کردار کشی اور رازداری کے حقوق


دنیا میں مقیم حضرت انسان نے جہاں جدت سے استفادہ حاصل کیا، وہیں اسے جدید طرز کے نقصانات بھی اٹھانے پڑے۔ یوں تو برسوں پہلے بھی کسی حد تک انسان کی رازداری غیر محفوظ تھی اور انسانی کردار پر انگلیاں اٹھانے والے بھی موجود تھے۔ تاہم وقت کی رفتار کے ساتھ کردار کشی میں بھی جدت آگئی ہے اور اسی فضاء میں مخلوق انسان کی ذاتی رازداری بھی پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہے۔ سوشل میڈیا کے غلط و بے جا استعمال نے انہیں پروان چڑھا یا ہے۔ وقت کی رفتار دیکھئے! بنی نوع انسان اپنے ہی بنائے ہوئے گڑھوں میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔

کردار کشی بنیادی طور پر کسی کے کردار پر انگلی اٹھانے کو کہتے ہیں۔ اس سے مراد کسی شخص، ادارے، یا گروہ کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لئے اس کے بارے جھوٹی افواہیں پھیلانا، الزامات عائد کرنا اور معلومات میں ہیرا پھیری کرنا وغیرہ ہے۔

زمانہ قدیم میں لوگ ذاتی رنجش یاحسد کی بنا پر کسی کی کردار کشی کیا کرتے تھے۔ جو محض ایک محلے میں مقیم چند شخصیات تک محدود ہوتی تھی۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ کردار کشی کا دائرہ کار وسیع ہوتا چلا گیا۔ لوگ زبانی کہانیاں گھڑنے لگے، تقاریر کے ذریعے محفلوں اور پنڈالوں میں کردار کشی کا سلسلہ کا ر بڑھنے لگا۔ نفرت کے بیوپاری اس کی آگ کو سلگانے لگے۔ سلسلہ کار مزید بڑھا تو بات اشتہاروں اور خاکوں تک جا پہنچی۔ دور حاضر میں ان سب طریقوں کے ساتھ ساتھ ترمیم شدہ تصاویر اور ویڈیوز نے بھی لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنا رکھی ہیں۔

موجودہ دور میں سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے نامور شخصیات کی کردار کشی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سوشل میڈیا اس کا محور ہے۔ گزشتہ روز ایک مشہورگلوکار کی اہلیہ بارے بھی جعلی ویڈیو گردش کرتی رہی۔ جسے بعد ازاں ایف آئی اے نے جعلی قرار دے دیا۔ ایسے ہی کئی سپر اسٹارز کی زندگیاں کردار کشی کا نشانہ بن چکی ہیں۔ کردار کشی کا سلسلہ پوری دنیا کو لپیٹے ہوئے ہے۔ جس کی بدولت ہر سال ہزاروں گھر اجڑ رہے ہیں، زندگیاں ختم ہو رہی ہیں، اور لوگ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

کردار کشی کے منفی نتائج معاشرے میں مزید برائیوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ کوئی بھی مذہب اور آئین کردار کشی کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام نے بغیر کسی گواہ کے کسی پر الزام عائد کرنے کوگناہ قرار دیا ہے۔ سورۃنور میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ کردار کشی، ایک قسم کی بہتان تراشی ہی ہے۔ اور بہتان تراشی ایک سنگین گناہ ہے۔

بات رازداری کی ہو تو یہ ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ کسی کی ذاتی زندگی میں دخل دینا قبیح عمل ہے۔ دنیا بھر میں ہر مذہب، معاشرہ اور آئین لوگوں کی رازداری کا خاص خیال رکھتا ہے۔ حتی کہ حکومت، ایجنسیوں، اور دیگر قانون لاگو کرنے والے اداروں کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بغیر اطلاع کے کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت کریں۔ کسی کی جاسوسی کریں، اور حرکات پر نظر رکھیں۔ اگر کوئی ایجنسی یا ادارہ دہشت گردی کے خدشے میں کسی فرد کی معلومات حاصل کرے۔ تو سوائے اپنے قانونی فرائض پورے کرنے کے، اسے کوئی حق نہیں کہ وہ کسی کے ذاتی زندگی بارے کوئی انکشاف کرے۔

