معاشی استحکام کی نوید اور مہنگائی


ملک کی معاشی صورتحال کے بارے میں عالمی معاشی درجہ بندی کے ادارے موڈیز انویسٹر سروسز نے جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں حکومت کی جانب سے کی گئی معاشی اصلاحات کی روشنی میں اسے بہتر قرار دیا گیا ہے موڈیز کی رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے ماحول سازگار ہے اسی طرح ورلڈ بنک کی رپورٹ نے بھی پاکستان میں معاشی استحکام کے حوالے سے مثبت رپورٹ جاری کرتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کیاہے کہ پاکستان کو مختلف پروگرامز کے لئے آسان شرائط پر قرض دیا جائے گا۔

پاکستان میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی رپورٹس نے جو حوصلہ افزا اعشاریے دیے ہیں اس سے اخذ کرنا دشوار نہیں کہ اب ملکی معشیت دگرگوں حالات سے نکل کر استحکام کی جانب گامزن ہو چکی ہے جس کا ا ندازہ ان شواہد سے لگایا جا سکتا ہے سٹاک ایکسچینج میں تیزی ’روپے کی قدر میں استحکام‘ تجارتی و کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی جیسے مثبت اور معشیت کی بہتری میں تعمیری اعشاریے ہیں۔ اگر حکومت اور اس کی معاشی ٹیم معاشی استحکام کے لئے ایسے ہی ٹھوس اور عملی اصلاحات کرتی رہی تو یقیننا آئندہ سال فروری میں پاکستان انہی اصلاحات کی بنیاد پر ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں سے بھی نکلنے میں کامیاب ہو جائے گاکیونکہ پاکستان کی حکومت نے جو ایف اے ٹی ایف کو سفارشات بھجوائی ہیں ان ستائیس سفارشات میں سے پانچ سفارشات کو تسلی بخش قرار دیا گیا ہے اب دیگر اقدامات کی بنیاد پر فروری میں پاکستان کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنا ہے یا بلیک لسٹ کرنا ہے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے حکومت کے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہو چکی ہے۔

جہاں حکومت کے لئے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنا اور معاشی اصلاحاتی اقدامات اٹھا کر معاشی استحکام حاصل کرنا ایک چیلنج ہے وہیں ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ’پیداوار میں کمی‘ بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ’سرمایہ کاری میں کمی جیسے مہلک چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز جس انداز میں ان مسائل پر اپنی رپورٹس پیش کر رہے ہیں ان مسائل کے تدارک کے لئے حکومت کو مفاد عامہ کے لئے ترجیہی بنیادوں پر ٹھوس عملی قدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ ایسے مسائل ہیں جو عوام پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہوئے ان کی امیدوں اور خواہشات کے قاتل بن چکے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کو اب شاید ادراک ہو چکا ہے کہ مہنگائی میں بتدریج اضافی کی شرح نے غریب اور متوسط افراد کے منہ سے نوالہ تک چھین لیا ہے حکومت کے ڈیڑھ سالہ دور اقتدار میں جس طرح مہنگائی کا جن بے قابو ہو کر عوام کے سر پر فرشتہ اجل بن کر منڈلا رہا ہے اس سے جہاں حکومتی گورننس سوالیہ نشان کی زد میں ہے وہیں ایسے مسائل کے تدارک کے لئے اداروں کی کارکردگی بھی کھل کر سامنے آچکی ہے ۔ضلعی پرائس کنٹرول کمیٹیاں مہنگائی پر قابو پانے میں اس لئے ناکام ہیں کیونکہ بازاروں اور مارکیٹوں میں ان کا کوئی چیک نہیں ہے جس کی وجہ سے ذخیرہ اندوزوں اور خود ساختہ مہنگائی کے ذمہ دار دکاندروں کو کھلی چھوٹ مل چکی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ضلع کی سطح پر ایسا میکنزم بنایا جائے تاکہ عوام کو درپیش مسائل کا ازالہ ہو سکے ۔ایسا نہ ہو کہ ان مسائل کے باعث عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے معاشی استحکام کی رپورٹس کے اعشاریے اپنی جگہ لیکن ان وجوہات اور محرکات کا جائزہ لینے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ عوام تک ثمرات کیوں نہیں پہنچ رہے۔

