٹر سٹی فٹ بال ٹیم کو خرید لیا ہے جبکہ دوہا نے پیرس سینٹ جرمین فٹ بال کلب میں حیران کن انوسٹ منٹ کی ہے۔ اس خرید و فروخت کا اثر موٹر سپورٹس، ٹینس، گولف اور باکسنگ پر بھی ہو رہا ہے۔ سعودی عرب قدی یا Qiddiyaسپورٹس اینڈ انیٹر ٹین منٹ پر ا جیکٹ پر بلین سے زیادہ ڈالر خرچ کرنے جا رہا ہے جس میں موٹر سپورٹس کمپلیکس اور اولمپک سٹائیل شہر ریاض کے قریب تعمیر کیا جائیگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).