دیگر ممالک کی طرح جہاں جدید انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے نظام نے لوگوں کی رازداری کو افشاء کرنے کا سلسلہ کار بڑھا دیا ہے۔ وہیں پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں ہے۔ سوشل میڈیا پر دوسروں کے اکاؤنٹ ہیک کر کے، ان کی ذاتی تصاویر، میسجز اور ویڈیوز شیئر کرنا جیسے معمول کا کام بن گیا ہے۔ ہر عام و خاص اس کی زد میں ہے۔ ہیکرز لوگوں سے بھاری رقوم اور دیگر ناجائز مطالبات کرتے ہیں اور مطالبات پورا نہ کرنے کی صورت میں صارفین کو معاشرے میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے لڑکے، لڑکیاں، سپر اسٹارز، میڈیا پرسنز، سیاستدان، عدلیہ حتی کہ اساتذہ بھی اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ اس نہ رکنے والے سلسلے نے سینکڑوں لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے۔ متعدد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

پاکستان میں گزشتہ چند عرصے میں ایسے واقعات سامنے آ چکے ہیں، جن میں سینماؤں، شاہراؤں اور دیگر سرکاری اور نجی مقامات پر لگے سی سی ٹی وی کیمروں سے بنی لوگوں کی ذاتی نوعیت کی ویڈیوز بھی شیئر کی گئیں۔

مانتے ہیں کہ سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت جرائم روکنے اور مجرموں تک پہنچنے میں بہت مدد ملی۔ مگر ٹیکنالوجی کے غلط استعمال نے لوگوں کی زندگیاں داؤ پر لگا دی ہیں۔ اگرچہ شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں نازیباحرکات موجود ہیں تاہم اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ انہیں سوشل میڈیا پر شیئر کیا جائے۔ بلکہ ایسے عمل کو لوگوں تک پہنچائے بغیر اس پر قانونی طریقہ سے بھی کام کیا جا سکتا ہے۔ تاہم شیئر کرنے والوں کے ارادے کچھ اور ہی ہوتے ہیں، اور اس عمل کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے۔

اسی ضمن میں گزشتہ روز سے لاہور ہائیکورٹ میں سلمان صوفی کی درخواست کو سماعت کے لئے مقرر کیا گیا۔ جس میں موقف اپنایا گیا کہ سی سی ٹی وی کی موجودگی میں لوگوں کی رازداری کو تحفظ فراہم کیا جائے اور باقاعدہ قانون سازی کی جائے۔ یہ اس نوعیت کی شاید پہلی درخواست ہے۔ امید ہے کہ اس درخواست کے ذریعے عدالت بہت سے معاملات کو حل کرنے کے لئے نہ صرف مثبت تجاویز فراہم کرے گی۔ بلکہ عملدرآمد کے لئے احکامات بھی جاری کرے گی۔

آئے روز سوشل میڈیا جیسے واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام اور دیگر سماجی ایپس پرہیکرز نت نئے سائبر حملے کر تے ہیں۔ جس سے لوگوں کی ذاتی معلومات چوری کر کے، انہیں بلیک میل کرتے ہیں۔ ایسی لاکھوں شکایات ایف آئی اے سائبر ونگ میں زیر التو ا ہیں، جن پر عملدرآمد کے لئے لوگ منتظر ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا! سائبر جرائم کی بڑھتی شکایات کے ساتھ، اس پر عملدرآمد کے لئے قانونی دائرہ کار بھی بڑھایا جاتا۔ تاکہ زیر التوا معاملات انجام تک پہنچتے۔

پاکستان میں ایسے قوانین تو موجود ہیں، مگر ان پر جدید تقاضوں کے تحت عمل درآمد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جس سے نہ صرف بلیک میلنگ کامکروہ دھندہ کم ہوگا بلکہ لوگوں کی زندگیاں بھی سہل ہوں گی۔ معاشرے پر بڑھتا ہوا نفسیاتی بوجھ بھی کافی حد تک کم ہوجائے گا۔ کردار کشی کے خلاف موثر کارروائی اور رازداری حقوق کا تحفظ ملکی شہریت رکھنے والوں کا بنیادی حق ہے۔ امید کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت ان معاملات میں جدید تقاضوں کے تحت ٹھوس عملی اقدامات کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).