پاکستان کی کمزور معشیت کو سنبھالا دینے میں دوست ممالک نے کلیدی کردار ادا کیا۔  تحریک انصاف کی حکومت کو دوست ممالک نے اگست 2018 ء سے ستمبر 2019 ء کے درمیان ایک اعشاریہ آٹھ ارب روپے کے قرضے دیے ان ممالک میں چین سر فہرست اور سعودی عرب دوسرے نمبر پر ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے جس انداز میں بیدردی کے ساتھ ملک و ملت کے وسائل اور دولت کے ساتھ کھلواڑ کیا اسی کا نتیجہ ہے کہ موجودہ حکومت کو ملکی تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ میں سمجھتا ہوں حکومت کی معاشی اصلاحات کا ہی نتیجہ ہے کہ آج بین الاقوامی ادارے اس کی بہتر معشیت کے مثبت اعشاریے دے رہے ہیں۔ ملک کی دگرگوں معشیت اور بین الا اقوامی قرض کی ادائیگی حکومت کے لئے بہت بڑا ٹیسٹ کیس بن چکا ہے۔

احتساب کے عمل کے ساتھ ساتھ حکومت کو ادراک ہونا چاہیے کہ ملکی تاریخ کا مشاہدہ یہی ہے کہ پاکستان کی سیاست میں ایسے ایسے سانحات پیش آچکے ہیں جس کے باعث اس وطن عزیز کا کوئی بھی منتخب وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکا۔ جو کہ ملکی سیاست کے باب کی بہت تلخ حقیقت ہے۔ ڈیڑھ سالہ تحریک انصاف کی حکومت کو موجودہ حالات اور ملک کی سیاسی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے ملک و ملت کے مفادات کے پیش نظر ٹھوس عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے ۔کیونکہ حالات کس کروٹ بیٹھتے ہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ لیکن اس بات سے انکاری نہیں کہ ملک کی سیاست ایک کرکٹ کے میدان سے مختلف نہیں جہاں ممکنات کی سوچ عملی طور پر ہر دور میں موجود رہی ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ اپنے بقیہ ساڑھے تین سالہ دور حکمرانی کو ملک و ملت کے لئے ایک مثالی بنائے تاکہ اس ملک کی سول حکومت کا یہ باب آئندہ اقتدار میں آنے والوں کے لئے ایک رول ماڈل کے طور پر دیکھا جائے۔ اس وقت سول ملٹری قیادت کے درمیان کوئی تناؤ نہیں جس کی بنیاد پر یہ بات عوامی و سیاسی حلقوں میں بڑی شدت کے ساتھ ازبر ہو چکی ہے کہ نمبر گیم پر قائم تحریک انصاف کی حکومت بہت طاقتور ہے ۔جسے ملکی سیاسی تاریخ میں سب سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے اور سول ملٹری قیادت کا ایک صفحہ پر ہونا حکومت کے مضبوط ہونے کی دلیل ہے۔

بہر حال قدرت کے فیصلوں کے لئے وقت اور جگہ کے تعین کا کسی کو علم نہیں لیکن تحریک انصاف کی حکومت کی جانب عوام ایک امید کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔ لیکن اب حکومتی بیانیے اور اچھے دنوں کی نوید سنانے سے زیادہ عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تا کہ معاشرے میں بسنے والے غریب اور متوسط طبقے کے مسائل کم ہو سکیں۔ اگر کابینہ میں موجود سیاسی مہرے اس قابل نہیں کہ ان کی وزارتیں عوام کے بنیاد ی مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہیں تو عمران خان کو چاہیے کہ ان کھوٹے سکوں سے اس ملک و ملت کی جان بخشی کروائیں۔ ساڑھے تین سال کے کم عرصے میں حکومت کے لئے عوام کو ریلیف فراہم کرنا یقیننا عملی اقدامات کی بدولت ممکن ہے لیکن اب عوام کو ریلیف دینے سے ہی تحریک انصاف کی حکومت ایک بہتر طرز حکمرانی کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔ جس کے لئے مشکل اور عملی فیصلوں کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).